گزشتہ کالم میں ذکر ہوا تھا ایک ایسے موضوع کا جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ زیادہ پڑھ لکھ جانے سے بندہ کیوں قدرے پاگل پن کا شکار ہو جاتا ہے ۔اسے عام فہم میں شعور اور آگہی کا عذاب بھی کہا جاتا ہے ۔اس بات کو جاننے کے لیے کچھ وجوہات کا مدلل ذکر بھی ہوا۔انہی وجوہات کی ز نجیر کی ایک اور کڑی کا ‘جو کہ بڑی اہم ہے‘ذکر آج کرتے ہیں اور اس کے لیے ہم پھر اسی استاد کے پاس چلتے ہیں جو شعور اور آگہی کے بوجھ تلے خود کو اعترافیہ پاگل کہتے ہیں۔ ہم نے آج ان سے درخواست کی ہے کہ قدرے سادہ بات کریں تا کہ پریشانی اور اضطراب نہ ہو۔ استاد نے ہامی بھری اور یقین دلایا کہ آج ہلکے پھلکے انداز میں کوئی اہم بات کرنے کی کوشش کریں گے ۔استاد جی نے سوال اٹھایا کہ سال کا اختتام ہو گیا ‘ہر طرف پیغامات کی سرگرمی دکھائی اور سنائی دی توایسے میں کچھ چینلز نے ‘بالخصوص سوشل میڈیا کے چینلز نے ‘ستاروں کا حال بتانے والوں کے دھڑا دھڑ انٹرویوز کرنے شروع کر دیے۔ہم نے کہا: اس میں کیا خرابی ہے استاد جی ‘تو استاد بولے: پہلے پوری بات سمجھ لو پھر اپنا نقطہ بیان کرنا۔ہم نے تھوڑا توقف کیا اور استاد جی سے بات آگے بڑھانے کو کہا ۔
سب سے پہلی بات جو استاد جی نے کی وہ یہ تھی کہ اگر یہ واقعی ایک علم ہے تو بتایا جائے کی اس کی تعلیم کہاں اور کس ادارے میں دی جاتی ہے؟اس بات کا تو واقعی کوئی جواب نہیں تھا مگر ہم نے آگے سے بحث کرتے ہوئے کہا کہ اس پر کتابیں تو بہت ساری موجود ہیں۔ آپ کسی بھی کتابوں کی دکان حتیٰ کہ کسی ٹھیلے پر بھی جائیں تو پامسٹری اور دشت شناسی کی کتابیں ملتی ہیں۔ اس پر استاد نے قدرے تحمل سے بات کو یوں آگے بڑھایا کہ کتابیں تو کچھ اس طرح بھی ملتی ہیں کہ صرف تین ماہ میں انگریزی بولنا سیکھیں ‘صرف تین ماہ میں کمپیوٹر ٹھیک کرنے کا ہنر سیکھیں وغیرہ وغیرہ لیکن علم اور تحقیق جس مقام پر پہنچ چکا ہے اور یہ علم نجوم اتنا ہی کارگر ہے تو اس پر تو باقاعدہ ڈگری ہونی چاہیے۔اس کا کوئی جواب نہ بن پایا تو ہم نے یہ سوال کر دیا کہ ہم نے اپنے کئی جاننے والوں سے سنا ہے کہ وہ کسی نجومی کو ملے تھے تو اس کی زیادہ ترباتیں بالکل ٹھیک ثابت ہوئی تھیں ۔تو جواب ملا کہ بنیادی طور پر یہ نفسیات کا معاملہ ہوتا ہے ۔جو شخص اپنی قسمت کا حال جاننے کے لیے جاتا ہے ‘بتانے والا اس کی عمر‘ شخصیت ‘لباس وغیرہ سے بہت کچھ اندازہ لگا کر اپنا منافع بناتا ہے ۔بات یہ بھی نہ ہو تو فرض کرو اگر کسی کے پاس دس لوگ قسمت کا حال معلوم کرنے آئیں اور حال بتانے والا جو مخصوص بات ان کو بتائے‘ جیسا کہ اگلے سال سے اس کے حالات بہتر ہو جائیں گے ‘بے روزگار کو یہ کہہ دے کہ اگلے سال اس کو نوکری مل جائے گی اور ان دس میں سے اگر چار کی حالت بھی بہتر ہو جائے تو اس کی دکان چل پڑتی ہے ۔وہ چار لوگ پھر اس کے پکے مرید نما گاہک بن جاتے ہیں ۔بعد میں یہ چار لوگ ہی مزید لوگوں کو اس دکان کا پتہ بتاتے ہیں۔
اس کے بعد بات واپس آگئی نفسیات پر ‘تو استاد جی کہنے لگے کہ ان لوگوں کے پاس ایک پکی کہانی ہوتی ہے جو ہر کسی کو سنا کر یہ مطمئن کرتے ہیں ۔ہم نے کہا: مدلل طریقے سے سمجھائیں تو انہوں نے کہا: ضرور مگر وقت تو دیں ‘ہم پھر چپ ہو کر سننے لگے تو استاد نے بات کو وضاحت سے پیش کیا کہ مالی مشکل ‘کوئی بڑا پچھتاوا ‘ ماضی میں کوئی ایسا صدمہ جس کا خیال آپ کے دل و دماغ سے نہیں جاتا‘زندگی میں ایک ایسا دورانیہ ضرور گزراہے جس میں آپ نے بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے‘صحت کے سلسلے میں کوئی نہ کوئی مسئلہ آپ کو درپیش رہتا ہے ‘تنہائی میں آپ اکثر اداس اور پریشان ہو جاتے ہیں ‘بعض اوقات آپ کو ایک عجیب سا احساس جکڑ لیتا ہے کہ زندگی کا کیا مقصد ہے ‘یہ تو ایک سراب سا ہے اور ایک اہم بات یہ ہے کہ اب آپ کے ذہن پر دبائو کی وجہ سے آپ بہت زیادہ باتیں بھول جاتے ہیں ۔اس کے بعد استاد قدرے غصے والے جوش میں بولے کہ آپ بتائو ان ساری کیفیات میں سے کون سی ہے جس کا آپ شکار نہیں ہوتے؟میں لاجواب ہو گیا اور کہا :مجھے تو لگا آپ میری قسمت کا حال بتا رہے تھے۔ اس کے بعد حیرت اس بات پر ہوئی جب میرے ساتھ والے دونوں لوگوں نے بھی اس بات کی تصدیق کردی اور کہا کہ تقریباً تمام باتیں ان کے ساتھ بھی ہیں ۔اس کے بعد اگلے رازوں سے پردہ اٹھانے بلکہ پردہ چاک کرنے سے پہلے استاد نے قدرے توقف کیا اور کہنے لگے: پہلے تھوڑا ان باتوں پر مزید غور کرکے ان کو سمجھ لو ۔
اگلے مرحلے میں مزیدباریک راز کچھ اس طرح تھے کہ مندرجہ بالا باتوں میں کمی بیشی قسمت کا حال جاننے والے کی عمر‘ جنس اور حلیے کے مطابق کی جاتی ہے ۔مثال کے طور پر اگر کوئی جوان لڑکا یا لڑکی قسمت کا حال جاننے والا ہو تو گفتگو کا موضوع شادی کے اہم ترین مسئلے کی طرف موڑ کر آئیڈیل کی تلاش کا مشہور اور دلچسپ قصہ شروع کر دیا جاتا ہے ۔اسی طرح مستقبل کے سہانے خواب ‘بیرون ملک کا سفر ‘کاروبار کرنا چاہیے یا نوکری وغیرہ کی بحث شروع کرکے بندے کو متاثر کیا جاتا ہے ۔ اس پیشے میں کچھ لوگ تو صرف مستقبل کی تصویر پیش کرتے ہیں اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ قسمت کا حال جاننے والے کی باتوں کو ہمدردی سے سنا جاتا ہے جس کی وجہ سے دل و دماغ ہلکے پھلکے ہو جاتے ہیں‘ کافی باتوں کے متعلق حوصلہ ہو جاتا ہے‘ امید بن جاتی ہے ۔سارا کھیل اسی کے گرد گھومتا ہے۔اب ایک اگلی قسم اور درجہ ہے جس میں ایک عامل والا کردار بھی سامنے آجاتا ہے ۔اس کے لیے یہ نجومی ایک عامل کا روپ دھارتے ہوئے یہ تسلی دیتا ہے کہ وہ اس کے لیے کچھ عمل کرے گا جس سے اس کے دشمن زیر ہو جائیں گے ‘گھریلو ناچاکی ختم ہو جائے گی ‘شادی مطلوبہ جگہ پر کروانے کے لیے بھی عمل کیا جاسکتا ہے۔ بس آپ کا یقین پختہ ہونا ضروری ہے۔اب کہانی کھلنی اور واضح ہونا شروع ہو گئی اور ہمارے ذہنوں میں عاملوں کے اشتہارات آنا شروع ہو گئے جن میں ان تمام باتوں کے متعلق بہت بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں۔ جس طرح دیواروں‘ رکشوں کے پیچھے ‘اور پمفلٹ نما اشتہاروں میں یہاں تک دعویٰ کیا جاتا ہے کہ صرف چوبیس گھنٹوں میں کسی بھی بڑے مسئلے کا حل پیش کیا جاتا ہے ۔اب تو بات ایک کال تک آچکی ہے کہ صرف ایک کال کر کے اپنے مسئلے کا حل پائیں۔
یہاں استاد جی نے ایک فقرہ کچھ اس طرح کہا کہ جب تک دنیا میں ایک بھی لالچی موجود ہے اُس وقت تک فراڈ ختم نہیں ہو سکتا۔کچھ اسی طرح سے جب تک ٹی ٹونٹی کرکٹ کی طرح Logic کی بجائے Magic کی طرح حل ڈھونڈے والے موجود ہیں یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔اس پر ہم نے کہا کہ ہر بندہ تو ان باتوں کی طرف نہیں جاتا ‘تو استاد جی بولے :پاگل کر دینے والی بات یہ ہے کہ ملک میں شعور بڑھا ہے ‘تعلیم بڑھی ہے مگر ان نجومیوں اور عاملوں کی تعدا د میں کمی نہیں آرہی اور حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ اب ملکی اور عالمی سیاست پر ان لیڈروں کے بارے میں بھی پیش گوئی کرتے ہیں جن کی تاریخ پیدائش بھی واضح طور پر درست معلوم نہیں ہوتی‘حالانکہ ان کے اس علم کی بنیاد ہی تاریخ پیدائش ہوتی ہے ۔