برصغیر کی بربادی اور برہمن بھارت… (3)

ذکر چل رہا ہے جنوبی ایشیا میں بھارت کے اُس کردار کا‘ جو برطانیہ کے جانے کے بعد‘ اس خطے میں سب سے بڑا ملک ہونے کے باوجود وہ ادا کر رہا ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ کالموں میں پاکستان اور چین کو چھوڑ کر بھارت کے دیگر چھ چھوٹے پڑوسی ممالک؛ سری لنکا، مالدیپ، بھوٹان، نیپال، میانمار اور بنگلہ دیش کے ساتھ بھارت کے جارحانہ اور جھگڑالو رویے کا جائزہ لیا گیا اور واضح ہو گیا تھا کہ تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھارت کے نہ صرف تنازعات موجود ہیں بلکہ بھارت ہر ممکن طور پر ان ممالک میں دخل اندازی کا مرتکب بھی ہوتا رہتا ہے۔ اسی حوالے سے بھارت کے اس رویے کو 'برہمن سوچ‘ کا علمبردار قرار دیا گیا ہے۔ برہمن سوچ دراصل اشرافیہ کی یا شاہانہ سوچ ہے جس کے تحت دیگر تمام لوگوں کو کم تر اور انتہائی حقیر سمجھا جاتا ہے‘ اس کی انتہا ہندو دھرم میں '' شودر‘‘ ذات کے لوگ ہیں جن کو انسان کا درجہ بھی نہیں دیا جاتا۔ واضح رہے کہ بھارت کے آئین کے خالق ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر‘ جو ذات کے شودر تھے‘ بھارت میں برہمن سوچ کے غالب آنے کے بعد احتجاجاً ہندو دھرم ترک کر کے بدھ مت کے پیروکار بن گئے تھے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کا اپنا مذہب ترک کرنا بھارت کے خود ساختہ سیکولرازم کے منہ پر ایک اتنا بڑا طمانچہ ہے کہ بھارت کی پوری سیکولر تاریخ اس پر شرمندہ نظر آتی ہے۔
اب ان امور کا جائزہ لیتے ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کس طرح اس خطے کو آج تک پسماندہ اور جنگ زدہ صورت حال سے دوچار رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ سب سے پہلے ہم وطنِ عزیز پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا اندازہ یا ادراک ہوگا کہ آزادی کے بعد پاکستان کا جو سب سے پہلا بجٹ بنا تھا‘ اس میں دفاع کے لیے کل بجٹ کا 65 فیصد سے بھی زائد رکھا گیا تھا۔ آپ کو دو تہائی حصہ اگر بہت زیادہ معلوم ہوتا ہے تو آپ اپنی معلومات درست کر لیں کیونکہ ہمارا پہلا دفاعی بجٹ اتنا ہی تھا۔ اس کی وجہ بہت واضح تھی کہ بھارت کی طرف سے کس بھی وقت جارحیت کا خدشہ تھا اور یہ خدشہ1948ء میں ہی سچ ثابت ہو گیا تھا۔ اب آپ خود اندازہ کریں کہ ایک نوزائیدہ ملک‘ جو دیگر بہت سارے مسائل کا شکار تھا‘ کو اپنی بقا یقینی بنانے کے لیے سو میں سے پینسٹھ روپے اسلحے اور دفاع پر خرچ کرنا پڑ رہے تھے۔ کل بجٹ کا لگ بھگ دو تہائی دفاع پر خرچ کرنے کا یہ سلسلہ اگلی ایک دہائی تک جاری رہا‘ اس کے بعد اس میں بتدریج کمی آنا شروع ہوئی تھی۔ آج کے دور میں عسکری صنعت کے ترقی کرجانے اور ایک ایٹمی ملک ہونے کے باوجود‘ پاکستان کل بجٹ کا لگ بھگ اٹھارہ فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔
جب ہم بھارت کی جارحانہ اور جنگی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک اہم پہلو پر غور کرتے ہیںتو اس دلیل کو ثابت کرنے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ بھارت کی طرف سے اس خطے میں جنگی رجحان اور صورتحال کو کس طرح تقویت دی جا رہی ہے‘ اس کا اندازہ اسی سوال کے جواب سے ہو جائے گا کہ پاکستان ایٹمی طاقت کیوں بنا؟ اگر بھارت 1974ء میں اس خطے کا سب سے پہلا ایٹمی دھماکہ نہ کرتا تو پاکستان خواب میں بھی ایٹمی پروگرام کی طرف بڑھنے کا نہیں سوچ سکتا تھا۔ اسی طرح اگر بھارت 1998ء میں دوبارہ ایٹمی دھماکے نہ کرتا تو پاکستان کبھی بھی اپنی ایٹمی صلاحیت کا اظہار نہ کرتا۔ یہی کہانی میزائل ٹیکنالوجی کی ہے۔ واضح رہے کہ ماضی میں جب مغربی ممالک اس خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کے بڑھتے رجحان پر اعتراضات کرتے تھے تو پاکستان نے واضح طور پر یہ پیشکش کی تھی کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرا دیا جائے اور پاک بھارت جنگ بندی کا مستقل معاہدہ کرا دیا جائے‘ پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیت کو رول بیک کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے مگر بھارت کسی طور بھی اس پر تیار نہیںہو ا تھا۔
