جغرافیہ کا انتقام۔ کثرت یا قلت

جغرافیہ کا مضمون ایک ایسا میدان ہے جس میں موسم‘ زمینی خدوخال‘ قدرتی ماحول‘ بحر و بر کی تقسیم کا مطالعہ کچھ اس طرح کیا جاتا ہے کہ ان سب کا انسان کی زندگی کے تمام پہلوئوں جیسا کہ معیشت‘ سیاست‘ آبادی‘ وسائل اور نفسیات پر کیا اثر ہوتا ہے اور انسان ان تمام قدرتی عوامل پر کیا اثر چھوڑتا ہے۔ اس کو کچھ یوں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ کیا انسان قدرتی ماحول کے تابع ہے یا پھر انسان اس ماحول پر قدرت پا چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے علم اور ٹیکنالوجی کی بدولت نہ صرف قدرتی عوامل پر قابو پا چکا ہے بلکہ ایسی ایجادات کر چکا ہے کہ وہ قدرتی طور پر ایک شدید گرم یا پھر شدید سرد علاقے میں ایک مشین کی مدد سے اپنے کمرے کا درجہ حرارت اپنی مرضی کے مطابق رکھ سکتا ہے لیکن اب وہ دور آچکا ہے کہ انسان ترقی کے نام‘ اپنی ایجاد کردہ چیزوں اور قدرت کے پیدا کردہ توازن کو اس قدر خراب کر چکا ہے کہ قدرتی ماحول کی خرابی اور آلودگی کی وجہ سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ آپ نے اکثر ''موسمیاتی تبدیلیوں‘‘ کا ذکر سنا ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تبدیلیاں نہیں بلکہ ''تباہیاں‘‘ ہیں۔ اسی طرح ''گلوبل وارمنگ‘‘ کے الفاظ بھی اکثر آپ کی سماعتوں سے ٹکرائے ہوں گے جبکہ صرف گرمی ہی نہیں بلکہ سردی بھی بڑھ رہی ہے جس کو ''گلوبل کولنگ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا زیادہ تذکرہ نہیں ہوتا۔
گلوبل وارمنگ یا بڑھتی ہوئی گرمی نے اس وقت دنیا کو شمالی کرۂ ارض میں‘ اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اسی طرح جنوبی ایشیا کے زیادہ تر حصے سیلاب کی آفت کا سامنا کر رہے ہیں۔ سیلاب بارشوں کی کثرت جبکہ بڑھتی ہوئی گرمی یا Heat Waves‘ بارشوں کی قلت سے سامنے آتی ہیں۔ گرمی کی لہر بھی اب ایک عالمی آفت بن چکی ہے‘ اس وقت یورپ جیسا براعظم بھی اس کا سامنا کر رہا ہے۔ اس ضمن میں فرانس سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔ اس کے دارالحکومت پیرس میں تو پانی کی سپلائی پر باقاعدہ راشن بندی کے طرز پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ آپ تھوڑا غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ یورپ کا نام آتے ہی ایک ٹھنڈے علاقے کا تصور سامنے آتا ہے لیکن اس موسم گرما میں اس کے بہت سارے علاقوں نے بھی گرمی کی شدید لہر کا سامنا کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک انتہائی حیران کن خبر یہ ہے کہ یورپ کے پہاڑی سلسلے ایلپس میں تو گلیشیرز کو پگھلنے سے بچانے کے لیے ان کو ایک مخصوص قسم کے کپڑے سے باقاعدہ ڈھانپ دیا گیا ہے۔ اب پاکستان اور بھارت کے علاقوں میں بارشوں کی وجہ سے سیلاب کی صورتحال تو آپ کے سامنے ہی ہے۔ پاکستان کے حوالے سے ایک انتہائی انوکھی و المناک بات یہ ہے کہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ڈیمز بنانے کی مخالفت کی جاتی ہے۔ کالا باغ ڈیم اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس تناظر میں عرض کرتے چلیں کہ اگر یہ ڈیم بنا لیا جائے تو پاکستان میں سیلاب سے نمٹنے کے حوالے سے نمایاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مزید عرض یہ ہے کہ جتنی تباہی سیلاب مچاتے ہیں‘ فرض کریں اگر کالا باغ ڈیم بنا ہو اور وہ ٹوٹ بھی جائے (جو کہ من گھڑت جواز ہے) تو اتنی تباہی نہیں ہو گی جتنی موجودہ سیلاب نے پھیلائی ہے۔
اب آپ کو چین لیے چلتے ہیں جہاں گرمی کی لہر نے اس کے متعدد علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ بات بہت آگے بڑھ چکی ہے‘ وہ اس طرح کہ اس کاسب سے بڑا دریا ''ینگ زی کیانگ‘‘ خشک ہونا شروع ہو چکا ہے۔ اس دریا کی لمبائی 6300 کلومیٹر کے قریب ہے۔ کسی ایک ہی ملک میں بہنے والے دریاؤں کی فہرست میں یہ ایشیا کا پہلا اور دنیا کا تیسرا سب سے لمبا دریا ہے۔ یہ دریا تبت کے علاقے سے شروع ہو کر چین کے مشرقی ساحل تک جاتا ہے اور چین کے مشرقی سمندر میں گرتا ہے۔ مزید یاد رہے کہ دنیا کا سب سے بڑا ڈیم‘ تھری گارجز‘ بھی اسی دریا پر واقع ہے۔ اب آپ تصور کریں کہ اتنے بڑے دریا کے متعدد حصوں میں پانی ختم ہو رہا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ چین کی حکومت اس دریا کی روانی برقرار رکھنے اور اس کے پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مصنوعی بارشیں بھی کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ چین کے پاس مصنوعی بارش برسانے والا دنیا کا سب سے بڑا سسٹم موجود ہے۔ اس دریا میں پانی کی کمی کی وجہ سے چین جیسے ملک کو بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس موقع پر چین کی حکومت نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ایئر کنڈیشنر کو کسی بھی صورت 26ڈگری سے کم پر نہ چلائیں۔ اس کے علاوہ گرمی کی لہر کا یہ عالم ہے کہ چین کے صوبے Zhejiang میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے جبکہ ماضی میں یہ درجہ حرارت کسی صورت 30ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ نہیں ہوتا تھا۔
چین سمیت دنیا کے وہ تمام ممالک جہاں کی حکومتیں باشعور ہیں‘ وہاں مختلف اقسام کے اقدامات کرکے گرمی کی لہر سے بچنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ سب سے پہلے لوگوں کو یہ شعور دیا جا رہا ہے کہ گھر کے بیرونی حصوں پر سفید رنگ کا پینٹ کریں۔ شہروں کے اندر سے گزرنے والے دریائوں پر سے انہیں کور کرنے والے مٹیریل کو گرمیوں کے لیے ہٹایا جارہا ہے۔ ارے آپ تو قدرے حیران ہو گئے ہوں گے‘ شاید پریشان بھی۔ بھئی قصہ کچھ یوں ہے کہ جغرافیہ کا شعور رکھنے والے ممالک اپنے دریائوں اور نہروں کے اوپر کوئی چھت نما مٹیرل ڈال دیتے ہیں تاکہ ان کا پانی بخارات بن کر فضا میں نہ اڑ جائے۔ لیکن اب گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیے ان دریائوں اور نہروں کے اوپر سے یہ کور ہٹایا جا رہا ہے۔ فرانس اور جنوبی کوریا نے یہ اقدامات کیے ہیں۔ اس کے علاوہ شہروں کے اندر ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کا داخلہ بند کر دیا گیا ہے۔ شہروں کے اندر زیادہ سے زیادہ سبزہ اگایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں عمارتوں کی چھتوں پر کم ترین گہری جڑوں والے پودے اور بیلیں لگائی جا رہی ہیں۔
یہاں بڑھتی آبادی کے عفریت کے حوالے سے گزارش ہے کہ چین نے آبادی پر قابو پانے کے لیے دنیا کا سب سے سخت قانون ''ایک جوڑا ایک بچہ‘‘ 1979ء میں لاگو کیا تھا۔ اس قانون کی بدولت چین نے اپنی آبادی میں 45کروڑ کے اضافے کو روکا ہے۔ یعنی اگر چین یہ نہ کرتا تو اس وقت اس کی آبادی میں مزید پنتالیس کروڑ کا اضافہ ہو چکا ہوتا۔ اسی لیے اگلے سال بھارت چین کو پیچھے چھوڑتے کرتے ہوئے آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ یاد رہے کہ آبادی میں سالانہ اضافے کے اعتبار سے پاکستان چین پر سبقت لیتے ہوئے دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ اس لیے ماہرین کہتے ہیں کہ جغرافیہ کے جبر اور بدلے (Revenge of Geography) کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے دو ملک بھارت اور پاکستان ہیں۔ بھارت کی آبادی میں میں سالانہ ایک کروڑ ستر لاکھ جبکہ پاکستان کی آبادی میں پچپن لاکھ کا اضافہ ہوتا ہے۔ اور چین جیسے بڑے ملک کی آبادی میں سالانہ 45سے 48لاکھ کا اضافہ ہوتا ہے۔
اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ''کثرت اور قلت‘‘ دونوں ہی بحران پیدا کرتے ہیں۔ اس وقت بارشوں کی کثرت سیلاب پیدا کر رہی ہے جبکہ اس کی قلت گرمی کی لہر پیدا کرنے کی بنیادی وجہ ہے۔ مجموعی طور پر دنیا کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہی ماحولیاتی و موسمیاتی تباہیوں کا سبب ہے۔ یاد رہے کہ اس سال کے آخر تک دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہو جائے گی۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ قدرتی ماحول اور اس کے وسائل کے بے رحم انسانی استعمال نے یہ حالات پیدا کیے ہیں۔ اس لیے اب دنیا قدرتی ماحول کی بقا کو خطرے میں دیکھ رہی ہے۔ اس لیے اب انسان کو ماحول کی پرورش اور پروٹیکشن کرنا ہو گی ورنہ جغرافیہ کا انتقام شروع ہو چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں