سیاسی گرما گرمی‘ معاشی بد حالی اور دیگر ہلچل والی خبروں کی زد میں آکر ایک تشویش ناک خبر دب ہی گئی ہے۔ اس خبر کی تشویش کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ عالمی ادارۂ صحت اسے ایک عالمی وبا کا نام دے رہا ہے‘ یہ وبا کے لفظ سے آپ کے ذہن میں کووڈ آگیا ہو گا‘ مگر یہ وبائی مرض ایک خاموش اور دبی ہوئی تکلیف ہے۔ لوگ اس کا شکار ہو کر بھی اس کا اظہار نہیں کرتے اور یہ ہچکچاہٹ ہی اس مرض کو پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ آپ کو اندازہ ہو ہی گیا ہو گا کہ یہ ذہنی مشکلات کا مرض ہے۔ اس کو ذہنی کرب‘ ہیجان‘ تنائو جیسے نام دیے جاتے ہیں۔ عا م الفاظ میں اس کو ڈپریشن کہا جاتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ دنیا کی سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والی بیماری ہے۔ اس کی تیز رفتاری کی وجہ سے یہ دنیا کی چوتھی بڑی بیماری بن چکی ہے۔ اب اس بیماری کا علاج تو ممکن ہے‘ مگر جیسے پہلے ذکر ہوا‘ زیادہ تر لوگ اس بیماری کا شکار ہونے کے باوجود اس کا اظہار نہیں کرتے اور پھر اس کا علاج کروانے کو پاگل پن کا علاج قرار دے کر‘ علاج سے اجتناب کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اس بیماری کے متعلق بڑی سادہ سی وارننگ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس بیماری کا جتنا دیر سے علاج شروع کیا جائے گا اتنی ہی دقت پیش آئے گی۔ اس کی مثال یوں دی جاتی ہے کہ اگر کسی کو شوگر ہو جائے اور وہ فوراً علاج شروع کر دے تو صرف ایک یا دو گولیوں سے بیماری قابو میں آجائے گی‘ لیکن اگر علاج دیر سے شروع کیا جائے گا تو پھر بات سیدھی انسولین پر جاتی ہے۔
ہمارے جیسے معاشرے میں اس طرح کی بیماری کے حوالے سے کچھ دیگر پیچیدگیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے لوگ اس شک کا اظہار یقین کے ساتھ کرتے ہیں کہ ان پر کسی نے کوئی عمل مطلب جادو یا تعویذ کر دیا ہے۔اسی طرح کچھ عامل‘ جو ہر انسانی بیماری اور مشکل کے راتوں رات تدارک کا دعویٰ کرتے ہیں‘ اس ذہنی بیماری کا علاج بھی آفر کرتے ہیں تو لوگ اُن کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ اس سے بھی آگے ایک مشکل چھپی پڑی ہے اور وہ کچھ اس طرح ہے کہ یہ عامل اس مشکل میں پھنسنے والے کو نہ صرف جادو کا یقین دلاتے ہیں بلکہ کسی ایک یا دو رشتہ داروں کا نام بتا کر شک کا اظہار کر دیتے ہیں۔ اب مرض کا شکار شخص اپنا مرض چھوڑ کر اس رشتہ دار سے ایک نئی نفسیاتی جنگ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھوت پریت کا سایہ اور کسی جن کا آپ پر قابو پا لینے کا شک بھی ایک حربے کو طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ آپ خود ہوں یا آپ کی فیملی کا کوئی فرد یا پھر کوئی بھی قریبی شخص ہو۔ خدارا اس کو لے کر فوراً کسی ڈاکٹر کے پاس جائیں۔ اب اس کا علاج دو طرح کے لوگ کرتے ہیں۔ ان دونوں میں فرق واضح طور پر جان لیں۔ ایک معالج ہوتا ہے سائیکالوجسٹ‘ یہ بنیادی طور پر نفسیات کے مضمون یا یوں کہہ لیں تھیوری کا ماہر ہوتا ہے۔ آپ اس کے پاس جائیں گے تو یہ آپ کے ساتھ ایک تفصیلی نشست کر کے آپ کو اپنی زندگی کی ترتیب بدلنے اور اس کے علاوہ ذہن سے متعلق کچھ ورزشیں بتائے گا‘ جس سے آپ کو اپنی ذہنی مشکلات کو کم یا قابو کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے بعد دوسرے معالج کو سائیکاٹرسٹ کہتے ہیں‘ یہ باقائدہ ایک دوائی دینے والا ڈاکٹر ہوتا ہے۔ یہ آپ کو مشوروں کے علاوہ دوائی بھی بتائے گا۔ اس طرح یقینی طور پر یہ ڈاکٹر آپ کے جلد اور مکمل علاج کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ اس مرض کا تدارک دوائی کے ذریعے کریں۔
اس مرض کے علاج سے منسلک ایک مشکل کچھ اس طرح ہے کہ کچھ عرصہ دوائی کھانے کے بعد جیسے ہی مریض کا موڈ بہتر ہوتا ہے‘ وہ دوائی چھوڑ دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں چند دن گزرنے کے بعد اس مرض کا زیادہ شدید حملہ ہوتا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ انسان کے جسم کے دیگر اعضا کی طرح دماغ میں سے بھی کچھ مادوں کا اخراج ہوتا ہے۔ جب اس اخراج کا توازن خراب ہوتا ہے تو یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر جو ادویات دیتے ہیں وہ مادوں کے اخراج کو بیلنس کر دیتی ہیں۔ اب سوال آتا ہے کہ یہ اخراج عدم توازن کا شکار کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجوہات بے شمار ہیں‘ جیسے کسی صدمے کا سامنا ہونا‘ کاروباری نقصان ہو جانا‘ گھریلو مسائل‘ ضرورت سے زیادہ مصروفیت۔ اس کے علاوہ کچھ معاملہ خوراک سے بھی منسلک ہے۔ اس سلسلے میں ایک انتہائی اہم غذائی عنصر وٹامن بی کا خوارک میں مطلوبہ مقدار میں کھایا جانا ضروری ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ وٹامن اچھی کوالٹی کے گوشت‘ خالص دودھ اور دہی میں پایا جاتا ہے۔ اب ترتیب کچھ یوں ہے کہ شہری زندگی میں اس قسم کی خوارک کا ملنا ایک خواب کے پورا ہونے سے کم نہیں ہے۔ اس کا حل ایک وٹامن بی کی گولی ہے جو بہت ساری کمپنیوں کی بنائی مل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ وٹامن بیرونی ممالک سے ایک آرگینک‘ قدرتی خوارک سے تیا کردہ بھی کسی بھی بڑے ڈیپارٹمینٹل سٹور سے مل جاتی ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی‘ آپ اپنے جسم میں وٹامن کی مطلوبہ مقدار میں ہونے کا ایک ٹیسٹ بھی کرا سکتے ہیں۔
اس بیماری کی وجوہات کے بجائے آج صرف اس کے تدارک پر بات کرتے ہیں۔ اس کے لیے ماہرین نے کچھ قدرتی ادویات بھی تجویز کر رکھی ہیں۔ ان پر عمل کرنے سے بھی آپ اپنے دماغ کی صحت کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلی قدرتی دوا کسی کھلی جگہ مثال کے طور پر کسی بڑے پارک میں جا کروقت گزارنا ہے‘ اس میں چہل قدمی اور اگر ہو سکے تو دوڑ لگانا شامل ہے۔ طبی ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ کم از کم تیس منٹ کی تیز سیر کرنا دیگر جسم کے ساتھ ذہن کے سیل اور مسلز کو توانا رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اسی طرح کسی کھلی جگہ پر بیٹھ کر یوگا کی طرز پر کچھ مشقیں ہیں۔ اس میں کوئی لمبا عمل درکار نہیں بلکہ کرنا یہ ہوتا ہے کہ آپ آنکھیں بند کر کے لمبے سانس لیں اور جتنی دیر ہو سکے سانس کو روکنے کی مشق کریں۔ اسی طرح اسی عمل میں اپنے ذہن کو کسی بھی سوچ سے آزاد‘ مطلب ذہن کو خالی رکھنا شامل ہوتا ہے۔ اس مشق کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آج کی مصروف ترین زندگی کی وجہ سے جو ذہنی مشقت بڑھ جاتی ہے‘ یہ مشق کرنے سے دماغ کی انرجی واپس آتی ہے اور اس کی قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ طبی ماہرین یہ بات بھی مانتے ہیں کہ عبادات کو باقاعدگی سے کرنے سے بھی ذہنی سکون اور قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اب بات ایسی چیزوں کی جو خالص آپ کے اپنے ہاتھ میں ہیں۔ اگرچہ لگتا ہے کہ یہ آسان نہیں مگر ان پر عمل کرنے سے اَن گنت آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس میں سب سے پہلے ہر وقت کسی نہ کسی مصروفیت کا خود ساختہ شکار رہنا۔ اس کی مثال بہت سادہ مگر اہم ہے۔ آپ اپنے کمرے میں لگے کلاک پر نظر ڈالیں اور دیکھیں سب سے کم رفتار گھنٹے بتانے والی سوئی کی ہوتی ہے‘ اس کے بعد منٹوں والی سوئی ہے جو قدرے تیزی سے حرکت کرتی ہے۔ اب باری ہے سیکنڈوں والی سوئی کی جو واضح طور پر تیز رفتاری سے چلتی ہے۔ اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ دن کی مصروفیت کس سوئی کی مناسبت سے رکھتے ہیں۔ اب یہاں جو سب سے قابلِ غور بات ہے اور آپ کو ایک سبق بھی دیتی ہے کہ اگر آپ بلا وجہ زیادہ مصروفیت رکھیں گے تو آپ کی رفتار سیکنڈوں والی سوئی کی طرح ہو گی۔ اس لیے آپ کو اسی سوئی کی طرح چکر بھی زیادہ لگانا پڑیں گے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سیکنڈ والی سوئی آواز بھی پیدا کرتی ہے۔ آپ رات کے وقت بستر پر ہوں تو غور کیجئے گا کہ بعض اوقات اس سوئی کی آواز آپ کے سکون میں خلل بھی پیدا کرتی ہے۔ اب اگر آپ اس کلاک میں سے سیکنڈ والی سوئی نکلوا دیں تو مکمل سکون ہو جائے گا۔ تھوڑا سا سوچیں‘ اس سوئی کی تیزی ہی زندگی میں ذہنی خلل پیدا کرتی ہے‘ اس کو نکال دیں۔ باقی باتیں پھر سہی۔