ادبی گفتگو ہو یا سٹوڈنٹس کے ساتھ لیکچر کے دوران ذہنوں کو کچھ سوچنے پر آمادہ (Brain Storming)کرنے کے لیے دیا جانے والا وقت‘ ایک سوال اکثر پوچھا جاتا ہے۔ آپ بھی اس سوال کا جواب سوچنے کی کوشش کریں کہ ''دنیا کی ہر حقیقت ایک افسانہ ہوتی ہے؟ یا ہر افسانہ ایک حقیقت ہوتا ہے؟ ہو سکے تو کالم کو یہیں روک کر‘ تھوڑا توقف کر کے‘ اپنی جواب نما ایک رائے قائم کر لیں، اس سے آپ کی ایک ذہنی مشق ہو جائے گی۔ اسی سوال کے حوالے سے ہم ایک نقطہ نظر بیان کرنے کی کوشش کریں گے مگر ذرا الگ طریقے سے۔
اس وقت پوری دنیا میں یہ جملہ بولا جاتا ہے کہ آج کی دنیا سچ اور حقیقت سے آگے کی دنیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں ''آگے‘‘ سے کیا مراد ہے؟ سچ اور حقیقت سے آگے کا مطلب‘ میرے نزدیک تو سچ اور حقیقت کی نفی ہے اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو آج کی دنیا واقعتاً جھوٹ، غیر حقیقی، مصنوعی پن اور عارضی خیالات و تصورات پر مبنی دنیا ہے۔ سب سے پہلے آپ اس تصور پر غور کریں کہ آج کی دنیا ایک ''ترقی یافتہ‘‘ اور ''مہذب‘‘ دنیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک تصور جمہوریت کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے بلکہ یوں کہنا پڑتا ہے کہ اس دنیا میں جمہوریت ایک مقدس دیوی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جمہوریت کا تصور بنیادی طور پر آزادی اور برابری کا تصور ہے۔ اس فلسفے کو سب سے بہتر طریقے سے انقلابِ فرانس کا ''آزادی، اخوت اور مساوات‘‘ کا نعرہ بیان کرتا ہے۔ آج دنیا میں نوے فیصد سے زائد ملکوں میں جمہوریت کا بول بالا ہے بلکہ اب تو بات عالمی جمہوریت کی ہوتی ہے۔ عالمی نہ ہو تب بھی یورپی یونین کی شکل میں ایک علاقائی حکومت تو بہر حال کام کر رہی ہے۔ اب اس جمہوریت کی اصلیت جاننے کیلئے پہلے ایک بنیادی نکتے پر غور کرتے ہیں جس کا تعلق آزادی اور برابری سے پہلے‘ انسانی بقا سے ہے۔ تمام تر شماریاتی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ پوری دنیا میں عالمی طور پر اور تمام ملکوں میں قومی سطح پر معاشی نا ہمواری ایک مصدقہ حیثیت رکھتی ہے اور یہ ایک عفریت کی مانند پوری دنیا پر مسلط ہے۔ اس معاشی تفریق کی حقیقی وجوہ جاننے کی کوشش کریں تو شاید کوئی نیا لفظ ایجاد کرنا پڑے۔ وجہ بہت سادہ ہے کہ دنیا کے ایک فیصد لوگوں کے پاس دنیا کے 83فیصد سے زائدوسائل موجود ہیں۔ ان اعداد و شمار کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ اگر کسی علاقے‘ کسی بستی میں ایک سو لوگ موجود ہوں اور وہاں پر سو ہی گھر موجود ہوں تو مساوات کے اصول کے تحت ہر فرد کے حصے میں ایک گھر آتا ہے مگر دنیا میں معاشی تفریق ایسی ہے کہ صرف ایک فرد 83 گھر وں کا مالک بن بیٹھا ہے جبکہ باقی 99 لوگوں کو رہنے کے لیے محض17گھر دیے گئے ہیں ۔ باقی حساب آپ خود لگا لیں کہ ایسی بستی میں صورتحال کیا ہو گی۔ مذکورہ مثال میں گھروں کی جگہ اگر روٹی‘ کپڑے اور صحت کی سہولتوں کو مدنظر رکھا جائے تو صورتحال مزید بھیانک منظر پیش کرے گی۔ ایک فیصد لوگوں کا83 فیصد وسائل پر قابض ہونا معاشی ناہمواری نہیں بلکہ معاشی استحصال ہے۔ اس کو معاشی آمریت بھی کہا جاتاہے۔ اب بات بہت حد تک واضح ہو چکی ہو گی کہ معاشی جمہوریت نام کی کوئی شے دنیا میں اپنا وجود نہیں رکھتی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔واضح رہے کہ صنعتی انقلاب سے پہلے دنیا میں‘ عوامی سطح کی حد تک معاشی برابری موجود تھی؛ البتہ تب سیاسی جمہوریت کا نام و نشان ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا تھا۔
سیاسی جمہوریت آنے سے عام آدمی کو ووٹ کا حق ملا‘ بادشاہت اور خاندانی راج ختم ہوا، لوگ اپنی مرضی کے حاکم چننے لگے، قوانین بنائے جانے لگے، آزادعدالتیںان قوانین کے تحت فیصلے کرنے لگ گئیں، وقت کے ساتھ ساتھ میڈیا کا ادارہ وجود میں آیا جو اپنی ناگزیریت کی بنیاد پر ریاست کا ایک ستون بن گیا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر لوگوں کے پاس معاشی وسائل ہی نہ ہوں بلکہ وسائل تو موجود ہوں مگر 99فیصد لوگوں کی دسترس سے باہر ہوں، تو کیا محض ووٹ کے حق کے ساتھ لوگ زندہ رہ پائیں گے؟ یقینا جواب نفی میں ہی آئے گا۔
اب آئیں جنوبی ایشیا کے خطے کی سیاسی جمہوریت کی طرف‘ جس کا جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ یہاں سیاسی جمہوریت کے نام پر آمریت ہی چل رہی ہے۔ جمہوری پارٹیوں پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے اور انہی خاندانوں نے تمام وسائل پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے۔ اسی کو اصل آمریت بلکہ دہری آمریت کہا جاتا ہے۔ انسانی تاریخ کے ابتدائی مراحل میں سیاسی آمر یعنی بادشاہ وغیرہ ہی معاشی وسائل پر دسترس رکھتے تھے اور وہی آمرِ مطلق ہوتے تھے۔ اب یہاں ایک خوبصور ت سوال کا جنم ہوتا ہے‘ وہ یہ کہ کیا ان خاندانوں نے وسائل سے اقتدار پر تصرف حاصل کیا ہے؟ یا اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد تمام وسائل کو اپنے تصرف میں لیا ہے؟ اس باہمی تعلق کو Cause and Effectبھی کہا جاتا ہے۔ اب اس میں ''سبب‘‘ اور ''اثر‘‘ کا تعلق ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں، اول: چند خاندانوں نے وسائل کی مدد سے اقتدار حاصل کیا اور پھر مزید وسائل کمائے(مطلب وسائل پر قبضہ کیا)۔ دوم: چند خاندانوں نے اقتدار کی مدد سے وسائل اکٹھے کیے اور پھر اقتدارمیں رہنے کا سامان کیا۔ ''کاز اینڈ ایفیکٹ‘‘ دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونیوالی مساوات (Equation) ہے۔ ویسے یہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ملکوں کی جمہوریت کی حقیقت بھی ہے۔ واپس چلتے ہیں عالمی بلکہ 'مغربی‘ جمہوریت کی طرف‘ جو اس وقت دنیابھر میں ترقی اور تہذیب کا استعارہ سمجھی جاتی ہے۔
معاشی جمہوریت کے باب میں ہمیں پتا چلتا ہے کہ دنیا کا نظامِ زر اب اس سطح پر آچکا ہے کہ وسائل موجود ہونے کے باوجود لوگوں کی دسترس سے باہر ہیں۔ آج کے لوگ ایک طرح سے مہذب معاشی غلام ہیں اور وہ ایک فیصد لوگوں کے لیے اپنی مہارت اور قابلیت استعمال کر رہے ہیں۔ ایک فیصد اشرافیہ کی دولت میں اضافے کے لیے باقی ننانوے فیصد دن رات کام کر رہے ہیں۔ ویسے آپ سادہ لفظوں میں بھی اس بات کو جان بلکہ جانچ سکتے ہیں۔ اگر وسائل آپ کی پہنچ میں ہوں‘ انصاف میسر ہو‘ تحفظ کا احسا س ہو‘ روٹی سستی اور خالص آٹے کی ہو‘ انرجی‘ یعنی تیل اور بجلی‘ سستی ہوتو ہر شخص معیاری زندگی گزارنے کے قابل ہو سکتا ہے مگر دیکھا جائے تو پاکستان میں اس حوالے سے معاملہ بہت سنگین ہو چکا ہے۔ اگر صرف بجلی کی بات کی جائے تو پاکستان میں بجلی کی قیمت میں ہر ماہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر جس قدر اضافہ ہوتا ہے‘ چار‘ پانچ روپے فی یونٹ‘ اتنی لاگت میں تو بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ پانی سے بننے والی بجلی کی فی یونٹ لاگت دو سے تین روپے ہوتی ہے۔ یہ بھی ذہن نشین رکھیں کہ پاکستان میں اتنے آبی ذرائع موجود ہیں کہ پچاس ہزار میگاواٹ سالانہ سے زائد بجلی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس وقت اوسطاً گھریلواستعمال کی بجلی کی فی یونٹ لاگت لگ بھگ پچیس روپے آرہی ہے۔ ان حالات میں کیا جمہوریت کا راگ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو سکتا ہے؟ واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے گزشتہ دنوں بجلی کی قیمت میں فی یونٹ کمی کا جو اعلان کیا گیا ہے‘ اس کا اطلاق صرف سات سو یونٹ تک کے بلوں کے لیے ہے۔ آگے گرمی کا موسم آرہا ہے‘ اس موسم میں اگر آپ صرف ایک ایئر کولر ہی چلائیں تو لائٹ پنکھے‘ فریج اور دیگر استعمال کے ساتھ سات سو یونٹ خرچ ہو ہی جاتے ہیں، لہٰذا اگر آپ بجلی پر دی گئی سبسڈی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ایئر کنڈیشنر کا خیال بھی ذہن میں مت لائیے گا۔ اب ایک بار پھر عالمی معاشی تقسیم کا ذکر ہو جائے جو در اصل معیشت کی تقسیم در تقسیم ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک غریب آدمی کی اکلوتی اولاد کو بھی وہ خوراک حاصل نہیں ہو پاتی جو امیر کا پالتو کتا دن میں تین سے چار بار روزانہ کھاتا ہے۔ اگر آپ کو یہ بات عجیب لگ رہی ہے تو کسی بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور کا دورہ کریں اور وہاں پالتو کتوں اور بلیوں کیلئے موجود امپورٹڈ غذا کی قیمت پوچھیں۔ غریب آدمی کو تو ایسی مہنگی خوراک کسی تہوار پر بھی حاصل نہیں ہو پاتی۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ آج کی دنیا کتنی مہذب اور کتنی ترقی یافتہ ہے۔ (جاری)