South to sad Asia

گزشتہ کالم سے برطانوی راج کے دوران بر صغیر پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینا شروع کیا ہے ‘جو در اصل مضر ترین اثرات کی صورت میں سامنے آ رہا ہے ۔آج اس سلسلے کا دوسرا کالم ہے ۔اس کے لیے ایک معتبر آدمی کی تحقیق ‘جو کتاب کی شکل میں بھی چھپ چکی ہے اور ویڈیوز کی صورت میں بھی آسانی سے دستیاب ہے‘ سے حوالے پیش کئے جائیں گے۔یہ شخصیت بھارت کا ایک سفارت کار ‘سیاست دان اور لکھنے اور بولنے میں کمال رکھنے والا ششی تھرور ہیں۔ انہوں نے برطانیہ میں جاکر بھی انٹرویوز اور مباحث میں جنوبی ایشیا کا مقدمہ بڑے مدلل انداز سے پیش کیا۔ آج انہی کے بیان کردہ حقائق کو یہاں بیان کرتے ہیں ۔یہ حقائق آج تک کسی برطانوی نے بھی چیلنج نہیں کئے۔
برطانیہ نے جنوبی ایشیا میں آتے ہی سب سے پہلے یہاں کھڈی پر کپڑا بننے کی صنعت کو نقصان پہنچایا‘ بلکہ صرف نقصان ہی نہیں پہنچایا ‘تباہ و برباد کردیا ۔کھڈیوں پر بُنا جانے والا یہاں کا کپڑا پوری دنیا میں مشہورتھا اور برصغیر کی برآمدات میں پہلے نمبر پر تھا۔یہاں میں ایک وضاحت کرتا چلوں کہ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں برطانیہ نے جو سب سے پہلی انڈسٹری قائم کی وہ کاٹن ٹیکسٹائل کی تھی‘ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ برطانیہ میں کپاس سر ے سے ہی کاشت نہیں ہوتی ؛چنانچہ برطانیہ کے جنوبی ایشیا کی طرف رخ کرنے میں ایک اہم وجہ یہاں پر کپاس کی کاشت بھی تھی ۔واضح رہے کہ اُس وقت جنوبی ایشیا کپاس کی کاشت میں دنیا میں پہلے نمبر پر تھا ۔اسی طرح ایک بڑا فیکٹر جنوبی ایشیا کا آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونا تھا‘ جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ یہ دنیا کی اس وقت کی سب سے بڑی مارکیٹ بھی تھی۔بڑی مارکیٹ صرف آبادی سے نہیں بنتی بلکہ اس آبادی کے پاس قوتِ خرید بھی ہونی چاہیے۔چونکہ اُس وقت دنیا کی کل آمدنی کا 23 فیصد اسی علاقے میں پایا جاتا تھا‘ اس لئے گورے کے لیے یہ علاقہ سونے کی کان تھا ۔اگرچہ اس علاقے کو صرف سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا ۔
بات ہو رہی تھی یہاں کی مقامی کپڑا بننے کی صنعت کی تو گورے نے باقاعدہ اس پر کریک ڈائون کیا ۔اس صنعت کے علاقوں سے لوگوں کو علاقہ بدر کیا گیا‘ مشینیں توڑی گئیں ‘اس صنعت پر ناقابل برداشت ٹیکس لگا دیے گئے اور حد تو یہ کہ اس صنعت سے وابستہ کاریگروں کے انگوٹھے اور انگلیاں توڑ ی گئیں تا کہ وہ یہ کام کسی اور جگہ جا کر بھی شروع نہ کر سکیں ۔چونکہ کپاس کا وزن بہت کم ہوتا ہے اس لئے پوری دنیا میں آپ کہیں بھی اس کی ‘کپڑا بننے کی صنعت لگا سکتے ہیں ۔اس طرح گورا یہاں سے کپاس لے کر برطانیہ پہنچاتا تھا اور وہاں جدید لومز پر کپڑا بُن کر واپس ہندوستان میں فروخت کیا جاتا تھا۔اس طرح جنوبی ایشیا کپڑا برآمد کرنے کی بجائے درآمد کرنے والا ملک بن گیا‘جو انسانی تاریخ کی ایک انتہائی دلچسپ‘مگر بھیانک حقیقت ہے۔
اب آگے بڑھتے ہیں ‘ایک فقرہ بہت مشہور ہے کہ تاج برطانیہ پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا ‘مطلب مشرق میں ہانگ کانگ سے لے کر مغرب میں امریکی براعظم تک اس کی کالونیاں تھیں‘تو ظاہر ہے دنیا میں ہر وقت کہیں نہ کہیں تو دن کا وقت ہوتا ہی ہے‘اور دن کے وقت سورج نکلا ہوتا ہے ۔اسی تناظر میں یہ فقرہ یا مقولہ مشہور ہوا ۔یہاں پر ششی تھرور ایک دلچسپ فقرہ کستا ہے ‘جس میں وہ یہ کہتا ہے کہ تاج برطانیہ پر ہر وقت سورج نکلا رہتا تھا کیونکہ خدا بھی اس پر اعتبار نہیں کر سکتا تھا ۔اب بات اس قحط کی جو چرچل کی وجہ سے پھیلا تھا ‘مطلب یہ ہے کہ قحط کی وجہ فصلوں کا نہ ہونانہیں تھا بلکہ چرچل نے صرف احتیاط کے طور پر اپنی فوجوں کے لیے اناج ہندوستان سے منگوا لیا تھا۔اس قحط کے بارے میں جب چرچل کو لکھا گیا تو اس نے انتہائی نفرت انگیز کلمات کہے‘اس نے کہا کہ میں انڈین سے نفرت کرتا ہوں ‘یہ انڈین خرگوش کی طرح زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں اور سب سے آخری بات جو اس نے موصول ہونے والے ایک خط کے ایک طرف لکھ بھی دی ۔اس نے کہا کہ اگر لوگ مر رہے ہیں تو گاندھی ابھی تک کیوں نہیں مرا۔اس قحط کی وجہ سے بنگال کے علاقے میں تیس سے چالیس لاکھ لوگ مر گئے تھے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ انقلاب اور جنگوں میں کسی حکمران کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے لوگوں کا ذکر ایک فہرست کی شکل میں کیا جاتا ہے تو لینن‘مائو زے تنگ اور ہٹلر وغیرہ کا ذکر تو آتا ہے مگر چرچل کا نام ایسی کسی فہرست کے آخر میں بھی نہیں کیا جاتا۔شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ تاریخ ہمیشہ فاتحین کی طرف داری کرتی ہے۔
اب ذکر ریلوے نظام کا جو سب سے پہلے تو گورے نے اپنی اشیا اور خام مال کی نقل و حرکت کے لیے بنایا مگر اس کے تناظر میں انتہائی تلخ حقیقت نہیں بتائی جاتی ‘جو اس طرح ہے کہ ریلوے کی پٹری کا جال بچھانے کے لیے جو ٹھیکے برطانوی ٹھیکیداروں کو دیے گئے ان کی لاگت دگنا رکھی گئی اور یہ قیمت بھی مقامی لوگوں سے وصول کی گئی۔ اور اس پٹری کا جال لوگوں کی ضرورت کو مدنظر رکھنے کی بجائے صرف برآمدکئے جانے والے خام مال کو مد نظر رکھتے ہوئے بچھایا گیا۔اس کے بعد لوگوں کے سفر سے زیادہ اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ مال گاڑیوں کی نقل و حرکت بر وقت ہونی چاہیے اور اس کے لیے انتظامات ہر وقت موجود رہنے چاہئیں۔اسی طرح بندر گاہوں کی تعمیر میں بھی برطانیہ کی تجارت کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا۔اسی طرح اس ریل کے ذریعے فوج کی نقل و حرکت کا کام بھی لیا جاتا تھا۔ یہاں یہ بھی واضح ہو جانا چاہیے کہ دوسری عالمی جنگ میں سترہ لاکھ کی بہادر فوج اسی علاقے سے بھرتی کی گئی تھی ۔دوسری عالمی جنگ کے حوالے سے ایک اور انتہائی اہم بات برطانیہ کا تین بلین پائونڈ کا حاصل کردہ قرضہ تھا جس میں سے بر صغیر کے لوگوں سے ایک ارب پچیس کروڑ کا قرضہ لیا گیا جو جنگ ختم ہونے کے بعد بھی واپس نہیں کیا گیا۔
اس کے بعد شاہانہ اختیارات اور مراعات کے ساتھ بھرتی ہونے والی بیوروکریسی کا دوبارہ ذکر ‘اس لئے کہ ان افسران کو مقامی وسائل سے بھاری بھرکم تنخواہیں اور ملازمین کی ایک فوج دی جاتی تھی۔ہندوستان میں سروس کے نتیجے میں ان افسران کا مزاج اس قدر بگڑ چکا ہوتا تھا کہ ان کے واپس برطانیہ جانے پر ان کو وہاں تعینات نہیں کیا جاتا تھا ۔اس لئے ان افسران کو لامتناہی اختیارات اور مراعات کے ساتھ جنوبی ایشیا میں رکھا جاتا تھا تاکہ وہ تاج برطانیہ کے حاکمانہ اقتدار کی حفاظت کر سکیں۔ ان کے رویوں میں حکم اور صرف حکم چلانا اور ظالمانہ طرز اپنائے رکھنا ایک معمول کی بات ہو چکی تھی اور یہ مزاج ان کی شخصیت میں رچ بس گیا تھا ‘جبکہ برطانیہ کے افسران کو لوگوں کی خدمت کی تربیت دی جاتی تھی ۔اس لئے ہندوستان میں شاہانہ نوکری کرنے والوں کو برطانیہ جاتے ہی ریٹائرڈ کر دیا جاتا تھا۔ایک اور بات کا خیال رہے کہ ان افسروں کی پنشن کی رقوم برصغیر ہی ادا کرتا تھا۔اس لئے بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ بر صغیر کے لوگ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی قیمت بھی خود ہی ادا کرتے تھے۔
برطانوی راج کے مظالم پر آج دوسرا کالم لکھنے کے باوجود یہ کہانی پوری نہیں ہوئی ۔مزید دو کالم درکار ہوں گے۔ اب آپ خود ہی سوچیں کہ اس دو سو سالہ معاشی‘نفسیاتی‘سیاسی اورمعاشرتی ظلم کو کوئی خاص اصطلاحی نام ابھی تک کیوں نہیں دیا گیا ؟پہلے بھی عرض کیا ہے کہ یہودیوں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو ہولوکاسٹ کا نام دیا ہوا ہے ‘جس سے انکار کو ایک جرم سمجھا جاتا ہے ۔راقم نے گزشتہ کالم میں ان دو صدیوں کو Sorrows of South Asiaکا نام دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ گورے نے South Asia کو Sad Asiaبنایا تھا بلکہ ابھی تک بنایا ہوا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں