ڈالر کا کھیل اور معاشی حملہ

دوسر ی عالمی جنگ کے اختتام پر ایٹمی طاقت کے مظاہرے نے گرم یا روایتی جنگوں کے تصور کو محدود کرنا شروع کر دیا، خاص طور پر جب 1949ء میں امریکا کے بعد روس نے بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی تو دو عالمی طاقتوں‘ امریکا اور سوویت یونین‘ میں گرم جنگ کا تصور ختم ہو گیا۔ حالات کے اس جبر نے جنگ کی ایک نئی شکل کو جنم دیا جسے سرد جنگ کا نام دیا گیا۔ یہ جنگ انہی دو عالمی طاقتوں کے مابین تھی۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں امریکا نے زیادہ طاقت والے اپنے مغربی بلاک کے اتحادیوں کی مدد سے سوویت یونین کو شکست دی اور یہ چودہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ سوویت یونین کے ہارنے کی وجہ عسکری بازو کا کمزور ہونا ہر گز نہیں تھی بلکہ معاشی طور پر اس کی سکت جواب دے گئی تھی۔ سرد جنگ میں شکست کے بعد روس میں اور علیحدہ ہونے والے ممالک میں سوکھی روٹی (ڈبل روٹی) حاصل کرنا بھی ایک مشکل کام تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ لوگ یہ تک فراموش کر گئے تھے کہ ان کا ملک کبھی دنیا کی دوسری بڑی طاقت تھا‘ اس ملک کے ایٹمی ہتھیار دنیا کے کسی بھی کونے کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس دوران دنیا کے دیگر پانچ ممالک ایٹمی صلاحیت کے حامل ہو چکے تھے۔ 1998ء میں پاکستان اس کلب کا رکن بطور ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا اور اس کے بعد روزِ اول سے پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہ کرنے والے بھارت نے اس ملک کو زیرِ نشانہ رکھنے کیلئے کسی بھی قسم کی گرم جنگ کے بجائے سرد یا نیم گرم جنگوں کے ذریعے اسے نقصان پہچانے کا فیصلہ کیا اور اپنا تخریبی مشن جاری رکھا۔ یاد رہے کہ یہ وہی وقت تھا جب دنیا میں پانچویں نسل کی جنگ متعارف ہو چکی تھی۔ اس جنگ کا موجد اور سب سے پہلے اس جنگ کو برپا کرنے والا ملک امریکا ہی تھا۔ یہ جنگ دنیا کے تقریباً سبھی بڑے مسلم ممالک کے خلاف شروع کی گئی تھی اور تا حال جاری و ساری ہے۔ چونکہ یہ جنگ غیر اعلانیہ ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ سافٹ پاور ذرائع سے لڑی جاتی ہے‘ اس لیے آج تک اس کو جنگ تصور ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کو سمجھنے کے لیے آپ کو تھوڑا سا غور کرنا پڑے گا کہ 1990ء میں عراق کے ذریعے کویت پر حملہ کروایا گیا۔ واضح رہے کہ امریکا نے اس وقت کے عراقی صدر صدام حسین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر وہ کویت پر قبضہ کر لے تو اس کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے عراق نے ایران کے ساتھ بھی ایک بے مقصد جنگ لڑی تھی۔
کویت پر عراق کے قبضے کے بعد امریکا نے اپنے عالمی اتحادیوں کی مدد سے اپنے سے کئی گنا کمزور ملک عراق پر پہلا حملہ کیا جس کے بعد خلیج میں ایسی بدامنی شروع ہوئی جو آج تک تھم نہیں سکی۔ آپ تمام مسلم ممالک پر ایک نظر دوڑائیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ایشیا اور افریقہ کے تقریباً اسّی فیصد سے زائد مسلم ممالک کسی نہ کسی شکل میں بدامنی اور جنگی کشمکش کا شکار ہیں۔ ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ افغانستان، بنگلہ دیش، شام، عراق، فلسطین، نائیجیریا، یمن، ایران، سعودی عرب، مصر، لیبیا، صومالیہ، سوڈان (اب دو ٹکڑے ہو چکا)، آذربائیجان، ترکیہ (جو اس وقت امریکا کے شدید دبائو میں ہے اور یہاں مارشل لاء کی کوشش بھی کی گئی)، برما (میانمار) اور بھارت کی مسلم آبادی اور انڈونیشیا جیسے ممالک نمایاں ہیں۔ انڈونیشیا کے ایک علاقے کو مشرقی تیمور کے نام سے علیحدہ ملک کا درجہ دیا جا چکا ہے۔ اسی طرح سینٹرل ایشیا کی پانچوں مسلم ریاستیں بھی ابھی تک اپنے استحکام کے لیے کوشاں ہیں۔ افغانستان سے نکلنے کے بعد امریکا نے یہاں پر اپنی موجودگی اور کنٹرول کو بڑھایا ہے۔ حال ہی میں انہی ممالک میں سے ایک کی سرزمین افغانستان پر ڈرون حملے کے لیے استعمال کی گئی۔ اب یہ ادراک ہو جانا چاہیے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے لے کر آج تک مسلم دنیا ففتھ جنریشن وار فیئر کے تحت زیرِ حملہ ہے۔ اگر اس تھیوری کو مزید واضح کرنے کے لیے شواہد چاہتے ہیں تو امریکا کے فور سٹار جرنیل ''ویسلے کلارک‘‘ کا یو ٹیوب پر موجود وہ انٹرویو سن لیں جس میں وہ کہتا ہے کہ اس کو پنٹا گون بلا کر کہا گیا کہ پانچ برسوں میں سات مسلم ممالک کی حکومتیں ختم کرنی ہیں۔ چونکہ اس کی کوئی وجہ اس کو نظر نہیں آ رہی تھی‘ وہ بتاتا ہے کہ میں یہ سب سن کر چکرا گیا اور مجھے لگا کہ امریکا کی خارجہ پالیسی میں Policy Coup ہو گیا ہے۔
اب اسی تناظر میں دوبارہ پاکستان کے حالات پر غور کریں۔ سوویت یونین کے ٹوٹتے ہی امریکا نے افغانستان میں لڑنے والے ''مجاہدین‘‘ کو پہلے مشکوک اور پھر دہشت گرد قرار دینا شروع کر دیا۔ اس سے پہلے ان مجاہدین کو ''مقدس جنگجو‘‘ (Holy Warriors) کا خطاب دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد جب امریکا میں مشہور سے زیادہ بدنامِ زمانہ نائن الیون کا حادثہ پیش آیا تو امریکی صدر کی جانب سے باضابطہ طور پر مسلمانوں کو مشکو ک قرار دیا گیا تھا۔ اسی کی آڑ میں امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا اور پھر بیس برسوں تک یہیں بیٹھا رہا۔ اس حملے کو بنیاد بنا کر افغانستان کو براہِ راست نشانہ بنایا گیا اور پاکستان پر ففتھ جنریشن وار فیئر کے تحت ایک غیر اعلانیہ جنگ کا آغاز کر دیا گیا۔ اس جنگ میں امریکا سے زیادہ بھارت پیش پیش تھا۔ بھارت نے افغانستان کے جنگ زدہ علاقوں میں متعدد قونصلیٹ کھولے‘ گویا افغانستان کوئی اعلیٰ درجے کا کاروباری ملک تھا۔ واضح رہے کہ امریکا نے افغانستان میں جو آرمی کھڑی کی تھی‘ اس کی زیادہ تر ٹریننگ بھارت میں ہوا کرتی تھی۔ یہ آرمی امریکا کے انخلا کے بعد ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور مزاحمت کا ایک جھونکا بھی برداشت نہیں کر سکی۔ اس آرمی کو سرنڈر کرنے میں جتنا کم وقت لگا اس کی توقع کسی امریکی ایجنسی کو بھی نہیں تھی۔ اس صورتحال کو امریکا نے اپنے لیے بھی شکست سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اب بھی افغانستان کو کسی نہ کسی صورت زیرِ حملہ رکھنا چاہتا ہے۔ امریکا کے بعد بھارت کی ایجنسیاں اور قونصل خانے بھی افغانستان سے دم دبا کر بھاگ نکلے۔ بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی‘ بھارت کے عسکری تجزیہ کاروں نے طالبان کے دوبارہ افغانستان پر قبضے کو کھلے الفاظ میں بھارت کی ناکامی قرار دیا تھا۔
اس ساری تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستان پر حملوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب جب یہاں دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑ دیا گیا ہے تو طریقہ واردات بدل دیا گیا ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکا اور اس کے اتحادی یوکرین پر روسی حملے کو اپنی بے بسی سمجھتے ہیں اور پاکستان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چین کی طرف جھکتا جا رہا ہے‘ سابق وزیراعظم کے تاریخی Absolutely Not کو امریکا ہضم نہیں کر پا رہا۔ بر سبیل تذکرہ بتاتا چلوں کہ ان دو الفاظ پر ایک ترک گلوکار نے گانا بھی گایا ہے۔ اب معاملہ یہاں پہنچ گیا کہ ڈالروں کی آڑ میں پاکستان پر ایک معاشی حملہ کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ ڈالر کی قدر میں اب کمی آ رہی ہے مگر اب بھی کاروباری طبقے پریشان ہیں۔ ان کے مطابق ڈالر کو واپس 175‘ 180 کی سطح پر لایا جائے اور پھر اس کو استحکام دیا جائے، ورنہ کاروبار پر مندی کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔ کرنسی کی بے قدری سے صرف امپورٹر حضرات کا ہی نقصان نہیں ہوتا بلکہ دیگر شعبے بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں عام مزدور کی روزی روٹی بھی بے یقینی کا شکار ہو جاتی ہے۔ اگر قوتِ خرید کم ہونے سے کوئی گاہک خریداری نہیں کرے گا تو مزدوروں کو بھی مزدوری نہیں ملے گی۔ یاد رہے کرنسی کے علاوہ مہنگی ہوتی بجلی اور پٹرول کی قیمتوں نے بھی معاشی شعبے کو ایک بحران سے دوچار کر رکھا ہے۔ لوگوں کی نقل حرکت میں واضح کمی آچکی ہے۔ کرنسی کی طرح پٹرول اور بجلی کے زیادہ نرخ بھی معیشت کے پہیے کو جام کردیتے ہیں۔ پاکستان میں آبی ذرائع سے ستر ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی بنائی جا سکتی ہے جس کی فی یونٹ لاگت انتہائی معمولی ہو گی مگر...
نوٹ: اگر آپ نے بھی ڈالر اس مقصد کیلئے خرید رکھا ہے کہ قیمت بڑھنے پر اسے بیچ دیں گے تو خدارا ابھی بیچ دیں‘ بصورتِ دیگر آ پ بھی ملک کے خلاف عالمی سازش کے سہولت کا ر کا کردار نبھا رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں