'' شیخ مجیب الرحمن روس کی خفیہ ایجنسی کا آلہ کار تھا اور کام پورا ہونے پر بنگلہ دیش کی آرمی میں موجود روسی ایجنٹوں کی مدد سے اسے مار دیا گیا‘‘ ۔ یہ انکشاف اس کام پر مامور روس کے اعلیٰ ترین خفیہ اہلکار Yuri Bezmenov کا ہے جو اس نے اپنی کتاب کے علاوہ مختلف انٹرویوز میں بھی بار ہا دہرایا ہے۔ اس حوالے سے کئی انٹرویوز انٹرنیٹ پر موجود ہیں‘ جو آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ کس طرح پاکستان اور بھارت کے اندر عالمی طاقتیں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھتی ہیں‘ کون لوگ ان کے آلہ کار بنتے ہیں اور ان لوگوں تک کس طرح رسائی حاصل کی جاتی ہے‘ اس کے انٹرویوز میں یہ سب تفصیلات موجود ہیں جو دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ ہوشربا بھی ہیں۔ حالیہ تاریخ میں امریکی فور سٹار جنرل ویسلے کلارک نے انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے اعلیٰ قیادت کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ہم (امریکا) نے پانچ سالوں میں سات مسلم ممالک میں حکومتیں تباہ کرنی ہے جس کا پہلا شکار عرق ہو گا، جبکہ دیگر ممالک میں لیبیا، شام، لبنان، صومالیہ، سوڈان اور ایران شامل تھے۔ اسی طرح ترکی میں ناکام ہونے والی بغاوت‘ مصر میں مارشل لا کا نفاذ اور سب سے بڑھ کر پاکستان میں لیاقت علی خان سے لے کر ضیاء الحق تک‘ تمام سانحاتی واقعات کا ریکارڈ‘ جو اب پبلک ہو چکا ہے‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ متوسط یا چھوٹے ممالک (یاد رہے ملک چھوٹے یا متوسط اپنی معاشی و عسکری طاقت کی بنا پر ہوتے ہیں) میں اپنی پسند کی حکومتوں کو برسر اقتدار لانا اور مخالفین کو ہٹانا ایک معمول کی کارروائی ہے۔ یہاں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے کہ جب دوسری دفعہ محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو وہ شکوہ نما شکایت لے کر امریکی سفیر کے پاس جا پہنچیں مگر یہ ملاقات بے سود رہی۔
اب یہ بنیادی نکتہ واضح ہوگیا ہو گا کہ عالمی طاقتیںدیگر ممالک بطورِ خاص مسلم اور ایشیائی ممالک کی حکومتیں بنانے اور گرانے کے پیچھے مسلسل کارفرما ہوتی ہیں۔ اس طرز کی جارحانہ مداخلت والی خارجہ پالیسی کی فہرست میں امریکا کا نمبر پہلا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکا ایک سو سال سے زائد عرصے سے دنیا کی عالمی طاقت ہے، سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد تقریباً تین دہائیوں تک وہ واحد عالمی طاقت رہا۔ امریکا کی اس روش سے متعلق چند واقعات بہت اہم ہیں۔ پہلا واقعہ صدر ایوب خان سے متعلق ہے جو ایک میٹنگ میں ہونے کی وجہ سے امریکی سفیر کی کال نہیں سن سکے تھے جس پر کال اٹینڈ کرنے والے صدر کے سیکرٹری کوخوب برا بھلا کہا گیا۔ میٹنگ ختم ہونے کے بعد جب یہ سارا معاملہ صدر ایوب کے علم میں لایا گیا تو ان کا جواب تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ ان کا کہنا تھا: Beggars can't be choosers۔ اب اس کا صاف مطلب معاشی طور پر مجبور ملک کی محدود مرضی تھا۔ اسی طرح جب صدر ضیاء الحق کا طیارہ کریش ہوا‘ جس میں امریکی سفیر بھی سوار تھا تو ایک امریکی اعلیٰ عہدیدار کا بیان اخبارات میں شائع ہوا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ ''یہ حادثہ ہمیشہ ایک معمہ ہی رہے گا‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ صدر ضیا کو ادراک ہو چکا تھا کہ امریکا ہر صورت انہیں ہٹانا چاہتاہے اور انہیں کوئی حادثہ پیش آ سکتا ہے لہٰذااپنے آخری سفر میں انہوں نے امریکی سفیر کو اپنی سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے طیارے میں سوار کر لیا مگر امریکی سفیر کی موجودگی بھی اس فلائٹ کو تباہ ہونے سے نہیں روک سکی۔ اگست 1990ء میںعراق کے صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا تھا اور اس کے ایک شہر پر قبضہ کرلیاتھا۔ اس کے بعد صدام حسین نے انکشاف کیا تھا کہ نہ صرف امریکا کو عراق کے کویت پر حملہ کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ اس حملے میں مکمل امریکی اشیر باد بھی شامل تھی ۔ اس کے بعد صدام حسین کے ساتھ جو کچھ ہوا اور اب تک عراق کے ساتھ جو ہو رہا ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔
اب ایک اہم واقعہ‘ جو پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے وقت پاکستانی سیکرٹری خارجہ شمشاد خان کے ساتھ پیش آیا ۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ مغربی عالمی طاقتیں کسی طور نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان ایٹمی دھماکے کر کے ایٹمی صلاحیت کے حامل ممالک کی فہرست میں شامل ہو‘ اس لیے ہر ممکن ہتھکنڈا استعمال کیا جارہا تھا، اس دوران سیکرٹری خارجہ کو بھی دھمکیاں دی گئیں۔ شمشاد خان بتاتے ہیں کہ ایٹمی دھماکوں سے قبل وہ چین کی سپورٹ حاصل کرنے کے لیے چین جارہے تھے تو اس فضائی سفر کے دوران ان کو انتہائی خفیہ طریقے سے‘ واضح الفاظ میں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ ان کا یہ انٹرویو اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے‘ آپ خود بھی سن سکتے ہیں۔ اسی طرح بقول پرویز مشرف‘ افغانستان پر حملے کے وقت امریکا نے پاکستان کو ''پتھر کے دور میں دھکیلنے‘‘ کی دھمکی دی تھی۔ اس کے علاوہ‘ میڈیا سے بہت کم بات کرنے والے جنر ل اشفاق پرویز کیانی کا ایک بیان بھی اخبارات کے ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکی دھمکیوں والی زبان استعمال کرتے ہیں۔ اب ذکر ایک اور اہم عالمی سازش کا‘ جس کو بیان کرنے والا وہی روسی اہلکار ہے جس کا ابتدا میں ذکر ہوا ۔ یوری کے بقول اس بات پر اس وقت کی دونوں عالمی طاقتوں‘ سوویت یونین اور امریکا میں مکمل اتفاقِ رائے پایا جاتا تھا کہ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ ہونا چاہیے۔ حالانکہ اس وقت پاکستان امریکا کے دو علاقائی اتحادوں کا حصہ تھا ۔اب ذکر ویتنام کے جنگی ہیرو کے الفاظ کا‘ امریکا کی دشمنی بری ہے مگر اس کی دوستی اُس سے بھی بری ہے۔
ان تمام تاریخی حوالوں کے ساتھ ذکرموجودہ مبینہ دھمکی آمیز خط کا ۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن اسے بنا ایسا بنا دیا گیا ہے ۔ البتہ اس بار ایک واضح فرق یہ ہے کہ پہلے دھمکیوں کا پبلک میں ذکر اگر کیا بھی جاتا تھا تو بین السطور یا ڈھکے چھپے الفاظ میں کیا جاتا تھا‘ جیسے بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ سفید ہاتھی میرے پیچھے پڑا ہے۔ اس کے علاوہ جن حکمرانوں کو دھمکیاں ملتی تھیں‘ وہ اقتدار سے ہٹنے کے بعد ان سے متعلق انکشاف کرتے تھے لیکن موجودہ دھمکی کا ذکر اقتدار میں رہتے ہوئے ہی کر دیا گیا۔ یہ ذکر ایک عجیب طریقے سے ہوا‘ اور ہو رہا ہے ۔ پہلے ملک کا نام نہیں لیا گیا، پھر کسی نہ کسی طرح وہ نام بھی سامنے آگیا ۔ یہ دھمکی کس جگہ ‘ کس صورتحال میں‘ کس عہدیدار نے‘ کس کو دی‘ یہ سارا منظر اب واضح ہو چکا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ مقامی ایشوز کے بجائے عالمی مداخلت کے موضوع پر سیاست کا بازار گرم ہے۔ یہاں سیاسی ترقی کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کیلئے یہ صورتحال ایک مثبت مرحلہ بن گئی ہے۔ اس ایشو نے مہنگائی، کرپشن اور دیگر تمام مسائل کو پس پشت ڈال دیا ہے جبکہ اس کے سبب عوام میں کپتان کا مقبولیت کا گراف نہ صرف بہتر ہوا ہے بلکہ کافی بلند ہو گیا ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ کے پی میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن کا رزلٹ ہی دیکھ لیں۔
آخر میں بات چین کی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان کی‘ جس میں چین نے سرد جنگ میں چھوٹے اور متوسط ممالک کو گھسیٹنے کی مذمت کی ہے۔ سرد جنگ چونکہ چین اور امریکا کے مابین لڑی جا رہی ہے لہٰذا اس موڑ پر پاکستان کی سیاسی تقسیم چینی اور امریکی حامیوں کی صورت میں ہو چکی ہے۔ سیاسی حالات و واقعات اور بیانات اس قسم کے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپوزیشن امریکا کی حامی جبکہ حکومت واضح طور امریکا مخالف اور چین و روس نواز بن چکی ہے۔سیاسی پنڈتوں کے مطابق اسمبلی توڑنے کے باوجود عمران خان بہت فائدے میں رہے ہیں کیونکہ ان کو آئندہ کی سیاست کیلئے ایک ایسا ایشو مل گیا ہے کہ ان کی حکومت کی تمام خراب معاشی کارکردگی نہ صرف دب گئی ہے بلکہ اگلے الیکشن میں وہ زیادہ قوت کے ساتھ ''کم بیک‘‘ کر سکتے ہیں۔