اگر آپ کو تبدیلی کے لفظ سے پاکستانی سیاست کا ایک مقبول مگر پٹ جانے والا نعرہ یاد آگیا ہے تو یقین رکھیں یہ آج کا موضوع نہیں‘ ہم تعاقب کریں گے پوری دنیا میں بولے اور لکھے جانے والے لفظ 'ترقی‘ اور 'تبدیلی‘ کا ‘تباہی جزو لازم کی طرح جن کے ساتھ شروع ہی سے شریک ہو جاتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ جزو سے بڑھ کر''کُل‘‘ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ مطلب واضح کر دیتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں تبدیلیوں کے نتیجے میں ترقی ہوئی لیکن اس ترقی کی دوڑ نما جنگ میں انسان نے سب سے پہلے قدرتی ماحول کو خراب کرنا شروع کیا اور اب اس کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ترقی کے نشے میں انسان اس طرح اور اس قدر ڈوبا ہوا ہے کہ اپنی سوشل زندگی‘ خاندان یہاں تک کہ اپنی صحت کو بھی دائو پر لگا کر‘ پہلے اسے خراب کیا اور اب اس کو بھی تباہی کے کنارے تک لے آیا ہے۔ انسان کی صحت کے معاملے میں ذہنی صحت یا ذہنی توازن سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس کا ایک بڑا ثبوت عالمی ٹی ٹونٹی کپ کے دوران چلنے والی ایک مہم ہے جو یونیسیف کے تعاون سے جاری ہے۔ اس کے اشتہار میں ایک بات بہت اہم کی جاتی ہے اور وہ اس بیماری کو چھپائے جانے سے متعلق ہے۔ آپ نے بھی غور کیا ہوگا کہ کسی بھی ذہنی عارضے کو کسی دوسرے کے آگے بیان کرتے وقت جھجک نما شرم محسوس کی جاتی ہے‘ اسے Social Taboo بھی کہا جاتا ہے۔ اسی لئے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے جاری مقابلوں میں جو یونیسیف کا اشتہار چلتا ہے‘ اس کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں: Break the Stigma Around Mental Health۔ اس کے آخری الفاظ اس طرح نشر ہوتے ہیں: Talking can be Hard but It's Important۔
یہ الفاظ بہت خوبصورت پیغام دیتے ہیں کہ ذہنی مسائل پر بات کرنا مشکل ہو سکتا ہے مگر یہ بہت ضروری ہے۔ آپ کو یہ جان کر یقینا حیرانی ہو گی کہ صرف امریکا میں ساٹھ لاکھ سے زائد افراد اس بیماری کا شکار ہیں۔ سب سے زیادہ شرح والے ممالک میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ‘ سپین‘ جرمنی‘ فرانس‘ سویڈن اور ناروے وغیرہ شامل ہیں۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ بیماری معاشی حالات بہتر ہونے کے باوجود بھی لاحق ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ایک اور رپورٹ یہ انکشاف کرتی ہے کہ مذکورہ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اس بیماری کا ذکر کرنے اور سرعام اس کا علاج کرانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ مطلب تمام کیسز رپورٹ ہوتے ہیں‘ شاید اس لئے بھی ان ممالک میں اس بیماری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ دماغی بیماریوں میں انسان ایک ذہنی بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس بیماری کی شکلیں اور درجے بہت زیادہ ہیں۔ ان میں سے سب سے عام کسی نہ کسی فوبیا کا شکار ہونا ہے۔ مثال کے طور پر تاریکی، اونچی جگہ، تنہائی، ڈھلتے سورج کا منظر وغیرہ ۔اس کے بعد مرحلہ آتا ہے کسی انجانے خوف کا شکار ہونا، کسی احساسِ کمتری میں مبتلا ہونا، کسی صدمے کی وجہ سے زندگی میںہمت اور دلچسپی کھو دینا۔ اس کے بعد اگلا درجہ مزید مشکل ہو جاتا ہے اور مریض بلا وجہ کے خیالات بلکہ حقیقی دنیا کے برعکس ایک تخیلاتی دنیا میں بسیرا کر لینا یا وہیں بس جانا پسند کرنے لگتا ہے۔ بتدریج و اپنے حواس کھوتا جاتا ہے۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ یہ بیماری دنیا کی چوتھی بڑی بیماری بن چکی ہے اور میڈیکل سائنس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جس تیزی سے یہ مرض بڑھ رہا ہے‘ خدشہ ہے کہ یہ تیسرے نمبر یا شاید اس سے بھی آگے نکل جائے۔ اس کی تیزی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا شکار ہونے والوں میں عمر کی کوئی قید نہیں، مطلب یہ کہ آج کل اس مرض کا شکار چھوٹی عمر کے لوگ زیادہ ہو رہے ہیں‘ حتیٰ کہ اب یہ مرض بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔
اس مرض سے بچنے کیلئے جو اقدامات آپ کر سکتے ہیں‘ ان کے حوالے سے ایک رپورٹ بہت اہم ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس مرض کی شرح چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں بہت کم ہے اور اس کی بنیادی وجہ لوگوں کا طرزِ زندگی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسے علاقوں میں تو سہولتوںکا بھی فقدان ہوتا ہے لیکن جناب! طرزِ زندگی سے مراد ان لوگوں کے روز مرہ معمولات میں بلا وجہ کی اور مستقل تیزی نہیں ہوتی، ان کی غذا انتہائی سادہ مگر خالص ہوتی ہے، یہ لوگ قدرت کے قریب تر ہوتے ہیں۔ غریب آدمی کے گھر میں بھی صحن ضرور ہوتا ہے، یہ لوگ جسمانی مشقت کے عادی ہوتے ہیں۔ آپ کو دیہات میں موٹے پیٹ والے لوگ چند ایک ہی نظر آئیں گے۔ عین اسی طرح‘ جیسے شہروں میں سلم‘ سمارٹ لوگ چند ایک ہی نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد دیہاتی لوگوں میں آج بھی دن کا ایک مخصوص حصہ راحت سے گزرتا ہے، اس سے مراد وہ دورانیہ ہے جس میں یہ لوگ بغیر کسی غرض یا کام کے بھی مل بیٹھتے ہیں۔ ان کے گھر‘ محلے‘ گلیاں کھلی ہونے کی وجہ سے ہوا دار ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہاں آکسیجن لیول بہتر رہتا ہے جس کا انسانی صحت سے گہرا تعلق ہے۔
اب چلتے ہیں ایک جدید ریسرچ کی طرف‘ جس کے مطابق شہری لوگ اپنے دماغ کا استعمال حد سے زیادہ کرتے ہیںاور شاید ہی کچھ پل فارغ رہ پاتے ہوں۔ اس میں ایک بڑا فیکٹر موبائل کا اندھا دھند استعمال ہے۔ اس ریسرچ کا مطلب یہ ہے کہ اگر فارغ وقت ملتا بھی ہے تو وہ موبائل کی نذر ہو جاتا ہے۔ نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ اب موبائل کو انسانی جسم کا عضو قرار دیا جا رہا ہے۔ نیز موبائل کی وجہ سے ایسی جعلی خبریں بھی دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں جو یا تو بہت بھیانک ہوتی ہیں یا اخلاق باختہ۔ اس مصیبت کو بڑھاوا دیا ہے لوگوں کے ذاتی سوشل میڈیا چینلز نے‘ ریٹنگ کی دوڑ نے سب کچھ برباد کر دیا ہے۔ وہ لوگ بھی عالمی سیاست پر تبصرے کر رہے ہیں جن کی سوچ اور علم کا لیول شاید کونسلر کی سیاست کا بھی نہیں۔ یہ لوگ اپنی وڈیوز کا ٹائٹل بناتے وقت جمع کے بجائے ضرب دینے والے جھوٹ سے کام لیتے ہیں۔ اسی طرح فرقہ واریت پر مبنی چینلز اور وڈیوز کی بھی ایک دنیا آباد ہے جن پر لوگ دیگر مسالک پر تنقید ہی نہیں‘ فتوے بھی جاری کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی راتوں رات تمام امراض ختم کرنے کے نسخے ہیں۔ وزن کم کرنے، رنگ گورا کرنے اور قد بڑا کرنے کے طریقے دھرا دھر فروخت کیے جا رہے ہیںحالانکہ سائنس ثابت کرتی ہے کہ قد بڑا کرنے اور رنگ گورا کرنے کی کوئی دوا آج تک ایجاد نہیں ہو سکی۔ بالوں کو لمبا کرنے کا تیل اور گرتے بال روکنا حتیٰ کہ بال دوبارہ اگانے کے ٹوٹکے بھی سوشل میڈیا پر عام ملتے ہیں۔ ایسے سب مواد سے جڑے رہنے کے بعد اگر آپ کہیں کہ یہ آپ کے ذہن کو متاثر نہیں کرے گا تو ٓصاف ظاہر ہے کہ آپ اب تک ان سے متاثر ہو چکے ہیں۔ سب سے اہم مگر بھیانک پہلو یہ ہے کہ رات کو سونے کے وقت‘ بستر میں لیٹے ہوئے لوگ بھی موبائل کی سکرین سے جڑے رہتے ہیں اور اسی حالت میں نیند کی وادی میں اتر جاتے ہیں۔ اس حالت میں جب لوگ سوتے ہیں تو ان کی نیند محض آنکھوں کی نیند ہوتی ہے کیونکہ دماغ جاگ رہا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اکثر لوگ ڈرائونے خوابوں کا شکار ہوتے ہیں اور سو کر اٹھنے کے باوجود تھکاوٹ دور نہیں ہوتی۔
آج کے موضوع کا حاصل یہ ہے کہ دماغ سے اتنا ہی کام لیں جتنا یہ برداشت کر سکتا ہے۔ ہر محفل‘ ہر بندے کی بات کو سننا اور جواب دینا ضروری نہیں۔ یہ بات سوشل میدیا کے حوالے سی کی جا رہی ہے، جہاں لوگ ہر ایک بحث میں شامل ہونا اور ہر طور شدت کی حد تک جانا فرض گردان لیتے ہیں۔ حل آپ سے پہلے ہی بیان کر دیا گیا ہے کہ دیہاتی لوگوں کی طرح طرزِ زندگی ''زندگی‘‘ سے بھر پور رکھیں۔ اور کچھ نہیں تو ٹی ٹونٹی کپ سے آپ زندگی کا ایک گھونٹ حاصل کر سکتے ہیں۔