اب بھارت کے بھیانک کردار کا ایک اور رخ دیکھتے ہیں۔ اگر بھارت پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم کر لیتا تو جو تیاریاں اور اخراجات دفاع پر کیے گئے تھے‘ وہ اگر تعلیم و تحقیق پر کیے جاتے تو یہ خطہ خوشحالی کی جانب گامزن ہو سکتا تھا مگر بھارت نے اس خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں بھارت دنیا کی چھٹی جبکہ پاکستان ساتویں ایٹمی طاقت بنا۔ اب مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ اگر یہ دو ممالک ایک مشکل رسا ٹیکنالوجی کے حصول کے حوالے سے دنیا کے سات ممالک میں شامل ہوسکتے ہیں تو دیگر ٹیکنالوجی کے حوالے سے ٹاپ ممالک کی فہرست میں کیوں شامل نہیں ہوسکتے؟ اسی سلسلے کی ایک اور کڑی حالیہ تاریخ سے بھی مل جاتی ہے۔ یہ ہے امریکا کی افغانستان میں جنگی مقاصد کے لیے آمد اور بھارت کا اس مہم میں شامل ہونا۔ واضح رہے کہ افغانستان اور بھارت میں مذہب، زبان، نسل یا ثقافت کے اعتبار سے ایک بھی مشترک قدر نہیں ہے‘ نہ ہی بھارت کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے مگر بھارت نے اس ملک میں اپنے قدم جما کر محض پاکستان دشمنی میں سالانہ بلینز آف ڈالر خرچ کرنا جاری رکھا۔ بھارت نے افغانستان کی سر زمین استعمال کرتے ہوئے‘ امریکا کی چھتری تلے‘ پاکستان کے اندر ہر ممکن دراندازی جاری رکھی، جس کے نتیجے میں بیس سال سے زائد عرصے تک پاکستان دہشت گردی کا شکار رہا۔ افغانستان ایک ایسا ملک رہا‘ بلکہ اب بھی ہے جہاں اس ملک کے اپنے باشندے بھی جانے سے گریزاں ہیں مگر بھارت جیسا غربت کا مارا ملک اس میں ''سرمایہ کاری‘‘ کرتا رہا۔ یہ کس قسم کی سرمایہ کاری تھی‘ اس کا جواب جاننے کے لیے آپ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کا بدنام زمانہ انٹرویو دیکھ لیجیے۔ اس انٹرویو میں‘ جو دراصل ایک تقریر ہے‘ میں یہ شخص برملا اعتراف کرتا ہے کہ وہ پاکستان مخالف گروہوں کو کئی ملین ڈالر دے کر اپنے ساتھ ملا کر پاکستان کے اندر خلفشار( جو دراصل دہشت گردی تھی) کراتا رہا ہے۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بھارت کس طرح اس خطے میں بدامنی اور جنگ کی آگ جلائے رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ البتہ بھارت کو اندازہ نہیں کہ یہ آگ وہ زیادہ دیر تک ایکسپورٹ نہیں کر سکتا‘ جلد یا بدیر اس آگ میں وہ خود بھی جلے گا۔
مغربی طاقتیں ایشیا کے ساتھ‘ مشرق اور مغرب کے تہذیبی تفاوت کے حوالے سے ایک خاص مخاصمت رکھتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ مشرقی ممالک میں بھی ان کے کلچر کا فروغ ہو۔ مغرب کے تعبیر کردہ خواتین کے ''حقوق‘‘ اس کی ایک بڑی مثال ہیں۔ اس بات کو تہذیبوں کے ٹکرائو کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس ٹکرائو کا نظریہ پیش کرنے والے امریکی پروفیسر نے نے بھارت کو ـ'' جھولے کی طرح جھولنے والی تہذیب‘‘ قرار دیا تھا ۔ اُس کا مطلب واضح تھا کہ بھارت ثقافتی محاذ پر مغربی کلچر کو اپنانے اور اس خطے میں پھیلانے کا بہت بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بھارت نے یہ کردار اپنی فلم انڈسٹری کے ذریعے بخوبی نبھایا ہے۔ اس سلسلے میں سونیا گاندھی کا یہ بیان بہت مقبول ہے کہ ''بھارت نے ثقافتی محاذ پر پاکستان کو شکست دے دی ہے‘‘۔ اس حوالے سے متعدد بار یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ اس نے یہ کام اپنی تہذیب کے فروغ سے کیا ؟ یا صر ف مغربی تہذیب کو پہلے اپنے ملک اور پھر اپنی فلم انڈسٹری کے ذریعے دیگر ممالک تک پھیلا کر کیا؟ سچی بات تو یہ ہے کہ بھارت نے جو کلچر اپنی فلموں کے ذریعے پھیلایا‘ وہ اس کے اپنے کلچر پر بھی ایک حملہ ہے۔ واضح رہے کہ شرم و حیا، مضبوط خاندانی نظام اور دیگر مشرقی روایات بھارت سمیت اس پورے خطے اور یہاں کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے کلچر کا بھی حصہ ہیں۔ اگر آپ بالی وُڈ کی جگہ بھارتی پنجاب کی بنی فلمیں دیکھیں تو آپ کو واضح فرق محسوس ہوگا۔ سکھوں کی بنائی ہوئی فلمیں آج بھی پورے خاندان کی تفریح کا ذریعہ ہیں۔یہ پنجابی فلمیں ایک گونجتی ہوئی احتجاجی صدا کی طرح بھارت کی قومی فلمی صنعت کے مجموعی کردار کی نفی کر رہی ہیں۔ بھارتی فلموں نے بھی ایک ایجنٹ کی طرح اس خطے کے کلچر سے کھلواڑ کیا ہے۔ اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ گورے کے جانے کے بعد ‘کس طرح ہر ممکن طریقے سے بھارت اس خطے میں تباہی کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں