کرکٹ میں پہلے تو صرف میچ ہی نہیں ورلڈ کپ بھی فکس ہوا تھا مگر اس بار اگر ایک سیریز کو بھونڈا ڈرامہ کر کے منسوخ کر دیا گیا ہے تو صائب الرائے حلقوں کو مایوسی ہر گز نہیں ہوئی ۔ہاں آپ تعجب کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں۔اس لئے حکام کو مستقبل کی سیریز یا لیگ پر فوکس کرنا ہوگا۔
جنوبی ایشیا میں کرکٹ ایک جنون کا درجہ رکھتی ہے اور ایک مصنوعی دو ائی کے طور کام آتی ہے۔اس سے لوگوں کی توجہ کسی ایسی سرگرمی کی طرف مرکوز کی جاتی ہے جس سے وہ ایک عارضی خوشی میں مبتلا رہیں‘ اس لیے موجودہ صورتحال میں اتنا زیادہ افسوس زدہ شور سننے اور دیکھنے کو مل رہا ہے۔ہمارے علاقے میں زیادہ شیدائی فلمی ہیروز اور سنگرز کے ہوتے ہیں مگر جب معاملہ کرکٹ کا آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سب سے آگے ہے اور اس کھیل کے شیدائی ہی نہیں تماشائی ہوتے ہیں جو میدان میں ‘ٹی وی یا پھر موبائل پر یہ کھیل نما تماشا دیکھتے ہیں ۔واضح رہے کہ تماشا ایک ایسا کھیل ہوتا ہے جو پہلے سے طے ہوتا ہے مگر دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے اس میں ایسے اتار چڑھائو رکھے جاتے ہیں تا کہ دلچسپی برقرار رہے۔کرکٹ کے متعدد ریٹائرڈکھلاڑی یہ بیانات دے چکے ہیں کہ اب اس کھیل میں نتیجہ پہلے سے فکس ہوتا ہے۔جیسا ذکر ہوا ورلڈ کپ کا‘ جو بھارت میں کھیلا گیا اور بھارت ہی نے سری لنکا کو فائنل میں ہرا کر جیتا تھا ۔اسی وقت سے بازگشت چل رہی تھی کہ فکس ہے مگر سری لنکا کے وزیر کھیل کے بیان کے بعدیہ بھانڈا مکمل پھوٹ گیا ۔اس لئے اگر پہلے سے طے شدہ سیریزاپنے وقت اور طریقے سے منسوخ کر دی گئی تو قطعاًمایوسی کی بات نہیں کیونکہ اگر کھیل اور قومی وقار کا بھرم رکھنا ہوتا تو ڈپلومیسی کے تحت اس کو کوڈ کے نام سے منسوخ کیا جاسکتا تھا جس کے بعد بین السطور کہہ دیا جاتا ہے کہ ان کو سکیورٹی پر تحفظات تھے۔ واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم چار دن سے اسی میدان میں پریکٹس کیلئے بھی جا رہی تھی ۔
کھیلوں میں سیاست کی شمولیت یا کھیلوں کو سیاست کیلئے استعمال کرنا اب معمول بن چکا ہے۔ماضی میں سرد جنگ کے دوران روس اور امریکہ ایک دوسرے کے ہاں منعقد ہونے والے اولمپکس میں شرکت نہ کرکے اپنی نفرت بھر ی ناپسندیدگی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے ۔امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کے اتحادی بھی شرکت نہیں کرتے تھے‘اس کی سب سے بڑی مثال 1980ء کے روس میں ہونے والے اولمپکس تھے جن میں کسی بھی امریکی اتحادی ملک جیسا کہ( مغربی ) جرمنی ہالینڈ‘آسٹریلیا‘ پاکستان‘برطانیہ وغیرہ کی عدم موجودگی میں بھارت آرام سے چیمپئن بن گیاتھا ۔بھارت اپنے ہاں ہونے والی ٹی ٹوئنٹی لیگ میں پاکستان کے کھلاڑیوں کو نہ بلا کر اس لیگ کے رنگ پھیکے کر لیتا ہے‘اسی طرح اپنے کھلاڑی سری لنکا‘ بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز کی ٹی ٹوئنٹی لیگز میں نہ بھیج کر ایک خود ساختہ سی حاکمیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔انڈیا کی اپنی یہ لیگ میچ فکسنگ اور جوئے کے حوالے سے اتنی زیادہ عریاں ہے کہ بھارت کو تین عالمی مقابلے جتوانے والے دھونی کی ٹیم چنائی سپر کنگز کو 2016ء اور 2017ء میں پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔لیکن اہم بلکہ بھونڈی بات یہ تھی کہ دھونی اور سپر کنگز کے دیگر کھلاڑیوں پر پابندی نہیں لگی تھی بلکہ یہ کھلاڑی کسی اور نام کی ٹیم سے یہ ٹورنامنٹ کھیلتے رہے تھے۔ اسی کے ساتھ راجستھان رائل کو بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ واضح رہے یہ سزا ایک جج جسٹس لودھا نے دی تھی نہ کہ کسی بھارتی کرکٹ اتھارٹی نے۔ اس ضمن میں بھارت میں ریاست کے اندر ریاستـ کی عملی شکل اس وقت دیکھنے کو ملی تھی جب سری لنکا کے کھلاڑیوں کو بھارت کی ریاست تامل ناڈو کے شہر چنائی میں انڈین پریمئر لیگ میں میچز مقامی سیاسی گروہوں کی دھمکیوں کے بعد کھیلنے کی اجازت نہیں ملی تھی ۔یہ2013ء اور 2014ء کے واقعات ہیں لیکن بھارت کی اس کھلی بے بسی کا کوئی خاص ذکر نہیں ہوا تھا۔تامل ناڈو ‘جیسا کہ نام سے ہی لگتا ہے تاملوں کی ریاست ہے اور ان لوگوں کا ماننا ہے کہ سری لنکا نے اپنے ملک میں تاملوں کے ساتھ سخت گیر رویہ رکھا تھا اس لئے وہ سری لنکا کے کھلاڑیوں کو اپنی ریاست میں نہیں کھیلنے دیں گے۔ اب آپ اس دھمکی کی بنیاد پر سری لنکن کھلاڑیوں کو نہ کھیلنے کے واقعے پر غور کریں تو بھارت سرکار اور اس کے سکیورٹی اداروں کی بے بسی کا اندازہ لگائیں ۔اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ دیگر غیر ملکیوں نے کسی قسم کے سکیورٹی تحفظات کا اظہار نہیں کیا تھا اور کھیلتے رہے تھے ۔
کرکٹ کا کھیل گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے ‘جس کو عام زبان میں کرکٹ بائی چانس کہا جاتا ہے ۔اس کھیل کی آڑ میں مقامی سیاست بھی جاری رہتی ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پی ایس ایل کے ابتدائی ایڈیشن میں ایک مذہبی جماعت کے سربراہ بھی میچ دیکھنے سٹیڈیم پہنچ گئے تھے تا کہ ان کی اس آمد سے عوام آگاہ ہو جائیں اور ان کو پذیرائی ملے جبکہ دوسری طرف مذہبی جماعتیں اس طرح کی سرگرمیوں سے قدرے دور ہی رہتی ہیں ۔بات ہو رہی ہے پذیرائی کی تو پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی ایک ایسے شخص کو دے دی گئی تھی جو عوام کے ایک خاص حلقے میں اپنے افکار کی وجہ سے متنازع سمجھے جاتے تھے ۔ان کا کرکٹ سے گلی محلے کی سطح کا تجربہ بھی شایدہی ہو ۔مطلب بڑا واضح تھا کہ ان کو عوام میں مقبولیت مل سکے ۔اور تو اور یہ صاحب اب بھی کرکٹ کے امور پر اپنی رائے زنی کرتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔اس ضمن میں ایک دلچسپ مثال بھی موجود ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق سربراہ نے نواز شریف کی بیوروکریسی کے خاص انداز میں کچھ اس طرح تعریف کی تھی کہ میاں صاحب نے زمبابوے میں ایک دوستانہ میچ میں پانچ چھکے اور کئی چوکے مارے تھے جبکہ ٹوٹل سکور 36 کیا تھا ۔اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ پانچ چھکوں کے بعد کتنے چوکوں کی گنجائش بچتی ہے ۔رہی بات سنگلز یا ڈبل کی تو وہ آپ اس لئے چھوڑ دیں کہ یہاں تو ابھی دوسرا چوکا بھی گنتی میں نہیں آسکتا ۔
واپس آتے ہیں کرکٹ کی بے یقینی پر تو نیو زی لینڈ کی واپسی کے بعد کسی اور ٹیم کے دورے کا اہتمام ناگزیر ہے ۔اس سلسلے میں سائوتھ افریقہ ‘ویسٹ انڈیز اور سری لنکا بہترین آپشنز ہو سکتے ہیں۔ویسے تو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بھی اس مصنوعی بحران کو دور کر دے گا۔اس کے علاوہ پی ایس ایل سے ہٹ کر ایک خصوصی لیگ سینئر اور ریٹائرڈ کھلاڑیوں کی بھی کروائی جا سکتی ہے۔ اس طرح کی سیریز کیلئے وزیر اعظم ا ور دیگر پاکستانی نامور کھلاڑی اپنے ذاتی تعلقات کا بخوبی استعمال کرسکتے ہیں۔اگر اس لیگ کیلئے معاوضہ تھوڑا بھاری رکھ دیا جائے تو سونے پہ سہاگہ ہو جائے گا۔باقی باتیں تو ایک طرف خود عمران خان اس لیگ میں کھیل کر عوام کے اندر اپنی ہر طرح کی ساکھ نہ صرف بحال کرسکیں گے بلکہ ان کا گراف بلندیوں کو چھو لے گا ۔ بھارت میں اس طرز پر ایک لیگ رواں سال مارچ میں ہو بھی چکی ہے جو حسب ِتوقع بھارت نے ٹنڈولکر کی قیادت میں جیت لی تھی۔اس سلسلے میں وزیر اعظم صاحب نواز شریف کے اس بیان کا بھی جواب دے سکیں گے جس میں میاں صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ we are back to square one ۔
رہی بات نیوزی لینڈ کی تو اس نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلا ‘اگرچہ وہ اس ضمن میں کسی منصوبے کے تحت کسی کے ہاتھوں استعمال ہو گیا مگر جو بھی ہو افغانستان کا بدلہ اس طرح تو نہیں اترے گا ۔