سہانے افسانے اور تلخ حقیقتیں

پوری دنیا اس وقت ایک معاشی گرداب اور ایک جنگی کیفیت میں بری طرح گھر چکی ہے۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق برطانیہ کے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ یورپ اور برطانیہ میں سخت قسم کی کساد بازاری شروع ہونے والی ہے، جس کا دورانیہ ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ ہو سکتا ہے۔ اس معاشی سختی کے دوران برطانیہ میں بے روزگار ہونے والوں کی تعداد ستر سے اسّی لاکھ تک ہو سکتی ہے۔ اسی ضمن میں ایک انوکھے طریقے سے معاشی مشکلات کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ صرف ایک تنخواہ پر زندہ ہیں، یعنی جن کا کمائی کا صرف ایک ذریعہ ہے‘ وہ بھی مشکلات میں مبتلا ہو جائیں گے۔ ایک خبر میں مزید یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ عنقریب برطانیہ میں پالتو جانوروں کو گھر کے فرد کے طور پر رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ مغرب کے تمام ممالک میں خاندانی نظام تقریباً ختم ہو چکا ہے‘ اسی وجہ سے ان ممالک میں ایک پالتو جانور کا رواج عرصۂ دراز سے زور پکڑ چکا ہے۔ پالتو جانور کے طور پر سب سے زیادہ کتے پالے جاتے ہیں۔ اس جانور کا انتخاب کیوں کیا جاتا ہے، آپ کو بخوبی اندازہ ہو گا کہ اس کی وجہ اس جانور کی وفا اور انسان کے ساتھ اس کا مانوس ہونا ہے۔ ویسے بھی انسانی تاریخ یہ ثابت کر چکی ہے کہ جنگل کے دور میں بھی جو جانور سب سے پہلے انسان کے ساتھ مانوس ہوا تھا‘ وہ کتا ہی تھا۔ اس وقت محض برطانیہ میں پالتو جانوروں کی کل تعداد 34 ملین یعنی تین کروڑ چالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ برطانیہ کی کل آبادی اس سے تقریباً دگنی یعنی چھ کروڑ ستر لاکھ ہے۔ اس حساب سے ہر گھر میں ایک یا ایک سے زائد پالتو جانور ضرور موجود ہوں گے۔ اب یہاں ہم ایک عجیب اور تلخ حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں‘ وہ یہ کہ اگر ان پالتو جانوروں کے بجائے لوگ غریب اور ضرورت مند افراد کی خوراک اور دیگر ضروریات کا خیال رکھیں تو برطانیہ میں معاشی مشکلات کا شکار ہونے والے لوگوں کی ضروریات بخوبی پوری ہو سکتی ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہوا کہ برطانیہ میں مہنگائی کی وجہ سے بے روزگار ہونے والوں کی تعداد ستر لاکھ کے قریب ہو سکتی ہے تو میرا خیال ہے کہ ایسا ہو گا نہیں کیونکہ اس صورت میں ان لوگوں کو پالتو جانوروں کا رواج بھی ترک کرنا ہو گا جو بہت مشکل امر ہے کہ کیونکہ یہ جانور ہی ان کے تنہائی کے ساتھی ہیں۔
اب یہ ایک عجیب بات اور بحث بن چکی ہے اور اکثر یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ کیا کوئی ایک فرد آپ کی زندگی کا حصہ اس صورت اور اس طرز پر ہو سکتا ہے کہ وہ ہمہ وقت آپ کے گھر پر موجود رہے، آپ کی ساتھ غیر مشروط قسم کی محبت اور چاہت کا اظہار کرے، آپ کے آواز دینے پر آپ کی طرف دوڑا چلا آئے اور آپ کا دل لبھانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ اس سب کچھ کے عوض آپ اس کی تمام بنیادی ضروریات جیسے خوراک، رہنے کی جگہ وغیرہ کا خیال رکھیں۔ ان ضروریات میں یقینا لباس کو بھی شامل کرنا پڑے گا۔ اس کے برعکس جانور نہ صرف مذکورہ بالا تمام خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں بلکہ انہیں لباس کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اب اس تعلق کا مزید پہلوئوں سے جائزہ لیتے ہیں کہ انسانوں میں ایسا کیوں نہیں ہو پاتا۔ اگر کوئی مرد اکیلا گھر میں رہ رہا ہے تو وہ کسی ضرورت مند عورت کو شادی کرکے اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے‘ یہاں تک تو بات کافی سادہ معلوم ہوتی ہے مگر ایسا ہوتا نہیں۔ اب اس کی وجہ یا وجوہات جاننے کی کوشش کریں تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انسان کے اپنے شریکِ حیات سے تقاضے، ضروریات اور توقعات ہمیشہ بڑھتی جاتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر انسان ایک دوسرے سے زندگی میں برابری کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جب کوئی پالتو جانور رکھا جاتا ہے وہ اپنے مالک سے سوائے بنیادی ضروریات بلکہ صرف خوراک کے علاوہ کسی اور چیز کا تقاضا نہیں کرتا اور تمام زندگی اپنے مالک کے لیے وقف کر دیتا ہے بلکہ وقت آنے پر اپنی جان تک قربان کر دیتا ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ساتھ نبھانے کے لیے قربانی دینا پڑتی ہے جو اب انسانوں کے بس کی بات نہیں رہی۔
جب ہم تاریخ کا سرسری جائزہ لیتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ شروع میں انسان کی بنیادی ضروریات صرف چند ایک ہی ہوا کرتی تھیں۔ اس کے بعد ان میں سہولتیں داخل ہو گئیں، اسی طرح گزرتے وقت کے ساتھ ان میں تعیشات بھی داخل ہو گئیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی‘ جیسے جیسے وقت گزرا‘ وہ چیزیں جو پہلے تعیشات کہلاتی تھیں‘ سہولتیں بن گئیں اور جو چیز سہولت کا درجہ رکھتی تھی‘ وہ بنیادی ضرورت بن کر انسان کے لیے ناگزیر ہو گئی۔ اس تدریجی عمل نے انسانی زندگی کو جہاںترقی یافتہ بنایا‘ وہیں زندگی کو مشکل سے مشکل تر بھی بنا دیا۔ اس کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلی مثال موبائل فون کی لیتے ہیں، جب یہ نیا نیا متعارف کرایا گیا تو انسانی زندگی میں اس کی حیثیت ایک پُر تعیش آلے کی تھی اور ابتدائی دور میں یہ معاشرے میں ایک سٹیٹس سمبل بھی سمجھا جاتا تھا۔ پھر اس کی قیمت میں کمی آنے لگی اور یہ بیشتر لوگوں کی زندگی کا حصہ بن گیا اور اس کا درجہ تعیش سے سہولت کا ہو گیا۔ اس کے بعد‘ آج کے دور میں یہ اتنا ناگزیر ہو چکا ہے کہ ہر شخص کی زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے اور اب بنیادی ضروریات میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج شاید ہی کوئی شخص ہو جو موبائل فون کے بغیر گھر سے باہر نکلتا ہو‘ محض دو‘ تین دہائیاں قبل تک ایسا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ یہی صورت حال دیگر بہت سی چیزوں مثلاً ایئر کنڈیشنر، گاڑی، ٹی وی اور انٹر نیٹ وغیرہ کی ہے۔ ان حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر آپ کہہ سکتے ہیں کہ پہلے انسانی زندگی میں چار سے پانچ چیزیں لازمے کی حیثیت رکھتی تھیں‘ جو اب بڑھ کر بارہ سے پندرہ ہو چکی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر ان چیزوں میں سے کسی ایک کی سپلائی بند ہو جائے تو انسانی زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس پہلو کو ایک اور طریقے سے بھی سمجھتے ہیں۔ تصور کریں کہ شدید گرمی کا موسم ہے اور ایک عمارت میں کچھ لوگ ایئر کنڈیشنر والے کمرے میں بیٹھے ہیں، کچھ لوگ ایئر کولر والے کمرے میں موجود ہیں اور کچھ لوگ صرف پنکھا چلا کر بیٹھے ہیں۔ اب اچانک بجلی بند ہو جاتی ہے۔ اس پر ان تینوں گروپوں کا رد عمل کیسا ہو گا؟ یقینا ان سب کا ردعمل مختلف ہو گا اور لازمی بات ہے کہ سب سے زیادہ تکلیف ایئر کنڈیشنر والے گروپ کو ہو گی۔ اگر اسی مثال میں ہم ایک اور گروپ کو شامل کر لیں جو کسی درخت کی چھائوں کے نیچے بیٹھا ہے تو ان لوگوں کی طبیعت اور مزاج پر بجلی کے جانے کا یکسر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وہ تو اس بات سے ہی انجان ہوں گے کہ بجلی بند ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ موسم کی شدت کو جھیلنے والے افراد کی قوتِ مدافعت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ یہ لوگ موسمیاتی سختی کے عادی ہوتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں کھلے آسمان تلے چلنے پھرنے کی وجہ سے ان کا پسینہ بہتا رہتا ہے اور یہ بہتا پسینہ انسانی صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے۔
اس وقت شہروں میں بہ سہولت جبکہ دیہات میں سادہ زندگی گزاری جا رہی ہے۔ دیہات میں آباد لوگوں کے دن کا زیادہ دورانیہ کھلی آب و ہوا میں گزرتا ہے۔ یہ سادہ مگر خالص خوراک کھاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ان لوگوں کی زندگی کا یہ وصف ہوتا ہے کہ یہ شہر کے لوگوں کی طرح صرف ان لوگوں سے نہیں ملتے جن کے ساتھ کوئی کام یا غرض ہو۔ آپ دیہات میں کسی کو ملنے چلے جائیں تو وہ ہر گز یہ نہیں کہیں گے کہ آپ بغیر بتائے چلے آئے۔ آپ جتنی دیر یا جتنے دن بھی ان کے ہاں قیام کریں‘ یہ آپ سے تنگ نہیں پڑیں گے جبکہ شہروں میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ لوگوں کے کام کا حرج ہوتا ہے۔ دیہات میں لوگوں کی زندگی میں اپنے بزرگوں کی حیثیت ایک لازمی عنصر جیسی ہوتی ہے اور یہ اکیلا ہونے کو آزادی کے بجائے ایک سزا سمجھتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرتے نہ ہی زیادہ مطالبات کرتے ہیں۔ پالتو جانوروں کے باوجود ان کی زندگی میں جانور وہ حیثیت نہیں رکھتے جو حیثیت اور مقام مغربی معاشروں میں پالتو جانور رکھتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ آپ زندگی میں ترقی کے نام پر جتنی مرضی دوڑ لگائیں مگر جب انسانی رشتوں کی جگہ کتے اور بلیاں لینے لگیں تو سمجھ جائیں کہ یہ سماجی ترقی کا نہیں‘ تباہی کا راستہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں