عالمی ومقامی خرید و فروخت

Melting Pot ایک ایسا برتن ہوتا ہے جس میں دھاتوں کو پگھلایا جاتا ہے ۔ تاریخی اعتبار سے اس لفظ کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ جب بھٹو صاحب کے خلاف تحریک جاری تھی تو ایک نجی طیارے میں سفر کے دوراں ان کے ساتھ ڈیوٹی پر مامور ایک نوجوان پولیس افسر نے ان سے پوچھا کہ سر حالات کا کیا بنے گا تو بھٹو نے جواب دیا تھا: Everything is in the Melting Pot۔ اس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ جب صورت حال غیر یقینی ہو اور بہت کچھ ہو رہا ہو اور بہت سے لوگ کچھ نہ کچھ کر رہے ہوں تو اس صورت حال کو پگھلاؤ کی کیفیت کہا جاتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک بہت بڑی دیگ چڑھی ہوئی ہو اور اس میں بہت سے لوگ اپنی مرضی کی اشیا ڈال رہے ہوں تو واضح نہیں ہوتا کہ اس میں پکنے والی چیز کی آخری صورت کیا بنے گی۔البتہ ایک بات طے ہوتی ہے کہ یہ پکنے والی چیز میٹھی ہو گی یا نمکین۔اگر اس میں ڈالے جانے والے مصالحے بہت تیز اور زیادہ ہوتے ہیں تو یقینا کوئی نہ کوئی کڑک اور سخت ذائقے والی چیز ہی بنتی ہے۔اسی طرح اس صورت حال میں چونکہ اشیا بہت سی ڈالی جاتی ہیں تو پھر دیگ کے خراب ہونے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔مثال کے طور پر جب کسی فریق کو لگنے لگے کے اس کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا تو وہ دیگ میں کوئی ایسی تیز اور کڑوے ذائقے والی چیز ڈال دیتا ہے جس سے دیگ خراب ہو جاتی ہے۔
قدرے عجیب بات یا اتفاق یہ بھی ہے کہ اُس وقت حکومت کی مخالفت کا مطلب بھٹو صاحب کے مخالف تھی ‘اور تمام سیاسی جماعتیں اس مخالفت میں شریک تھیں۔اور اس وقت تقریبا تمام سیاسی جماعتیں حکومت سے زیادہ عمران خان کی مخالف ہیں۔اُس وقت کی تحریک میں عالمی بلکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل بہت زیادہ تھا اور آج کی تحریک کے متعلق بھی بہت وثوق سے بہت کچھ کہا جاریا ہے اور بعض ایسے اشارے بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے یہ کہا جا رہا ہے کہ عالمی سیاسی اور سازشی عناصر سرگرم ہیں۔یہاں ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں ملکی انتظامیہ کا نام بغیر کسی وجہ کے استعمال کرنے والے عالمی کرداروں کا نام لیتے ہوئے کتراتے کیوں ہیں ‘جبکہ جس بڑے پیمانے پر ہل جل اور اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے اس کے مطابق یہ ایک عالمی کھیل کا ایک فِٹ کیس بنتا ہے۔
بات شروع ہوئی تھی عالمی طاقتوں کی تو یہ بھی سن لیجئے کہ امریکی حکام کی ایک بہت عجیب روایت ہے کہ وہ وقت گزرنے کے بعد اپنے خفیہ کاغذات میں چھپے راز چھاپ دیتے ہیں ۔ایسے کاغذات کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل کی سازش سے لے کرکتنے ہی بڑے سانحات اور واقعات ہیں جن کی بنیاد عالمی طاقتوں نے ہی رکھی تھی۔ایسے واقعات میں حکومتیں بنانا اور گرانا ایک عام سی بات ہے۔یہ کام سابقہ عالمی طاقت کے طور پر روس بھی کرتا رہا ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ عالمی سیاست ملکی سیاست سے کئی گنا بے رحم اور مشکل ہوتی ہے۔
اب ایک اور واقعے کی طرف چلتے ہیں جو نپولین سے منسوب ہے ۔قصہ کچھ یوں ہے کہ نپولین کا ایک جرنیل ایک اہم محاذ پر ڈٹا ہوا تھا تو اس کو مخالف خریدنے کی کوشش کر رہے تھے۔یہ جرنیل اس پیش کش کی اطلاع نپولین کو ضرور کر دیا کرتا تھا‘جواب میں نپولین کہہ دیتا تھا کہ مجھے تم پر اعتماد ہے۔وقت کے ساتھ مخالف اپنی پیشکش کی رقم اور مراعات بڑھاتے رہے‘ایک وقت ایسا آیا کہ اس جرنیل نے نپولین کو سخت ترین الفاظ میں کہا کہ اس کو محاذ سے ہٹا دیا جائے ‘نپولین نے تشویش کے انداز میں وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ جناب وہ میری قیمت کے قریب پہنچنے والے ہیں۔ اس قصے کا تعلق خالص ترین انداز میں ہمارے سیاسی محاذ سے ملتا جلتا ہے۔بلکہ بات تو اب یہاں تک نظر آرہی ہے کہ سیاسی خرید و فروخت میں معاملہ شروع ہی ایسی قیمتوں سے ہوتا ہے جو اصل قیمتوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ اس خریدو فروخت میں سیاست دان اس بات پر بھی غور نہیں کررہے کہ ان کا آئندہ سیاسی مستقبل خدشات میں گھر جائے گا۔ویسے ایک بات اور بہت اہم ہے اور وہ اس طرح ہے کہ بعض بڑے مواقع پر کچھ پیش کش ایسی ہوتی ہیں جن کو Life Changingکہا جاتا ہے۔اس کے لیے بھی آپ کو ایک واقعہ سنا دیتا ہوں ۔برطانیہ سے آئے ایک دوست نما سٹوڈنٹ سے ایک ملاقات میں اس کی پی ایچ ڈی کے موضوع کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔اس کی تحقیق کا موضوع جرائم سے متعلق تھا ۔میں نے اس سے پوچھا کہ سنا ہے برطانیہ میں بھی غیر قانونی منشیات کا دھندا ہوتا ہے ‘جیسے چرس اور افیم وغیرہ؟ تو اس نے ہاں میں جواب دیا ۔میں نے پوچھا کہ یہ منشیات اُس ملک میں کیسے پہنچ جاتی ہیں۔ تو اس نے کہا کہ بعض اوقات منشیات کے سمگلرز وہاں کی پولیس اور انتظامیہ کو پیش کش ہی اتنی بڑی کردیتے ہیں کہ وہ ان کو'' ناں‘‘ نہیں کر پاتے۔گویا آج کی دنیا میں بھی یورپ کے ممالک کے اہم ترین لوگ بک جاتے ہیں‘لیکن اس کے لیے پیشکش ایسی اور اتنی زیادہ ہونی چاہیے کہ اسے Life Changingنہیں بلکہ Life Making کہا جاسکے۔مطلب زندگی بدلی ہی نہ جائے بلکہ زندگی بن جائے۔
قیام پاکستان سے لے کرروس کے ٹوٹنے تک پاکستان عالمی سرد جنگ کا حصہ ہی نہیں بلکہ میدان جنگ بنا رہا ۔امریکہ نے نہ صرف پاکستان کو اپنے بلاک میں جکڑے رکھا بلکہ اسے مختلف محاذوں پر اشتراکیت روکنے کے لیے بھی استعمال بھی کرتا رہا۔ اس کی سب سے بڑی مثال روس کی افغان جنگ تھی۔اس وقت تو پاکستان امریکی بلاک میں تھا تو پھر بھی پاکستان میں حکومتیں بنتی اور گرتی اسی کی مرضی سے تھیں ‘جبکہ اب تو پاکستان واضح طور پر چین کے بلاک کا حصہ ہے‘اور اس وقت دنیا میں روس امریکہ کے بجائے‘ چین امریکہ کی سرد جنگ جاری ہے۔تو کس طرح ممکن ہے کہ یہ عالمی طاقت پاکستان کی سیاست سے کنارہ کرے۔اس سے بھی بڑھ کر بات یہ ہے کہ اب پاکستان'' ڈو مور‘‘ کے مقابلے میں ''نو مور‘‘ کی پالیسی پر نہ صرف گامزن ہے بلکہ Absoloutely Notکے نعرہ کی شکل میں ایک عوامی نعرہ نما پالیسی پر بھی گامزن ہے۔اسی طرح عمران خان کے خطاب میں یورپی یونین کے سفیر کو تقریباً ایک ہم پلہ طاقت کی طرح کی للکار کی باز گشت بھی ابھی تک سنی جا رہی ہے۔یہاں پر ویت نام کے ایک لیڈر کی بات یاد آرہی ہے جو ویت نام میں امریکی گروپ کی طرف سے اشتراکیت والوں کے خلاف لڑ رہا تھا ۔اس نے کہا تھا کہ امریکہ کی دشمنی اگر مہنگی پڑتی ہے تو امریکہ کی دوستی اس سے زیادہ مہنگی پڑتی ہے۔امریکہ کی یہ پالیسی بالخصوص ایشیا اور مسلم ممالک کے متعلق ہمیشہ سے جاری و ساری رہی ہے۔
شروع میں بات ہوئی تھی Melting Potکی تو یہ لفظ امریکی معاشرے کے متعلق کچھ اس طرح کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں پوری دنیاسے آئے ہوئے ‘ مختلف زبانوں‘نسلوں‘ مذہبوں اور علاقوں کے لوگ اس طرح آباد ہوتے ہیں کہ وہ اپنی اصل پہچان اور ساخت بھول کر امریکی ثقافت میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔امریکہ کے بعد اب ذکر ایک روسی سابقہ خفیہ ایجنٹ ‘یوری بزمینو ‘ کا جو بھارت میں سرگرم تھا تو اس نے ایک بہت معنی خیز اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ایسے حکمران لاتے ہیں جو ہماری مرضی سے چلیں نہ کہ اپنے ملک و قوم کے مطابق۔اس نے ایسے حکمرانوں کے لیے Political Prostitutes کا لفظ استعمال کیا تھا ۔ سیاسی و انتظامی خرید وفروخت ہر جگہ اسی طرح ہوتی ہے ‘نہیں تو برطانوی حوالے کو دوبارہ پڑھ لیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں