جدید دنیا کا دکھ، معاشی آمریت

جدید دنیا کی اصطلاح سولہویں صدی سے آگے کے دور کے لیے استعمال ہوتی ہے ‘اس کو ماڈرن دور بھی کہا جاتا ہے ۔گزشتہ کالم میں ہم نے اس جدید بلکہ جدید ترین ‘مطلب موجودہ دور کی بات کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ موجودہ دور کے لوگ مغربی سربراہی میں جمہوریت‘سرمایہ دارانہ نظام ‘ لبرل ازم ‘حقوقِ نسواں ‘وغیرہ کے ایجنڈے کے تحت ان تصورات کو انسانی ترقی اور تعمیر کا رول ماڈل تصور کرتے ہیں۔ان تصورات سے باہر دنیا سوچ بھی نہیں سکتی یا یوں کہہ لیں کہ سوچنے ہی نہیں دیا جاتا۔اس کو سوچ کا دائرہ( ThinkingBox) کہا جاتا ہے۔شاید اسی لئے جب کسی مشکل سے واسطہ پڑے تویہ کہا جاتا ہے‘Think out of the Box ‘مطلب یہ کہ کچھ نیا سوچو ‘مگر آج تک کسی نے اس خود ساختہ مغربی جدت اور ترقی کے تصورات سے باہر یا آگے جاکر نہیں سوچا‘لیکن اب ایک ایسا نیا تصور اور رول ماڈل سامنے آچکا ہے‘یہ تصور چین نے پیش کیا ہے ۔یوں کہیں کہ انہوں نے پہلے اس پر خود عمل کیا ‘ترقی کرتے ہوئے کامیاب ہوئے حتیٰ کہ عالمی طاقت بنے۔اصل بات یہ ہے کہ اب انہوں نے مغربی ماڈل کو چیلنج کرنا شروع کردیا ہے۔چونکہ مغربی تصورات کئی صدیوں سے غالب ہیں اس لئے چین کے ماڈل کو سمجھنے اور اس پر یقین کرنے میں لوگوں کو وقت لگ رہا اور ابھی مزید وقت درکار ہو گا ۔اس سلسلے کی سب سے پہلی کڑی جو کہ انتہائی کڑوی بھی ہے ‘جمہوریت کا تصور اور اصل مطلب ہے۔
ہم نے گزشتہ کالم اسی سے بحث شروع کرتے ہوئے ایک نکتہ بیان کیا تھا ‘اسی کو آگے بڑھاتے ہیں۔جمہوریت کا جنم بادشاہت اور آمریت کی نفی سے شروع ہوتا ہے ‘بات صاف ہے کہ صرف ایک شخص تمام ترمعاشی وسائل کا حامل اور ان کے فیصلے کرنے اور تمام تر اختیارات کا مالک نہیں ہونا چاہیے۔بنیادی طور پر تو یہ بلا شبہ انسانی ارتقا اور ترقی میں ایک انقلاب تھا۔ جمہوریت آنے سے سیاسی برابری تو آگئی جس کے نتیجے میں کوئی بھی شخص سیاست میں آکر کسی بھی عہدے تک پہنچ سکتا ہے۔مزید یہ ہوا کہ ایک سربراہ مملکت کے ساتھ دیگر بہت سے لوگ بھی پارلیمنٹ کا حصہ بن گئے۔اس کے ساتھ قانون بن گئے جن کے تحت عدالت ایک علیحدہ ادارے کے طور پر فیصلے کرنے لگ گئی‘اس سے پہلے یہ کام بھی زیادہ تر بادشاہ خود ہی کیا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ انتظامیہ کا ادارہ بھی جدید ہوگیا ۔وقت کے ساتھ میڈیا نے بھی ایک ستون کی حیثیت حاصل کر لی اور حکومتوں کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھنے لگا ۔اب یہ سب ہونے کے بعد جمہوریت مکمل ہوگئی‘حقوق اور وسائل برابر ہوگئے‘لیکن ایک بات کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا جبکہ سب سے زیادہ دھیان اسی طرف دینا چاہیے تھا اور اب اس دور میں تو سب سے زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے اور وہ ہے عفریت نمامعاشی بادشاہی یاآمریت۔یہ آمریت شروع میں نہیں تھی اور اگر تھی بھی تو اس کی حدود بہت کم تھیںلیکن وقت کے ساتھ یہ آمریت نہ صرف سخت گیر ہوگئی بلکہ اس کی حدود عالمی ہو گئیں۔اس آمریت کے نتیجے میں امیر اور غریب کا فرق اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب اسے صرف فرق نہیں بلکہ تضاد کہنا پڑتا ہے۔اس کی ایک مثال اس طرح ہے کہ جتنے پھلوں‘ پھولوں اور دیگر چیزوں کا عرق امیر آدمی کے کاسمیٹکس میں شامل ہوتا ہے اتنا غریب کی خوراک میں بھی نہیں ہوتا۔اسی بات کو سادہ الفاظ میں امیر کے پالتو کتے کی خوراک اور غریب کی لاڈلی اولاد کی خوراک کے فرق سے واضح کیا جاتا ہے‘بقول شاعر
امیراں دے کتیاں نو ریشم دے چگے (کرتے)
غریباں دے بالاں نو کھدر وی نہ لبھے
اب معاشی جمہوریت اور سیاسی آمریت میں سے کون سی چیز اہم اور ضروری ہے اس کو سمجھنے کے لیے آپ کو ایک مثال دیتے ہیں ۔چلتے ہیں دنیا کے اس خطے میں جہاں آج بھی بادشاہت چل رہی ہے‘اور یہ ہے مشرق وسطیٰ کا خطہ ۔ان ممالک میں سعودی عرب ‘کویت‘قطر ‘عمان‘یو اے ای‘مسقط وغیرہ شام ہیں ۔اس خطے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ تاش کے پتوں کے علاوہ یہ واحد خطہ ہے جہاں بادشاہ آج بھی پائے جاتے ہیں۔اس خطے میں لوگوں کو سیاسی جمہوریت کا نام لینے کی اجازت نہیں‘ مگر تیل کی دولت کی مہربانی سے لوگوں کو دنیاوی سہولیات اور معاشی آسودگیاں میسر ہیں۔سیاسی جمہوریت کا نام نہ لینے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس خطے میںمعاشی جمہوریت موجود ہے۔اس علاقے میں غربت نہیں‘ بے روزگاری بھی نہ ہونے کے برابر ہے اوردنیا بھر کی سہولیات ‘ آسائشیں اور عیاشیاں اس خطے میں یکجا ہیں۔یہ سب کچھ تیل کی فراوانی کی وجہ سے ہے اور ان علاقوں کے سربراہان اپنے لوگوں کو تیل کی دولت سے اتنا حصہ دیتے ہیں کہ وہ نہ صرف بنیادی ضرورتیں بلکہ پر تعیش مراعات بھی با آسانی حاصل کر پاتے ہیں۔اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ اس خطے کے لوگ اپنے بادشاہوں کے خلاف بولنے سے اجتناب کرتے ہیں اور ان کی بادشاہت سے لگائو رکھتے ہیں ۔ یہ خطہ سیاسی آمریت کا مرکز ہونے کے ساتھ'' معاشی جمہوریت‘‘ کا ایک نمونہ ہے۔ایک دفعہ ایک عرب سے گفتگو کرتے ہوئے پوچھا گیا کہ آپ لوگ جمہوریت کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتے تو اس نے انگلش میں ایک فقرہ عربی حروف تہجی میں بولا۔واضح رہے کہ عربی حروف تہجی میں'' ٹ ‘‘اور ''ڈ‘‘ نہیں ہوتا اس لئے وہ انگلش بولتے ہوئے بھی اس کی جگہ ''د ‘‘اور''ت‘‘ہی بولتے ہیں۔تو اس شخص نے کہا کہ وت تو دو وددماکریسی ‘ وت ول دماکریسی گیو یو؟ یعنی جمہوریت کا کیا کرنا ہے؟ جمہوریت ہمیں کیا دے گی؟اس کے بعد اس نے کہا :ات ول برنگ برید اینڈ بتر‘ات از الریڈی ہیرمطلب جمہوریت ہمیں کھانے کو دے گی تو یہ پہلے ہی یہاں موجود ہے ۔اس کے بعد اسی قسم کے خیالات اس نے انصاف کی عملداری اور امن و امان کے لیے بھی بولے۔اب بات اس نہج تک آگئی کہ ووٹ کا حق حاصل نہیںاور ایک ہی شخص یا اس کا خاندان حکمران ہے تو کیا ہوا۔
ایک اورمثال دیتے ہیں ‘اس مثال کو پاکستان سے شروع کرتے ہیں جہاں ہمارے خود ساختہ عوامی حکمران(خاندان)بس ایک بات کا واویلا کرتے رہتے ہیں کہ اگر پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل نہ ٹوٹتا تو نہ جانے ہم کہاں تک پہنچ چکے ہوتے۔ اس بات کو یہیں پر روکیں اور ایک اور واقعہ کی طرف چلیں ۔یہ میری زندگی کا ایک اہم سبق نما واقعہ ہے۔چار ‘پانچ سال پہلے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران بھارت کے معروف صحافی کلدیپ نیر صاحب بھارت سے آن لائن شریک ہوئے تو ہمارے میزبان نے یہاں سے شرکا کے ذمے لگایا کہ آپ نے ان سے دو دو سوالات پوچھنے ہیں ۔ریکارڈنگ شروع ہوئی تو میں نے اپنی باری پر کلدیپ صاحب سے دو سوال پوچھے ۔میرا پہلا سوال یہ تھا کہ بھارت میں جب بھی فسادات ہوتے ہیں تو دو فریقوں میں سے ایک فریق ہمیشہ ہندو ہی کیوں ہوتا ہے؟مطب کبھی بھی مسلم اور سکھ ‘مسلم اور عیسائی یا کوئی اور گروہ تنازع میں شامل نہیں ہوتا ‘تقریباً تمام فسادات میں حملہ آور ہندو ہی کیوں ہوتے ہیں؟(یہ کیسی سیکولر جمہوریت ہے)اس بات کا جواب کلدیپ صاحب نہیں دے سکے تھے ۔ دوسرا سوال معیشت اور جمہوریت سے متعلق تھا ‘میں نے عرض کیا کہ ہم تو کبھی افغان جنگ کا حصہ بن گئے کبھی ہمارے ہاں جمہوریت پٹری سے اتر گئی لیکن آپ کے ہاں کبھی ایسا نہیں ہوا پھر بھی آپ لوگ (معاشی طورپر)وہیں کے وہیں کھڑے ہیں‘مطلب غربت کا شکار ہیں ۔تو اس کے جواب میں کلدیپ صاحب صرف اتنا کہہ سکے کہ بہتری آرہی ہے۔اب یہاں مدعا یہ ہے کہ اگر وسائل کرپٹ اشرافیہ اجاڑتی رہے گی تو مزید ستر سال بھی گزر جائیں معاشی جمہوریت نہیں آسکے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں