نوحۂ اشجار و بحر وبرّ

ادب کی اصناف میں شعر کو یہ اعجاز حاصل ہے کہ ایک ایک شعر وہ بات کہہ دیتا ہے جو شاید پوری کتاب بھی نہ کہہ پائے۔اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ چند اشعار لوگوں کو یاد بھی ہوجاتے ہیں اور ان کا اثر انقلابی تاثیر رکھتا ہے۔آج کل ملک میں پانی کے بحران کے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ اور شدید گرمی کی لہر نے قیامت خیزی برپا کر رکھی ہے۔اس حالات میں کشمیر کی وادی سے ایک'' حر‘‘نے ایسی ماحولیاتی شاعری بھیجی ہے کہ چند اشعار کے ساتھ اشجار کی کمی سے پیدا ہونے والی گرمی ہو یا پھرپانی کا بحران‘ ان دونوںقدرتی عوامل کی قلت سے پیدا ہونے والی دیگر ماحولیاتی مشکلات کا شعرو ں میں بہترین احاطہ کیا گیا ہے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
گر نجات چاہیے، زمین کو پھر تم ہرا کرو
وادیوں کو دو شجر، ازالۂ جفا کرو
بدل کے فطرت ِازل، نہ خود کو تم تباہ کرو
ماحولیاتی تباہی کا سب سے بڑا سبب اور گڑھ صنعتی شہروں کو مانا جاتا ہے۔یہاں پر سیمنٹ اور پتھروں کا ایک جنگل اُگ آتا ہے۔کچھ سال پہلے سپریم کورٹ کے ایک معزز جج صاحب نے یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ شہروں میں پلازوں کا جنگل نہیں اگنے دیں گے۔اس کو شاعر نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
سنگ وخشت کا جنگل اب ہر ایک بستی ہے
کیا خبر کہ عروج ہے یا یہ کوئی پستی ہے
ہر نگاہ سبزہ وگل کو یاں ترستی ہے
اس کے بعد پانی کی کمی کا نوحہ اور صحرا کے علاقوں میں پانی بھرنے کے لیے دور تک جانی والی عورتوں کا حال کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
آبشار و دریا میں آج کم روانی ہے
پانیوں کے قصے میں شرمسار پانی ہے
پانیوں کو نکلی ہیں میرے گائوں کی ناریاں
گاگروں کو ڈھونے میں عمریں کٹ گئی ساریاں
پانی کی کمی سے جو اناج کی پیداوار میں کمی لاحق ہوتی ہے‘ اس کے متعلق کچھ یوں کہا گیا ہے کہ
اب یہاں کے کھیتوں میں اناج کم اگتا ہے
طائرِ چمن رزقِ احتیاج چگتا ہے
زر فشاں زمینوں نے قحط راج بھگتا ہے
آلودگی کا مسئلہ اور اس کا حل کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ
شہرہ جن فضائوں کا عطر بیز ریزش ہے
اب انہی ہوائوں میں گرد کی آمیزش ہے
درمیان چرخ و خاکدان کچھ آویزش ہے
گر نجات چاہیے زمین کو پھر ہرا کرو
وادیوں کو دو شجر، ازالۂ جفا کرو
بدل کے فطرتِ ازل نہ خود کو تم فنا کرو
آخر میںاس ماحولیاتی تبدیلی کے ذمہ داران کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ
آسمان سے اتری بے وجہ کب ابتلا ہے
بے امان جنگلوں کی آدمی کو بددعا ہے
ثنا گرانِ حق کے قتل کے گناہ کی سزا ہے
غارتِ چمن کے اسباب کے بارے میں کہا ہے:
اس قحطِ آب و برگ و بار کا سبب ضرور ہے
یہ نہیں سر نہاں، ہاں عجب ضرور ہے
غارتِ چمن میں باغبانوں کا قصور ہے
میرے علم کے مطابق لیجنڈ شاعر انور مسعود غالباً پہلے اردو شاعر ہیں جنہوں نے نہ صرف ماحولیات کو باقاعدہ اپنے شعروں کا حصہ بنایا بلکہ ماحولیات پر ان کا ایک مجموعہ بھی لگ بھگ ایک دہائی قبل شائع ہو چکا ہے۔ ''میلی میلی دھوپ‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے اس شعری مجموعے میں صرف ماحولیات ہی پر شاعری شامل کی گئی۔ اس میں فضائی و آبی آلودگی، درختوں کے قتلِ عام، صوتی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے گمبھیر موضوعات کو قطعات، نظموں اور غزلوں میں باندھا گیا۔ اس کتاب کا ٹائٹل بھی ایسا تھا کہ ماحولیات کی تباہی کا بخوبی اندازہ ہوتا تھا۔ کٹے ہوئے درختوں کے تنے اور دھواں چھوڑتی گاڑیاں۔ ایک قطعہ ملاحظہ ہو
شام تک شام سی رہتی ہے
صبح آتی ہے پر نہیں آتی
بڑھ گیا شہر میں دھواں اتنا
''کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘
منیر نیازی کی ایک مشہور غزل کی زمین میں چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
سر پر دھویں کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آلودگی کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اک دوسرے کو اب کوئی پہچانتا نہیں
گرد و غبار شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
ہم سے ہوائے شہر کی بابت نہ پوچھئے
رگ رگ میں ایک زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
دھواں چھوڑتی گاڑیوں اور فضائی آلودگی کو انور مسعود صاحب نے کچھ یوں بیان کیا ہے:
میں کیسے اس کے پھیلائو کو روکوں
مری ہمت کے فوکس میں نہیں ہے
نہ پوچھو حال میری بے بسی کا
دھواں بس کا مرے بس میں نہیں ہے
سموگ کے دنوں میں ہر کوئی کھانستا اور آنکھوں کی جلن کی شکایت کرتا نظر آتا ہے۔ آج کل بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہر دوسرا شخص بیمار نظر آ رہا ہے۔ کوئی بخار میں مبتلا ہے تو کوئی گلا خراب ہونے کی شکایت کر رہا ہے، اس کا سبب کیا ہے‘ انور مسعود کے اس قطعے سے جان لیں:
تیرا اپنا ہی کیا آیا ہے تیرے سامنے
تو اگر بیمار پڑ جائے تو واویلا نہ کر
میں بتاتا ہوں تجھے صحت کا بنیادی اصول
جس ہوا میں سانس لیتا ہے اسے میلا نہ کر
ماحول کے تحفظ میں درختوں کے کردار کے حوالے سے لکھتے ہیں :
جلانا جسم اپنا دھوپ کی تپتی انگیٹھی میں
مگر فرش زمیں پر چھائوں کی چادر کو پھیلانا
درختوں سے کوئی سیکھے سبق حسن مروت کا
فضا کا زہر پی لینا مگر تریاق لوٹانا
صنعتی ترقی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
صنعتی پیش رفت کے صدقے
موسم خوشگوار پایا ہے
شہر پر اب دھوئیں کی برکت سے
ایسا لگتا ہے ابر چھایا ہے
امید ہے کہ ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سے کچھ نہ کچھ تو آپ کو ضرور بھایا ہوگا اور کچھ عمل وحرکت ضرور کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں