سب سے پہلے عدلیہ کے ایک فیصلے کا ذکر جس کے مطابق اب غلط سمت یعنی الٹے ہاتھ موٹر سائیکل یا گاڑی چلانے والے کو دو ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا ۔اس جرمانے کو مد نظر رکھتے ہوئے اب توقع کی جاسکتی ہے کہ بڑی حد تک لوگ غلط سمت میں سفر سے اجتناب کریں گے جس سے اس غلطی کی وجہ سے ہونے والے حادثات سے ہونے والے نقصان کی بچت بھی ہو گی ۔ ایک اور فیصلے کا امکان ہے اور وہ یہ ہے کہ سموگ اور آلودگی پر قابو پانے کے لئے تعلیمی اداروں میں جلد چھٹیاں اور سرکاری و پرائیویٹ دفاتر میں حاضری کم یا آدھی رکھی جائے۔یہاں ایک بات کا ذکر ضروری ہے کہ یونیورسٹیاں پہلے ہی ایک دن کے لئے بند رکھنے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اس پر عمل بھی جاری ہے ۔اس سلسلے میں کل بروز سوموار دوسر ی چھٹی ہو گی۔ اسی طرح کووڈ کے دنوں میں بھی سب سے پہلے تعلیمی ادارے ہی بند کرنے کا فیصلہ ہوتا تھا حالانکہ تعلیمی ادارے بندش کی سلسلے میں سب سے آخر میں آنے چاہئیں۔ اسی طرح کیا ہی اچھا ہو کہ دھواں دینے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے۔اسے آلودگی پیدا کرنے والی گاڑیوں کا لاک ڈائون بھی کہا جاسکتا ہے۔مگر پتہ نہیں سرکاری بابو دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کا لاک ڈائون کیوں نہیں کرتے ؟ معروف کامیڈین اما ن ا للہ خان مرحوم کی ایک جگت یاد آرہی ہے‘ امریکہ میں ہونے والے دھماکوں سے گرنے والی دوعمارتوں کے سانحے کے دنوں کی بات ہے کہ امان اللہ صاحب سے ساتھی کامیڈین سوال کرتا ہے کہ فرض کریں پاکستان میں کوئی سانحہ ہو تو کیا اقدامات کئے جائیں گے؟ تو خان صاحب کا جواب تھا کہ ہم نے فوری طور پرڈبل سواری پر پابندی لگا دینی تھی ۔ایک اور لطیفہ یاد آگیا کہ جنگل میں بندر کی حکمرانی چل رہی تھی تو کسی جانور کا بچہ کھو گیا اور وہ شکایت لے کر بندر کے پاس آیا (ہم ایک فرضی ترمیم کر لیتے ہیں اور یوں سوچ لیتے ہیں کہ جنگل میں آگ لگ گئی اور بہت سا دھواں پھیل گیا جس میں بچہ کھو گیا اور اس کی شکایت بندر کے پاس آئی)بندر بات سن کر درخت کی اوپری شاخوں پر چڑھ گیا اور مختلف شاخوں پر اچھلنا شروع کر دیا ۔ جب کافی دیر تک جانور کا بچہ بازیاب کرنے میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو اس نے پریشانی سے بندر بادشاہ کو اپنی شکایت یاد دلائی تو بندر نے جھنجلا کر جواب دیا کہ صبر کریں‘ آپ دیکھ ہی رہے ہیں جو بھاگ دوڑ آپ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کی جارہی ہے‘ آپ میری ان کوششوں پر شک نہیں کر سکتے ۔شکایت کرنے والوں نے کہا کہ تمہارے پاس یہ اختیار عارضی ہے ہم اس کی رپورٹ اصل بادشاہ (اوپر)تک کریں گے ‘تو اس نے جواب دیا کہ آپ جو مرضی کر لیں میں نے اپنی کوششوں کی رپورٹ پہلے ہی ارسال کر دی ہوئی ہے ۔باقی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بادشاہ سلامت ایک غار میں رہتے ہیں اور وہاں تک اس آگ کا دھواں ہر گز نہیں پہنچتا اور نہ تمہاری شکایتیں۔ اگر بادشاہ کبھی گشت پر باہر نکل بھی آئے تو ہم اس کو بتاتے ہیں کہ سردی کی وجہ سے جانور خود آگ جلا کر تپش پیدا کرتے ہیں ۔
المختصر سب اچھا کی رپورٹ چل رہی ہے اور مانی جا رہی ہے۔ ویسے بھی بادشاہ کو بتا دیا گیا ہے کہ اس آلودگی کی وجہ سے آپ کے خلاف کسی قسم کی تحریک چلنے کا کوئی امکان نہیں۔اسی طرح اب لوگ روز مرہ اشیا کی زیادہ قیمتوں کی فکر کرنے کی بجائے صرف اس آلودگی کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔اسی سلسلے میں اوپر یہ رپورٹ بھیج دی گئی ہے کہ اس سے کہیں زیادہ آلودہ جنگلوں میں لگنے والی آگ سے پیدا ہوتی ہے‘اس لیے یہ کوئی مقامی مشکل نہیں ہے‘ ایک علاقائی مسئلہ بھی نہیں ہے بلکہ ایک عالمی سطح کی مشکل ہے۔ اسی طرح سرکاری محل میں ایک دور اندیش نے بتایا ہے کہ یہ سب عوام کے اعمال کا نتیجہ ہے ‘ویسے اس سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا ہے یہ آلودگی عوام کے اعمال کا نتیجہ ہی ہے۔اس سلسلے میں ایک انتہائی اہم خبر کچھ اس طرح ہے کہ پڑوسی ملک میں مقدس سمجھے جانے والے ایک دریا میں آلودگی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اس کے پانی کے اوپر ایک سفید رنگ کی جھاگ بن چکی ہے۔اس کی ویڈیو ایک عالمی نشریاتی ادارے نے نشر کی ہے ۔اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک عورت اب بھی اس دریا کے پانی سے غسل کرنے کو پاپ دھلنے کا ذریعہ سمجھتی ہے جبکہ دیگر لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ بہت سی انڈسٹریوں کا فضلہ نما پانی اس دریا میں پھینکا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ جھاگ بن رہی ہے۔بارہا ارباب اختیا ر کی توجہ دلائی گئی ہے مگر کوئی اقدام نہیں کیا جاتا۔ اس دریا کا پانی آگے جاکر کھیتوں کو سراب کرتا ہے ۔لامحالہ اس سے اگنے والی فصلوں اور سبزیوں کے اندر اس کیمیکل کے مضر اثرات بھی پائے جاتے ہیں۔اس قسم کے پانی کو ماحولیاتی زبان میں بجا طور پر ''بائیولوجیکل گٹر‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس سے پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ جب بھی کسی مغربی ملک کا باشندہ جنوبی ایشیا کا سفر کرتا ہے تو اس کو جو ہدایات دی جاتی ہیں اس میں سے ایک یہ بھی ہوتی ہے کہ آپ نے وہاں کھلے نل سے پانی نہیں پینا ۔اب لگتا ہے کہ مستقبل میں وہ اپنا کھانا بھی ساتھ لایا کریں گے۔
سابق امریکی صدر اوباما نے جب بھارت کا دورہ کیا اور تقریبا ًڈیڑھ دن گزار لئے تو ان کی ٹیم میں شامل ایک ماہر نے کہا کہ جناب صدر آپ کی زندگی کے کچھ گھنٹے کم ہو گئے ہیں تو اس نے وجہ پوچھی تو اس کو بتایا گیا کہ آپ نے دنیا کے سب سے آلودہ شہر میں قیام کیا ہے ۔واضح رہے یہ 2010ء کی یعنی گیارہ سال پہلے کی بات ہے ۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر آج کل مغربی دنیا کا کوئی سربراہ اس خطے میں آئے گا تو وہ یقینا اپنا پانی ‘کھانے کا سامان اور ہو سکتا ہے کہ آکسیجن کا سلنڈر بھی ساتھ لائے ‘ اور وہ اکتوبر اور نومبر کے مہینے میں تو ہر گز نہیں آئے گا۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ آج کل اس خطے کے عام لوگ بھی اس بات کا ذکر کرتے پائے جاتے ہیں ‘مطلب وہ بھی یہ بات سمجھتے ہیں کہ اس آلودگی کی وجہ سے ان کی زندگی کے کچھ مہینوں سے لے کر سال تک کم ہوگئے ہیں۔اس موقع پر ایک صاحب کہنے لگے کہ تو اس کا اثر حکمرانوں پر بھی تو ہو رہا ہے‘تو دوسرے نے کہا تُو بھی پاگل ہے ان کا تو پینے کا پانی بھی باہر سے آتا ہے۔پہلا بولا: سانس تو وہ اسی ہوا میں لے رہے ہیں تو دوسرا کہنے لگا کہ تو بہت سادہ ہے ‘تجھ کو شایدپتہ نہیں کی اب آکسیجن بنانے والی مشینیں بھی آچکی ہیں اسی طرح ہوا صاف کرنے والی مشینیں بھی مل رہی ہیں اور ان حکمرانوں کے گھروں ‘دفتروں میں چل رہی ہیں۔اس لئے جب تک اس آلودگی سے ہر عام کے ساتھ خاص متاثر نہیں ہوگا یہ سب اسی طرح چلتا رہے گا ۔اس پر بحث شروع کرنے والے نے ایک اور سوال کر دیا کہ اگر یہی سب چلتا رہا تو ایک دن یہ آلودگی ان بڑے لوگوں تک بھی پہنچ جائے گی ‘پھر تو ان کو اس آلودگی کے خلاف کچھ نہ کچھ بلکہ سب کچھ جنگی بنیادوں پرکرنا ہی پڑے گا۔تو تھوڑی دیر سوچنے کے بعد دوسرا بولا کہ تو پھر پسماندہ ہی رہ گیا ۔تو نہیں جانتا کہ اب ورک فرام ہوم اور آن لائن کا دور چل پڑا ہے تو یہ لوگ لندن بیٹھ کر حکومت چلائیں گے ۔اس کے لئے ان کو کوئی دقت اس لئے نہیں ہوگی کہ وہ پہلے ہی بیرون ملک ذاتی رہائش گاہیں اور کاروبارکھتے ہیں۔البتہ تو اب الٹا سوچنے کی طرح الٹے ہاتھ گاڑی مت چلانا دو ہزار روپے جرمانہ ہو گا ۔