بڑے دھوکے

گزشتہ کالم میں ایک انوکھے اور نا قابلِ یقین سلسلے کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ یہ سلسلہ تھا دنیا کے بڑے بڑے دھوکوں کا‘ جو اب تک دیے گئے اور جو مسلسل دیے جا رہے ہیں۔ آج جن دھوکوں کا ذکر کیا جا رہا ہے‘ ان کا تعلق پاکستان اور مسلم دنیا سے ہے۔پہلے ذکر کرتے ہیں مسلم دنیا کو بحیثیت مجموعی ملنے والے ایک عالمی نوعیت کے دھوکے کا‘ جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔اگرچہ بات بہت واضح اور سادہ ہے مگر بہت سے طبقات جان بوجھ کر اسے نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ سوویت یونین کے ٹوٹتے ہی امریکہ نے مسلم دنیا کو ایک غیر اعلانیہ جنگ کے تحت زیرِ حملہ رکھ لیا تھا۔ حالانکہ سرد جنگ میں تقریباً پوری مسلم دنیا نے امریکہ کا ساتھ دیا تھا اور کھل کر ساتھ دیا تھا۔ اب امریکہ نے مسلم دنیا کو زیرِ عتاب کیا ہوا ہے تو اس نے یہ اپنے مقاصد کے لیے کیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ مقامی و عالمی سطح پر اس کا تذکرہ کیوں نہیں کیا جاتا۔ ممکن ہے آپ سوچیں کہ عالمی ذرائع ابلاغ کے علاوہ کچھ دانشور بھی اپنی مرضی اور مطلب کا سچ بولتے ہیں شاید اسی وجہ سے اس ایشو پر مکمل سکوت طاری ہے مگر سوال یہ ہے کہ مسلم دنیا کے پچاس سے زیادہ ممالک کے لوگ کیوں خاموش ہیں۔ آپ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کے سربراہان کے بیانات اور خطابات کی فہرست نکال لیں، آپ کو مایوسی ہو گی۔ ان کے ہاں بھی اس کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہی ملے گا۔
مسلمانوں پر مسلط جنگی صورت حال کا جائزہ لیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ یہ سلسلہ 1990ء میں شروع ہوا تھا اور آج اس کو 32سال ہو چلے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے لیے ایک نہیں بلکہ کئی اصطلاحات وضع کی جاتیں، جس دن عراق پر باقاعدہ حملہ کیا گیا تھا‘ اس دن کی مناسبت سے کوئی سالانہ دن احتجاج کے طور پر منایا جاتا لیکن ایسا کوئی خیال بھی دور دور تک نہیں ملتا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے آپ نازی جرمن کی طرف سے یہودیوں کی نسل کشی کی مثال لیں جس کے لیے ''ہولو کاسٹ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور اس کو اس قدر یقین اور تواتر کے استعمال کیا جاتا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں اس حوالے سے بات کرنا بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ تاریخی واقعات ہمیشہ سے محققین کے لیے کھلا میدان رہے ہیں‘ وہ تاریخی شواہد اور حقائق و واقعات سے ان واقعات کی حقانیت کو ثابت کرنے یا اس کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہولو کاسٹ کے حوالے سے یہ گنجائش بھی نہیں رکھی گئی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس نسل کشی میں مارے جانے والے یہودیوں کی جو تعدادیہودی خود بیان اور خیال کرتے ہیں‘ اس کو اتنا ہی مانا اور گردانا جاتا ہے؛ یعنی ساٹھ لاکھ۔ یہ الگ معاملہ ہے کہ آج تک اس تعداد کو کسی پیمانے پر ثابت نہیں کیا جا سکا مگر اس حوالے سے کسی کو لب کشائی کی اجازت بھی نہیں ہے۔ اگلی بات بہت سے افراد کے لیے ایک انکشاف سے کم نہیں ہوگی کہ کوئی بھی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ ہٹلر نے یہودیوں کو کیوں مارا تھا ؟ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہٹلر اس بات سے خائف تھا کہ یہودی جرمنی کی معیشت کو اپنے ہاتھوں میں یرغمال بنا کر نہ رکھیں۔ سب سے پہلے ہٹلر نے جس یہودی کو مارا تھا وہ اس کا اپنا وزیر خزانہ تھا۔ جس سے متعلق اس کو یہ شک بلکہ یقین تھا کہ وہ یہودیوں کو کابینہ کے خفیہ فیصلوں سے آگاہ کرتا ہے۔ خاص طور جب ہٹلر نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ جرمن کرنسی کی قدر کو کم کرے گا تو وزیر خزانہ نے یہ بات اپنے لوگوں کو بتا دی جنہوں نے جرمن کرنسی کو تبدیل کرانا شروع کر دیا۔ ہٹلر نے یہ بات محض اپنے وزیر کا امتحان لینے کے لیے اسے بتائی تھی۔ ایک سرکاری راز‘ جو صرف ہٹلر اور اس کے وزیر خزانہ تک محدود تھا‘ کی اطلاع لوگوں تک پہنچنے یعنی راز فاش ہونے پر یہ نسل کشی شروع ہوئی تھی۔ اب آپ خود بتائیں کہ کتنی دفعہ آپ نے یہ واقعات پڑھے یا سنے ہیں۔ کیا کبھی تصویر کا یہ رخ آپ تک پہنچا ہے؟
واپس آتے ہیں مسلم دنیا کی طرف۔ گزشتہ تین دہائیوں پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ عراق پر امریکی حملے (1991ء)سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ بعد میں افغانستان، (دوبارہ عراق2003ء) شام اور لیبیا پر براہِ راست امریکی حملوں کے علاوہ مصر، نائیجیریا، صومالیہ، میانمار، فلسطین، مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے لوگوں پر مزید سختی کی صورت میں جاری رہا۔ یمن کا سعودی عرب سے تنازع ہو یا ایران پر تا حال جاری اور نئی عائد کی جانے والی پابندیاں، مشرقِ وسطیٰ پر اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے اور دبائو سمیت فلسطین اور مصر میں اپنی مرضی کی حکومتیں ختم کرنے کے علاوہ ترکی (ترکیہ) میں مارشل لاء کی ناکام کوشش اور موجودہ حکومت پر مختلف طرح کی سختیاں۔یہ سارے واقعات امریکہ کے مسلم دنیا کو زیرِ حملہ رکھنے کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سارے قصے اور صدمے‘ اپنی جگہ موجود ہیں۔ سب سے سخت اور کشیدہ صورت حال افغانستان میں تھی جہاں امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ بیس سال تک بر اجمان رہا۔ یہیں سے بھارت کے ذریعے پانچویں نسل کی جنگ کے تحت پاکستان پر حملے کیے گئے جو اب بھی جاری ہیں۔ اس جنگی، پُر تشدد، باہم تفریق کی صورتحال اور مسلح گروہوں کو کھڑا کر کے شورش برپا کرنے کی سازشوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس کے باوجود دنیا میں دہشت گردی کا لیبل بھی مسلمانوں ہی پر لگایاجاتا ہے‘ یعنی دہشت گردی کا شکار بھی مسلمان اور اس کا الزام بھی مسلمانوں پر۔ اس کے علاوہ مذہبی حوالوں سے جتنی مذموم کوششیں ان تین دہائیوں میں ہوئی ہیں ‘لگ بھگ وہ سبھی محض اسلام کے خلاف ہوئی ہیں۔ امریکہ کے فور سٹار ریٹائرڈ جنرل ویسلے کلارک کے بیان کا پہلے بھی تذکرہ ہو چکا ہے جس میں وہ برملا اعتراف کرتا ہے کہ اس کو پنٹاگون میں بلا کر یہ کہا گیا تھا کہ اس سے پہلے کہ (سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد)کوئی اور طاقت ہمارے سامنے ابھرے‘ ہمیں پانچ سالوں کے اندر سات مسلمان ملکوں کی حکومتوں کو ختم کرنا ہے۔ جنرل کلارک کہتا ہے کہ اس فیصلے کو سننے کے بعد مجھے یو ںلگا جیسے امریکہ میں کوئی ''پالیسی بغاوت‘‘ (Policy coup) ہو گئی ہے۔ اب تو آپ کو ادراک ہو جاناچاہیے کہ دنیا کا ایک طویل دھوکا مسلم دنیا کے ساتھ تین دہائیوں قبل نہ صرف شروع ہوا بلکہ اب بھی جاری ہے؛ اگرچہ چین کے عالمی طاقت کے طور ابھرنے کے بعد اس میں کچھ کمی آئی ہے۔
سرد جنگ کے دوران مسلم دنیا نے لاعلمی یا شاید ''غلط علمی‘‘ کی بنیاد پر کمیونزم کو کفر سے تعبیر کرتے ہوئے سوویت یونین کے مقابلے میں امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔ اس وقت پوری مسلم ورلڈ کے دائیں بازو کے سیاستدان اشتراکیت کو کفر کے نظام سے تشبیہ دے رہے تھے۔ یہ کہتے ہوئے یہ بھی فراموش کر دیا گیا کہ مفکر اسلام علامہ اقبال نے نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کی تھی بلکہ انہوں نے اشتراکیت کی نرم شکل یعنی سوشل ازم کو عین اسلامی طرزِ معیشت قرار دیا تھا۔ اب امریکی کھلے الفاظ میں اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ وہ مسلم ملکوں میں اپنی مرضی کی فکر کو پروان چڑھاتے رہے ہیں۔ آپ صرف ہیلری کلنٹن کا ایک انٹرویو سن لیں‘ پورا سچ آپ کے سامنے آ جائے گا۔ اس دھوکے کی انتہا دیکھیں کہ سرد جنگ ختم ہوتے ہی امریکہ نے اپنی اتحادی مسلم دنیا کو دھر لیا‘ جس کا تفصیل سے ذکر اوپر کیا جا چکا ہے۔
اس وقت ہم ایک ہی طاقت کے گن گاتے اور اسے بجا طور پر اپنی بقا اور ترقی کی علامت سمجھتے ہیں، یعنی چین کو۔ گزشتہ سال چین کی کمیونسٹ پارٹی کا صد سالہ جشن منایا گیا۔ اس حوالے سے سرکاری تقریبات کے ایک حصے سے پاکستان سے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور مولانا فضل الرحمن نے بھی خطاب کیا تھا اور چینی نظام کی تعریفیں کی تھیں۔ اب یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ چین بھی ایک اشتراکی ملک ہے‘ اس کے جھنڈے میں سرخ رنگ کمیونزم ہی کی علامت ہے پھر محض سوویت اشتراکی نظام ہی کی مخالفت کیوں؟ آج جہاں ہم برصغیر پر ہونیوالے مظالم کے حوالے سے اُس وقت کی کلونیل طاقتوں سے معافی کا مطالبہ کرتے ہیں تو امریکہ کی خوشنودی کیلئے دھوکا دینے والوں کا آلہ کار بننے والوں سے معافی کا مطالبہ کب کریں گے ؟مسلم دنیا کے ساتھ ہونے والا یہ سب سے بڑا دھوکا اب تک جاری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں