آج مکالماتی کالم کے ذریعے کسی ایک موضوع کے بجائے کچھ گرد و پیش کا حال احوال بیان کرنے کا سوچا تھا اور اس کے لیے ایک استاد کی خدمت میں پیش ہوئے۔ عوام کے حصے کے سوالات میں کرتا گیا اور اور ان سوالات پر استاد نے جو ذہن کھول دینے والے جواب دیے‘ وہ پیشِ خدمت ہیں:
استادِ محترم! سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ اب نہ صرف ملکی یا علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بھی حالات اچھے نہیں ہیں۔ مہنگائی، ذہنی اضطراب، غیر یقینی کی کیفیت جیسے عوامل بہت زیادہ ہے‘ اس پر آ پ کیا کہتے ہیں؟ استاد نے صرف اتنا جواب دیا کہ تمہاری بات ٹھیک ہے، لیکن مجھے کوئی تعجب نہیں ہے۔ میں نے وجہ پوچھی: آپ کو کوئی تعجب کیوں نہیں؟ قدرے مسکرا کر بولے: اگر تم ایک دکان سے روزانہ کی بنیاد پر کوئی چیز خریدو اور قیمت ادا نہ کرو تو کیا ہوگا؟ میں نے کہا: لازم ہے کہ مجھ پر ادھار چڑھتا جائے گا۔ اس پر استاد نے کہا کہ اگر وہ دکاندار کچھ سالوں کے بعد تم سے اس ادھار کا حساب مانگ لے تو کیا ہوگا؟ میں نے تھوڑی وضاحت مانگی تو استاد نے کہا : مطلب یہ کہ کئی سالوں کے بعد دکاندار ادھار کی رقم یکدم واپس مانگ لے تو کیا تم یکمشت یہ رقم ادا کر پائو گے؟ میں نے فوراً جواب دیا: ہر گز نہیں! استاد صاحب بولے: یہی کچھ دنیا کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ''میں تو سمجھ رہا تھا کہ آپ پاکستان پر چڑھے قرضوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے تعلق کو بیان کر رہے ہیں مگر آپ تو عالمی حالات کی بات کر رہے ہیں،معاملہ کچھ سمجھ نہیں آیا‘‘ میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
استاد نے جواب دیا: تمہارا اندازہ قدرے ٹھیک تھا لیکن بات پوری دنیا کی ہو رہی ہے۔ میرے تعجب پر استاد نے دوبارہ کہا: چلو! پہلے پاکستان کی بات کر لیتے ہیں۔ یہ بتائو کہ تم جو چیزیں ادھار لیتے تھے‘ وہ کیا تھیں؟ مطلب‘ کیا تم اپنے بچوں کی تعلیم و تدریس کے لیے کتابیں وغیرہ ادھار پر خرید رہے تھے یا کچھ اور؟ مزید وضاحت کرتے ہوئے استاد نے کہا کہ اگر تم ترقیاتی قسم کی چیزیں‘ جیسے کتابیں یعنی علم و ہنر خریدتے تو تم اس ادھار کی رقم جلد واپس کر سکنے کے قابل ہو سکتے تھے۔ میں استاد کے اس فلسفے میں الجھ کر رہ گیا تھا اور بار بار استاد سے وضاحت کی درخواست کر رہا تھا۔ اب استاد نے اپنی بات کی چوتھی بار وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر تمہارے بچے پڑھ لکھ کر کسی اچھے مقام پر پہنچ جائیں گے تو وہ لازماً اس قرض کو اتارنے میں تمہاری مدد کریں گے، اگر کوئی بچہ کچھ ایسا ماہربن جاتا ہے کہ کچھ ایجادکر تا ہے تو ہو سکتا ہے کہ کل کو تم اسی دکاندار کو ادھار دینے کے قابل بن جائو۔ اپنی بات کو مختصر کرتے ہوئے استاد نے کہا کہ قرض لینا غلط نہیں، لیکن ...'' قرض کا استعمال غلط ہو تو پھر نسلیں غلام بن جاتی ہیں‘‘۔
میں نے کہا کہ ملک پر جو بھی قرض ہے‘ وہ ہم عوام نے تو نہیں لیا، وہ سارا قرض تو سیاستدانوں نے اپنی مرضی سے لیا اور اسے خود ہی ایسے منصوبوں پر خرچ کیا جن سے ان کی تشہیر ہو سکے۔ اس کی سب سے بڑی مثال سڑکیں اور پل ہیں۔ یہ موٹر ویز، یہ میٹرو بسیں، یہ اورنج ٹرین، یہ سب منصوبے قرض ہی سے بنائے گئے ہیں۔ اس پر استاد نے کہا ''تو پھر ایسی قوم کی زندگی بھی سڑکوں ہی پر گزرتی ہے‘‘۔ میں نے تھوڑا حوصلہ پکڑا اور کہا کہ سڑکیں بھی تو کسی قوم کی ترقی کے لیے ضروری ہوتی ہیں‘مواصلات کے موثر نظام کے بغیر ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر استاد قدرے غور کرتے ہوئے بولا: اچھا یہ بتائو کہ جس علاقے میں تم رہتے ہو‘ وہاں آخری بار سڑک کب تعمیر کی گئی تھی؟ میں نے فوراً جواب دیا: ابھی پچھلے سال ہی نئی سڑک بنی ہے۔ اس جواب پر استاد نے اپنے سر کو کھجاتے ہوئے دوبارہ پوچھاـ: اب یاد کرو اور بتائو‘ اس سے پہلے وہی‘ نئی تعمیر شدہ سڑک کب بنی تھی؟ اب میں نے کچھ سوچا اور یاد کرتے ہوئے جواب دیا کہ میرا خیال ہے کہ کوئی تین یا چار سال پہلے بنی ہو گی۔ اس پر استاد نے کہا: کیا تم سمجھتے ہو کہ اس سڑک کے لیے صرف اتنا ہی بجٹ رکھا گیا تھا کہ یہ سڑک محض تین یا چار سال نکال پاتی؟ یہ سن کر میری سٹی گم ہو گئی۔ یہ بات تو ہم نے کبھی سوچی ہی نہیں۔ اب معاملہ صاف تھا کہ کرپشن کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ سڑکیں ناقص مٹیریل سے بنتی ہیں۔ استاد نے پوچھا: کبھی کسی مغربی ملک میں گئے ہو؟ میں نے کہا: اعلیٰ تعلیم کی غرض سے ایک یورپی ملک میں گیا تھا اور لگ بھگ پانچ سال تک وہاں رہا۔ استاد نے دوبارہ پوچھا: جب تم وہاں گئے تھے تو کوئی سڑک نئی نئی بنی تھی۔ میں نے ذہن پر پورا زور لگایا اور پھر پورے یقین کے ساتھ جواب دیا: بالکل بھی نہیں۔ استاد نے مزید پوچھا: کیا دوبارہ کبھی وہاں جانا ہوا؟ میں نے کہا: بالکل! تقریباً تین سال کے بعد دوبارہ اسی یونیورسٹی میں ایک ریسرچ پروجیکٹ کے سلسلے میں گیا تھا اور ایک سال تک وہاں رہا۔ اس پر دوبارہ سوال کیا گیا: کیا سڑکیں پرانی ہی تھیں یا کوئی سڑک دوبارہ بن رہی تھی؟ میں نے پھر سوچا اور جواب دیا کہ میرا خیال ہے کہ سبھی سڑکیں پرانی تھیں‘ کم از کم میں نے کوئی سڑک بنتے ہوئے نہیں دیکھی۔ اس کے بعد استاد چپ ہو گیا۔
میں نے کہا: بات تو مکمل کریں۔ بولے: جواب تمہیں مل چکا ہے، اب پھر مجھ سے جواب کا پوچھ رہے ہو۔ بھئی! اگر سڑک‘ جو محض راستے کے لیے ہوتی ہے‘ غیر معیاری ہو تو سفر کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اور اگر سڑک قرض کے پیسے سے بنائی جائے اور وہ بھی غیر معیاری‘ تو پھر وہ سڑک نہیں ہوتی بلکہ دلدل ہوتی ہے اور ایسی دلدلیں آپ کو منزل کے بجائے موت کی وادی میں لے جاتی ہیں۔ تھوڑا خود بھی تو غور کرو۔ اب میں اس معاملے میں کھو گیا۔ معلوم پڑا کہ جو بھی نئی سڑک بنتی ہے‘ اس کی میعاد کم از کم دس سے پندرہ سال ہونی چاہیے‘ مگر ہمارے ہاں تین سال بلکہ کبھی کبھی تو اس سے بھی پہلے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ مطلب ہم آئے روز نئی سڑکوں کی شکل میں جو ترقیاتی کام کر رہے ہیں‘ در اصل وہ تباہی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ہم یہ ترقیاتی کام بیرونِ ملک سے لیے گئے قرضوں سے کرتے ہیں۔ دوسری بات‘ ان سڑکوں پر آنے والی لاگت پوری کی پوری ادا کی جاتی ہے مگر ان کی میعاد تین سے چار سال تک ہوتی ہے۔ ان باتوں پر میرا دماغ جون کے مہینے میں ہیٹ ویو سے تپتی سڑکوں کی طرح گرم ہو گیا۔ اب میں نے قدرے بحث کے انداز میں کہا: استاد جی! دو شہروں کو ملانے والی سڑکیں تو چار سال سے زیادہ نکال جاتی ہیں۔ اس پر جواب ملا کہ ان سڑکوں کا بجٹ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ بجٹ کے لحاظ سے ان سڑکوں کی عمر کم از کم پندرہ سے بیس سال ہونی چاہیے مگر یہ سڑکیں پانچ سے چھ سال کے بعد ہی دوبارہ بنانا پڑ جاتی ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو موٹروے کی سڑکوں کو دیکھ لو۔ میں نے کہا: چلیں! موٹروے پر تو کرپشن نہیں ہوئی۔ استاد نے کہا کہ پاکستان میں سب سے پہلی موٹر وے ایک غیر ملکی فرم نے بنائی تھی جس سے یہ معیار مقرر ہو گیا تھا، اس میں بھی ہمارا کوئی کمال نہیں۔ تم یہ بتائو‘ کیا صرف سڑکیں بنانے سے ملک ترقی کرنے لگتے ہیں؟ اب میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا‘ لہٰذا میں نے جوابی سوال داغا: آپ ہی بتائیں کہ پھر کیسے ترقی کرتے ہیں؟ تعلیم سے ترقی ہوتی ہے؟ استاد جی نے میری تصحیح کی: صرف تعلیم نہیں‘ سائنسی تعلیم اور محض تعلیم نہیں تحقیق سے ہوتی ہے۔ تحقیق ہو گی تو کچھ ایجاد ہو گا اور جب کوئی شخص کچھ ایجاد کرتا ہے تو وہ اس کی منہ مانگی قیمت وصول کرتا ہے۔ جو منہ مانگی قیمت وصول کرنے کے مقام کو پہنچ جائے‘ مارکیٹ میں اس کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اجارہ داری کا دائرہ معیشت سے آگے نکل کر سیاست، معاشرت اور نفسیات سمیت کئی دیگر شعبوںتک پھیل جاتا ہے۔ یہی اجارہ داری آپ کے سوچنے کے طریقوں، افکار، نظریات اور کھانے پینے کے اطوار تک کو اپنے قابو میں کر لیتی ہے‘ اس لیے سڑکوں سے اٹھو اور تعلیم و تحقیق کی طرف بڑھو! وگرنہ میرے پاس تمہارے لیے دو متضاد خبریں ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ حالات ابھی بد ترین نہیں ہوئے مگر بری خبر یہ ہے کہ ان کے اچھا ہونے کی کوئی امید بھی نظر نہیں آ رہی۔
ارادہ تو گرد و پیش کا حال احوال بیان کرنے کا تھا مگر جس طرح اس قوم کا بجٹ اور بخت آئے روز بننے والی ناقص سڑکیں کھا جاتی ہیں‘ اسی طرح آج کا کالم بھی یہ ناقص اور دلدلی سڑکیں کھا گئیں۔