لاہور کا بھی ایک نیا ضلع

تقریباً دو ماہ پہلے ملک کو سموگ نامی آفت کا سامنا تھا۔ اس آفت سے نمٹنے کیلئے مصنوعی بارش کی تجویز اور تجربے کا اعلان ہوا تو میڈیا نے اپنے حق سے زیادہ حق ادا کرتے ہوئے تمام تر ملکی اداروں کو جگانے کی کوشش کی مگر سیاسی و سرکاری مشینری ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اس بارش کا ذکر سانحہ مری نے پھر یاد دلا دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طریقے سے آپ برف باری کو بارش میں بدلنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اب بھی بہت سارے لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اس تجربہ والی ٹیم کا کیا بنا۔ آج اس کی تمام تر روداد آپ کو بتاتے ہیں۔ اس ٹیم نے زمین پر رہتے ہوئے تجربہ کرنے کی کوشش کیلئے ایک پہاڑی علاقے، خانس پور کے پاس، کا رخ کیا تھا۔ محدود وسائل اور مختصر وقت دستیاب ہونے اور سب سے بڑھ کر وہاں کی سردی نے تجربے کی سرگرمیوں کو محدود تر رکھا‘ اس کے باوجود اس تجربہ کیلئے ایک مخصوص پہاڑی کا انتخاب، ہوا کا رخ، اس پہاڑی تک پہنچنے کیلئے درکار سفر بشمول پیدل چلنا، سب حساب کر لیا گیا۔ اب سردی گزرنے کے بعد یہ دوبارہ اسی پہاڑی پر جا کر پڑائو ڈالیں گے اور اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
رہی بات اس کو میدانی علاقے میں کرنے کی، تو اس کیلئے ایک چھوٹے جہاز کی شمولیت لازمی ہے۔ جہاز موجود ہے۔ اس میں مطلوبہ ٹینکی بھی لگی ہوئی ہے‘ مگر ستم دیکھیں کہ اس جہاز کو اڑانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس میں حائل رکاوٹ بہت عجیب و غریب ہے۔ اب یہ طے کرنا آپ کا کام ہے کہ یہ عجیب زیادہ ہے یا غریب زیادہ ہے۔ سب سے پہلے تو اہم ترین بات آپ کو بتاتا چلوں کہ پاکستان میں مصنوعی بارش کا تجربہ تقریباً بیس سال پہلے ہو چکا ہے۔ اس تجربے کو پورے پاکستان پر کیا گیا تھا اور اس میں کامیابی کی شرح تقریباً ساٹھ فیصد تھی۔ ایک معنی خیز سوال تو بنتا ہے کہ اس وقت سموگ نہیں تھی اور آلودگی بھی اتنی زیادہ نہیں تھی، لیکن اب تو گزشتہ پانچ سالوں سے سموگ کی آفت نازل ہو چکی ہے تو اربابِ اختیار یہ کیوں نہیں کر رہے؟ اس کا جواب یقینا ان کو دینا ہے جو کسی کو جواب دینے کے پابند نہیں ہیں، مطلب سول بیوروکریسی۔ بارش کی ان کوششوں کے دوران ایک انکشاف یہ ہوا کہ 2001 -2002 میں تجربہ کرنے والی ٹیم نے سموگ کے شروع ہونے سے ایک سال قبل خود پنجاب کے چیف سیکرٹری سے رابطہ کیا تھا کہ وہ یہ بارش برسا سکتے ہیں مگر اس اعلیٰ ترین افسر کا جواب نہیں آیا تھا۔ تب بارش برسانے کیلئے جہاز اڑانے والے پائلٹ خرم صاحب اس وقت ایک غیر ملکی کمپنی میں جہاز اڑاتے ہیں۔ دنیا ٹی وی پر پروگرام چلنے کے بعد انہوں نے مجھ سے رابطہ کرکے خود بتایا، بلکہ خبردار کیا کہ اگر آپ یہ کرنا چاہ رہے ہیں تو ذہن میں رکھیں کہ کوئی آپ کی مدد نہیں کرے گا۔ میں نے ان سے رابطہ کرنے اور اصل درپیش مشکلات سے مزید آگاہ کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
اب بات واپس اس جہاز کی طرف جو لاہور شہر میں موجود تو ہے مگر اڑایا نہیں جا سکتا۔ یہ جہاز پلانٹ پروٹیکشن شعبہ کے استعمال میں ہے۔ اس جہاز نے نہایت کامیابی سے ٹڈی دل کے خاتمہ کیلئے سپرے کرنے کے مشن میں حصہ لیا تھا اور ٹڈی دل کو ختم کرنے کا کام بخوبی سرانجام بھی دیا تھا‘ لیکن اب رکاوٹ یہ ہے کہ والٹن ایئر پورٹ حکومت فروخت کر چکی ہے۔ یہ ایئرپورٹ غیر ملکیوں کو فروخت تو کر دیا گیا ہے مگر تا حال اس کے لیے متبادل کوئی جگہ الاٹ نہیں کی گئی۔ اس سلسلے میں وعدے تا حال جاری و ساری ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جب تک متبادل جگہ نہیں ملتی، والٹن ایئرپورٹ پر کھڑے جہاز، جو بہت پرانے ہیں، فی الحال مزید پرانے ہونے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد باری آتی ہے کچھ نجی ایئر لائنز کی جن کے جہاز گاہے گاہے لاہور کے بڑے ایئرپورٹ سے اڑان بھرتے ہیں لیکن ان جہازوں میں اول تو سپرے کرنے والی کٹ یا ٹینکی موجود نہیں، دوم‘ وہ کہتے ہیں کہ آپ کو تمام متعلقہ اداروں سے اجازت لینا ہو گی جو اس بارش برسانے سے متعلقہ ہو سکتے ہیں۔ میں نے وضاحت مانگی تو کہنے لگے کہ ماحولیات کا شعبہ سب سے پہلے آئے گا کیونکہ اس میں نمک کا چھڑکائو شامل ہے تو کہیں اس نمک سے کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو جائے۔ میں نے کہا کہ جناب مسئلہ تو سموگ ہے اور آلودگی ہے، اور نمک کا چھڑکائو تو اس آلودگی کو ختم کرے گا۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ یہ آپ کا خیال ہے، سرکاری افسروں کا آپ کے خیال سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگلا حل ڈرون ہو سکتے تھے۔ آپ بخوبی واقف ہوں گے کہ ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے آپ فصلوں پر نہ صرف ادویات کا سپرے کر سکتے ہیں بلکہ بیج بو سکتے ہیں اور کھاد پاشی بھی کر سکتے ہیں‘ لیکن ایسے ڈرونز‘ جو دس سے پندرہ کلو تک وزن اٹھا سکتے ہوں، کی فی کس لاگت تقریباً پچیس لاکھ روپے ہے۔ اس سلسلے میں تاحال کسی بڑے شعبے نے رابطہ کرنا تو درکنار، خود رابطہ کرنے پر بھی کوئی مثبت جواب نہیں دیا تو ڈرون کہاں سے آئے گا؟ اب ایک اور بات یہاں دشواری کی شکل میں سامنے آتی ہے‘ یہ کہ چونکہ اس کام کیلئے ڈرون چار سے پانچ ہزار فٹ بلندی پر جائے گا تو اتنی بلندی پر اڑنے والی چیز کو بھی سرکاری اداروں کی اجازت کی ضرورت ہو گی، اس لئے کرایہ پر ڈرون دینے والوں نے بھی معذرت کر لی۔ اب ایک رستہ بچا تھا اور وہ تھا جہاز اڑانے کے شوقین حضرات نے چھوٹے سائز کے جہاز بنا رکھے ہیں، ان جہازوں کو یہ لوگ لاہور شہر سے دور چھٹی والے دن ایک مقابلے کی طرز پر اڑاتے ہیں مگر ان کی یہ پرواز بھی کافی حد تک غیر قانونی ہوتی ہے، لہٰذا ان جہازوں کے مالکان نے بھی معذرت کر لی، اس لئے کہ اگر اس بارش کی خبر چلی تو ان کے جہاز پکڑے جا سکتے ہیں۔ اب اس کے بعد کیا ہو سکتا ہے؟ اس کی کھوج اور کوشش تو جاری ہے مگر آپ اندازہ کریں کہ ایک سال تو گزر گیا لیکن امسال پھر اکتوبر کا مہینہ تو آئے گا اور سموگ یقینا پھر آئے گی اور زیادہ شدت سے آئے گی تو کیا ہم پھر سالِ گزشتہ کی طرح بارش کے منتظر رہیں گے؟ بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اگلا اکتوبر جب آئے گا تو گزرتے وقت کے ساتھ ٹریفک اور آبادی بڑھ چکی ہو گی‘ اور یقینا سموگ کی شدت بھی زیادہ ہو گی۔ تب ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ اب اس کا ذکر کرکے میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا، مگرآفت آتی رہے گی۔
اب کچھ ذکر محکمہ ماحولیات کی کارکردگی کا۔ دنیا نیوز کے پروگرام 'ٹاپ سٹوری‘ نے اس موضوع پر ایک پروگرام کیا تو انہوں نے مصنوعی بارش پر اٹھنے والی لاگت کا سوال محکمہ ماحولیات کی سب سے بڑی افسر سے بھی کر دیا۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ میں اس سوال کا جواب دے چکا تھا جو ایک اندازے پر مشتمل تھا۔ اب اینکر کے سوال کرنے پر اس بیوروکریٹ نے انتہائی اعتماد کے ساتھ ایک ایسا جواب دیا جو اس کا اپنا تھا ہی نہیں اور اس نے پہلے سے بتائی ہوئی لاگت کو ہی دہرا دیا۔ اس کے بعد اس نے اسی اعتماد سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی کے کچھ لوگوں اور پنجاب یونیورسٹی کے کچھ لوگوں کو اس کام پر لگایا ہوا ہے، جبکہ تاحال اس محکمے نے رابطہ تک بھی نہیں کیا ہے۔ اب لگتا یہی ہے کہ جاری سال میں اس قدرتی آفت پر قابو پانے کیلئے یا دکھانے کیلئے، شاید مری کی طرز پر لاہور شہر میں مزید انتظامی ضلع بنا دیا جائے گا کہ ایسے مسئلوں کا یہی حل حکمرانوں کو سجھائی دیتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں