بڑھتی ہوئی آبادی اور ترقیاتی صحافت

گزشتہ کالم میں ذکر ہوا تھا ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کا‘ جس میں انہوں نے ملک کو درپیش اصل مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان مسائل پر بات کرنے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان مسائل میں سے ایک مسئلہ‘ جس کا انہوں نے ذکر کیا وہ آبادی میں اضافہ ہے۔ گزشتہ کالم کے آخر میں اس کا تھوڑا سا تذکرہ ہوا تھا‘ آج اس موضوع پر تفصیل سے بات کریں گے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ آبادی میں اضافہ دراصل ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ہمارے ملک کو بلکہ اس پورے خطے کی بقا کو خطرہ درپیش ہے۔
اس وقت ہمارے ملک کی آبادی 23کروڑ ہو چکی ہے۔ کل آبادی کا تخمینہ لگانے میں اس لیے بھی کوئی دقت پیش نہیں آتی کیونکہ اس میں سالانہ اضافہ پچاس لاکھ سے زیادہ ہے۔ اب یہ بات ایک اور زاویے سے واضح ہو جاتی ہے کہ اس وقت ملک کی آبادی میں اضافے کا ریٹ یا شرح کم از کم 2.1فیصد ہے۔ تو واضح ہو گیا کہ اگر ملک کی آبادی بیس کروڑ بھی ہو تو سالانہ اضافہ پچاس لاکھ سے زیادہ بن جاتا ہے۔ واضح رہے کہ آبادی میں سالانہ اضافے کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے‘ جی ہاں! آ پ نے بالکل صحیح پڑھا‘ تیسرا بڑا ملک۔ اس اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بھارت ہے‘ دوسرے نمبر پر چین ہے اور اس کے بعد ہم آتے ہیں۔ اگر بات کریں دنیا کی کل آبادی کی‘ تو یہ اگلے سال آٹھ ارب ہو جائے گی۔ آبادی میں اضافے کو عالمی سطح پر ایک بڑا مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔ تمام مغربی ممالک کا سالانہ گروتھ ریٹ صفر ہے۔ مطلب یہ ہے کے ان کے ہاں سالانہ بچوں کی پیدائش کی تعداد‘ وہاں کے وفات پا جانے والے لوگوں کے برابر ہوتی ہے‘ اس کو زیرو پاپولیشن گروتھ ریٹ بھی کہا جاتا ہے اور وہ اس کو آئیڈیل تصور کرتے ہیں۔ اس سلسلے کی ایک بہت بڑی اور ناقابل یقین مثال چین کی ہے جس نے 1979ء میں دنیا کی انتہائی سخت گیر پالیسی ہی نہیں بلکہ ایک قانون لاگو کیا جس کے تحت ہر جوڑے کو مجبور کیا گیا کہ وہ صرف ایک بچے تک محدود رہے۔ مطلب ایک جوڑا ایک بچہ۔ چین نے اس قانون کے تحت 2016ء میں ایک شماریاتی اندازہ پیش کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس قانون کے تحت آبادی میں 40 سے 45 کروڑ اضافے کو روک لیا گیا۔ اسی سال انہوں نے اپنے قانون میں نرمی کرتے ہوئے جوڑوں کو ایک کے بجائے دو بچوں کی اجازت دے دی ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بہت اہم ہے کہ چین کے انتہائی کم سالانہ اضافے کی وجہ سے بھارت آنے والے سالوں میں آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا جو یقینا ایک قابلِ تشویش بات ہے۔
اب بات کرتے ہیں پاکستان کی‘قیامِ پاکستان کے وقت یہ ملک آبادی کے اعتبار سے دنیا میں چودہویں نمبر پر آتا تھاجب کل آبادی تین کروڑ کے قریب تھی‘ لیکن اب پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑاملک بن چکا ہے۔ ایوب دور سے پاکستان میں آبادی میں سالانہ تین فیصد سے زیادہ اضافے کو ایک خطرہ مانتے ہوئے پاپولیشن پلاننگ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا گیا۔ آپ کو یاد ہو گا ایک تصویر بہت مشہور تھی جس میں میاں بیوی کو دو بچوں کے ساتھ دکھایا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے ''بچے دو ہی اچھے‘‘ کا ایک نعرہ نما سلوگن بھی متعارف کرایا گیا۔ اس پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے فلمیں بھی بنائی جاتی تھیں جن میں زیادہ بچوں کو ایک مشکل کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ بھٹو دور میں بھی چلتا رہا مگر ضیا الحق دور میں اس پروگرام کو بند کردیا گیا۔ اس دور میں افغان جہاد شروع ہوا تو کئی جماعتیں صدر ضیاء الحق کی ساتھ ہی نہیں کھڑی تھیں بلکہ ان کا ساتھ دینے میں بھی آگے آگے تھیں۔ اس زمانے میں ایک تنظیم کا ایک سٹیکر نما اشتہار بہت زیادہ نظر آیا کرتا تھا جس پر درج عبارت کچھ اس طرح تھی ''بڑا خاندان‘ جہاد آسان‘ ‘ اس طرح کا مائنڈ سیٹ آج بھی پاکستان میں کثرتِ آبادی کے مسئلے پر قابو پانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
اب بات ایک ایسے فہم کی‘ جو درحقیقت ایک وہم ہے۔ اس میں یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ وسائل پیدا کیے جائیں اور ان کو برابر تقسیم کیا جائے تو آبادی کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ یہ بات معاشی وسائل کی حد تک تو کسی حد تک مانی جا سکتی ہے لیکن اب مسئلہ صرف روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نہیں رہابلکہ اب جھگڑا صاف ہوا‘ پانی اورزمین کا بھی ہو چکا ہے۔ اسی طرح ماحولیاتی آلودگی‘ جس میں سموگ نام کا عفریت قیامت خیز زہریلے بادلوں کی طرح اس سال دس ماہ سے زیادہ عرصے تک ہمارے سروں پر منڈلاتا رہا‘ اور ہم دھواں نما ہوا میں سانس لیتے رہے۔ اگرچہ آپ کے ذہن میں خیال آتا ہو گا کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں بند کریں‘ اینٹوں کے بھٹے نئی ٹیکنالوجی پر منتقل کردیں‘ درخت لگائیں‘ وغیرہ وغیرہ لیکن گزارش یہ ہے کہ جہاں سالانہ پچاس لاکھ لوگوں کا اضافہ ہوتا ہو‘ وہاں پر سالانہ پانچ سے دس لاکھ نئے گھر تو بہر طور بنانا ہی پڑیں گے۔ آپ موٹر وے یا جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں کہ جیسے ہی لاہور شہر سے باہر نکلتے ہیں یا اس میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو بڑی تعداد میں نئی رہائشی کالونیوں کے بل بورڈز نظر آئیں گے۔ اب سالانہ نئے بننے والے گھروں کی تعدا دکو صرف پانچ لاکھ ہی مان لیں اور ایک گھر کا اوسط رقبہ پانچ مرلے شمار کر لیں تو یہ کل رقبہ اڑھائی کروڑ مرلے بنتا ہے، اگر اس کو ایکڑوں اور مربعوں میں تقسیم کر کے اندازہ لگائیں کہ سالانہ کتنی زمین‘ جہاں پہلے کھیتی باڑی ہو تی تھی‘ رہائشی کالونیوں میں تبدیل ہو رہی ہے۔ سیمنٹ اور سریے سے بننے والی ان کالونیوں میں ہریالی اور درخت نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں‘ بارش کا پانی زمین میں جذب نہیں ہو پاتا جس کے نتیجے میں درجہ حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور زیرِ زمین پانی کی دستیابی کا لیول گر جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس طرح کے علاقے میں آکسیجن کی شرح کم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ کالونیاں زیادہ ترشہروں کا حصہ ہوتی ہیں اسی لیے شہروں کو گندا اور ''گرم جزیرہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
اب یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لایعنی قسم کے سیاسی شو کرنے کے بجائے اگر اس طرح کے موضوعات کا انتخاب کیا جائے‘ جو اعداد وشمار آج سامنے آئے ہیں‘ ان کو لوگوں تک پہنچایا جائے‘ صاحبِ فہم لوگوں کو سامنے لایا جائے اور ان کے ذریعے لوگوں میں آبادی کے عفریت سے نمٹنے کی رائے کو ہموار کیا جائے‘ بیٹے اور بیٹی کی تفریق کو مٹانے کی بات کی جائے‘ کم از کم سولہ سال کی تعلیم کو عام ہی نہیں لازم کرنے کی بات ہو‘ آبادی میں اتنے بڑے اضافے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کو نمایاں طور پر اجاگر کیا جائے‘ اس طرح کے موضوعات کا چنائو اور اس پر تفصیلی بات چیت کرکے ملک میں مثبت تبدیلی کی راہ ہموار کی جائے تو اسے کو ترقیاتی صحافت کہا جاتا ہے۔ اس طرز کی صحافت کی ضرورت اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ اب موبائل کی شکل میں ہر شخص میڈیا سے جڑ چکا ہے۔
اس ضمن میں آخری بات‘ سوشل میڈیا کے ان ارسطوؤں کو بھی نکیل ڈالنے کی ضرورت ہے جو حقائق سے کوسوں دور‘ بھڑکیلے‘ سنسنی خیز اور بعض اوقات فحش مواد کا سہارا صرف اس لیے لیتے ہیں تاکہ ان کے خود ساختہ ویب چینلز کو لائکس اور ویوز مل سکیں۔ ایسے سوشل میڈیا چینلز لوگوں میں ذہنی ہیجان اور اضطراب پیدا کر رہے ہیں۔ عام عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ان کی حوصلہ شکنی کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں