Earth Overshoot Dayکیا ہے؟

28جولائی کو ایک خبر‘ دیگر خبروں میں کہیں چھپ کر رہ گئی مگر وہ خبر انتہائی اہم تھی۔ بات کچھ یوں ہے کہ 1970ء کی دہائی سے دنیا نے ترقی کے نام پر تباہی کی مد میں ایک حد کو عبور کرتے ہوئے ''اوور شوٹ‘‘ نامی ایک آفت کی وادی میں قدم رکھا۔ سال 1971ء میں پہلی دفعہ دسمبر کے مہینے میں عالمی اداروں نے بتایا کہ قدرتی ماحول ''Eco System‘‘ انسان کی خوراک کے لیے جتنا بھی ایک سال میں پیدا کر سکتا ہے وہ انسان نے استعمال کر لیا ہے‘ یا کھا پی لیا ہے۔ انسان نے یہ حد دسمبر کے آخری عشرے میں کراس کی تھی‘ مطلب سال ختم ہونے سے صرف چند دن پہلے۔ لیکن اس سال 2022ء میں یہ حد جولائی کے مہینے میں ہی پوری ہو گئی‘ مطلب سال ختم ہونے سے پانچ مہینے پہلے۔ اسی لیے اس سال ماہرین نے خبر دار کرتے ہوئے آگاہ کیا ہے کہ اس وقت دنیا کی آبادی جتنی ہو چکی ہے اور اس کی غذائی ضروریات جتنی ہو چکی ہیں اس کے لیے اب دنیا کو ایک اور زمین کی ضرورت پڑ چکی ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ کرۂ ارض جسے ہم زمین کہتے ہیں‘ اب اتنی آبادی کے لیے انتہائی ناکافی ہو چکی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب ماہرین کے تخمینے کے مطابق موجودہ دنیا کی کل آبادی کے لیے 1.75 زمینوں کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ کل زمین کے حساب سے ایک تین چوتھائی سائز کی ایک اور زمین کی ضرورت ہے۔ ارے صاحب اگر آپ کو بات سمجھ نہیں آرہی تو یوں کہہ لیں کہ اس وقت زمین پر جو کل آبادی موجود ہے وہ زمین کی سکت یا گنجائش سے تقریباً ڈبل ہونے والی ہے‘ اس کو زمین کی ''CARRYING CAPCAITY‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس بات کو مزید سادہ الفاظ میں بیان کریں تو زمین کو اگر ایک سومسافروں والی بس تصور کر لیا جائے تو صورت حال یہ ہے کہ اس میں ایک سو 75لوگ سوار ہیں۔ اس لیے ایک اور بس کی ضرورت ہے جس میں پچھتر لوگوں کے سوار ہونے کی گنجائش ہو۔ لیکن ایک بات مزید ذہن میں رکھیں کہ دنیا کی آبادی‘ سوائے مغربی دنیا کے‘ اب بھی بڑھ رہی ہے‘ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک اور بالخصوص مسلم دنیا کی آبادی‘ جو باقی تمام دنیا سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
اب آپ سوچ رہیں ہوں گے کہ اگر اعداد و شمار اتنے زیادہ خطرناک ہو چکے ہیں تو دنیا میں تو قحط کی صورتحال ہونی چاہیے تھی جو کہ نہیں ہے تو گزارش یہ ہے کہ جو خوراک دنیا کھا رہی ہے وہ نیم قدرتی ہے۔ بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دنیا مصنوعی غذا کے سہارے زندہ ہے۔ اس کی مثالیں بہت واضح ہیں۔ پولٹری فارمز میں پیدا ہونے والی اور پرورش پانی والی مرغیاں اس کی ایک بہت بڑی مثال ہیں۔ یہ مرغیاں تقریباً چودہ ہفتوں میں مکمل جوان ہو جاتی ہیں۔ اب آپ تصور کریں کہ قدرت کے سہارے یا قدرتی طور پر پلنے والی مرغی‘ یعنی دیسی مرغی‘ چودہ ہفتوں میں کتنی پرورش پاتی ہے۔ اگر آپ تھوڑا غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ دیسی چوزہ تو اتنے ہفتوں میں ابھی چوزہ ہی رہتا ہے۔ اس دیسی چوزے کا گوشت کھانے کے لیے کم از کم ایک سال یعنی 52ہفتے انتظار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اب تو بات واضح ہو گئی کہ صرف 14ہفتوں میں مکمل جوان ہونے والی مرغی کسی طور بھی قدرتی نہیں کہلوا سکتی۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس برائلر مرغی کو دی جانے والی خوارک بھی ہوتی ہے۔ اس مصنوعی خوراک کے علاوہ اس چوزے کو مخصوص قسم کی ویکسین بھی لگائی جاتی ہے تب جاکر یہ زندہ رہ پاتا ہے۔ باقی چھوڑیں آپ خود بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس برائلر گوشت اور انڈے کا دیسی گوشت اور انڈے سے کوئی بھی مقابلہ یا موازنہ ہی نہیں بنتا لیکن دنیا ترقی میں اتنی مگن ہے کہ اس تباہی کا ذرا برابر بھی ادراک نہیں۔
اگر آپ کو برائلر گوشت اور انڈوں سے بات سمجھ میں نہیں آئی تو آپ کو ایک اور طرف لیے چلتے ہیں‘ جس کا براہِ راست تعلق مٹی مطلب زمین سے ہے۔ یقینا اس سے بات آپ کو مکمل طور پر سمجھ میں آجائے گی۔ آپ زراعت سے متعلق جو خبریں سنتے ہیں ان میں سے ایک اہم خبر کھادوں کی سپلائی‘ قیمت اور سب سے بڑھ کر عدم دستیابی کے متعلق ہوتی ہے۔ اب یہ قصہ کچھ یوں ہے کہ اگر آپ زمین میں یہ مصنوعی کھادیں نہ ڈالیں تو پیداوار آدھی ہی ہوگی۔ اب یہ کھادیں اس لیے استعمال کرنا ضروری ہو چکا ہے کہ ایک تو زمین کی قدرتی پیداواری سکت انتہائی کم ہو چکی ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھیں کہ زرعی اصولوں کے تحت ایک فصل یا چند فصلیں حاصل کرنے کے بعد زمین کو کچھ عرصے کے لیے خالی چھوڑنا ضروری ہوتا ہے۔ خالی سے مراد یہ ہے کہ کم از کم ایک سال کا وقفہ کچھ یوں دیا جائے کے زمین میں کچھ بھی کاشت نہ کیا جائے تاکہ اس دوران زمین اپنے اندر پیداواری نمکیات‘ جو فصل پیدا کرتے ہیں‘ کی کمی کو بحال کر سکے لیکن ہمارے جیسے ملکوں میں غربت اتنی زیادہ ہے کہ ہمارے کسان ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہاں گزارش کرتا چلوں کہ امریکہ اور کینیڈا دنیا کے دو ایسے ممالک ہیں جہاں زمینوں کو کچھ عرصے کے لیے خالی چھوڑا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان ممالک میں آبادی کے مقابلے میں زرعی زمین کہیں زیادہ ہونا ہے۔ آپ صرف چین اور امریکہ کا مقابلہ و موازنہ آبادی اور رقبے کے اعتبار سے کریں تو دونوں ممالک کا رقبہ نوے لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے‘ مزید یہ کہ امریکہ کا رقبہ چین کے مقابلے میں تقریباً چار لاکھ مربع کلومیٹر کم ہے لیکن آبادی کے اعتبار سے چین امریکہ سے تین گنا بڑا ہے‘ مطلب امریکہ جتنی آبادی والے چار ممالک ہوں تو ایک چین بنتا ہے۔ اب اسی تناسب سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امریکہ نہ صرف زمین کو خالی چھوڑتا ہے بلکہ بہت ساری گندم ایسی بھی پیدا کرتا ہے جس کی پیداوار میں ہرگز مصنوعی کھاد استعما ل نہیں ہوتی۔ اس گندم کو Organic کہا جاتا ہے اور اسی طرز پر پیدا ہونے والی مرغیوں اور ان کے انڈوں کو بھی یہی نام دیا جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین اور امریکہ دو عالمی مقابل طاقتیں ہیں لیکن زرعی زمین اور غذا کے حوالے سے امریکہ کو برتری حاصل ہے۔
اب آپ Earth Overshoot Dayکو مزید اس طرح بھی جان سکتے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ گھروں میں صرف دیسی یا قدرتی گھی اور مکھن استعمال ہوا کرتا تھا لیکن پھر مصنوعی کھادوں کے ساتھ ڈالڈا گھی لوگوں کی زندگی میں آگیا۔ یہ سب 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں ہی آیا تھا۔ اس غذائی بحران کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے آپ آج کے دور یعنی اپنی روز مرہ زندگی سے بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ آپ آئے روز بیمار اور مردہ مرغیوں اور جانوروں کے گوشت کی خبریں تو سنتے ہی ہوں گے لیکن اس کے علاوہ ہم اپنی روز کے غذائی معاملات میں اتنے غافل یا مجبور ہو چکے ہیں کہ ہم ڈبوں میں بند دودھ کے نام پر ایسا سفید مائع خرید اور پی رہے ہیں جو مکمل طور پر مصنوعی ہے۔ مطلب اس سفید رنگ کے دودھ نما پراڈکٹ میں پانی کے اندر کچھ چکنائی‘ خشک دودھ یا رنگ اور دیگر کیمیکلز اس مہارت سے ڈالے جاتے ہیں کہ اس کا ذائقہ بھی اصل دودھ جیسا ہی ہوتا ہے۔ یہ ڈبوں والا دودھ آپ چاہے چلچلاتی دھوپ میں کئی دن تک رکھ چھوڑیں‘ لیکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کی یہ دودھ پھٹ جائے‘ یعنی خراب ہو جائے۔ اب بھی اگر آپ کو سمجھ نہ آئے تو یہ ضرور سوچیے گا کہ اپنے قیام کے وقت ہماری کل آبادی صرف سوا تین کروڑ تھی جو اب 23 کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ زمین کا سائز وہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ غذا کو چھوڑ کر اب تو پانی کا Overshoot Day پتہ نہیں کب کا گزر چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں