ایک زہریلا اور جان لیوا دھوکا

دھوکے کے نام سے بحث شروع ہوئی تو پتا چلا کہ زندگی‘ خواہ قومی ہو یا نجی‘ دھوکوں ہی سے عبارت ہے۔ ہمیں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جسے زندگی میں کسی نہ کسی دھوکے کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ زندگی کا مطلب دھوکے ہی دھوکے ہیں۔ عمومی طور پر دھوکا اس عمل کو سمجھا جاتا ہے جو کسی غیر کی طرف سے یا اپنوں کے روپ میں کسی غیر کی جانب سے دیا جاتا ہے لیکن بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم خود سے بھی دھوکا کر جاتے ہیں۔ اسی طرح دھوکا نہ صرف قومی نوعیت کا ہو سکتا ہے بلکہ یہ کوئی وعدہ خلافی یا معاشی نقصان پہنچانے کے بجائے مہلک اور جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔ آج اسی قسم کے ایک دھوکے کی بات کی جائے گی۔ بات چل رہی تھی قدرتی ماحول یعنی انوائرمنٹ اور ایکو سسٹم کے فرق کی‘ تو آج اس کی بھی کچھ وضاحت ہوجائے گی۔ آج ہم بات کرنے والے ہیں زہریلی دھند یعنی سموگ کی‘ جو گرمیوں کے اختتام یا خزاں کے شروع ہوتے ہی جنوبی ایشیا کے بیشتر خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ پہلے یہ جان لیوا دھند اکتوبر کے اختتام پر شروع ہوتی تھی اور نومبر کے مہینے میں اس وقت تک جاری رہتی تھی جب تک بارش نہ ہو جائے۔ اس کے ختم ہونے کا دوسرا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ مکمل سردی آجائے لیکن اب ماحولیاتی آلودگی کی شدت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ گزشتہ سال یہ سموگ سردیوں کے پورے موسم میں اور بارشوں کے باوجود بھی جاری رہی تھی۔ اس طرح اس زہریلی دھند نے سردیوں کے پورے موسم ہی کو آلودہ اور مضرِ صحت بنا دیا تھا۔ اسی کی وجہ سے صاف دھند کا رومانوی موسم اب افسانوی سا ہو کر رہ گیا ہے۔
اس زہریلی آلودگی کا شکار زیادہ تر بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان اور چین ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جن ممالک سے ان ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں وہاںبھی اس کا کچھ حصہ پہنچ جاتا ہے۔ اگر اس آلودگی کی وجوہات کو جاننے کی کوشش کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری ٹریفک اورگاڑیوں کا پیدا کردہ دھواں ہے۔ اس کے بعد اینٹوں کے بھٹے ہیں جو انتہائی گھٹیا قسم کا ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں کچھ بھٹوں کو جدید زِگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا گیا ہے مگر اب بھی بہت سارے اینٹوں کے بھٹے پرانی طرز ہی پر چل رہے ہیں اور آلوددہ ترین دھواں پیدا کر رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ فیکٹریاں آ جاتی ہیں جو آگ پیدا کرنے کے لیے پرانے ٹائروں اور اس طرح کی دیگرچیزوں کا استعمال کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ مہنگی ہوتی بجلی کی وجہ سے انرجی کے یہ گھٹیا طریقے زیادہ استعمال ہونے کا اندیشہ ہے۔ مزید آگے بڑھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ بلڈنگوں کے تعمیراتی کاموں کی وجہ سے مٹی اور ریت اڑ اڑ کر مسلسل ہمارے ماحول کا حصہ بنتی رہتی ہے اور اس زہریلی دھند کے فروغ میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتی ہے۔ آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ کسی بھی جگہ سے جب مٹی اٹھا کر ٹرالیوں میں ڈالی جاتی ہے تو اس ٹرالی کی سائیڈوں پر اتنی جگہ موجود ہوتی ہے کہ مٹی مسلسل سڑکوں پر گرتی رہتی ہے۔ اس عمل میں شدت اس وقت آتی ہے جب یہ ٹرالی کسی سپیڈ بریکر پرسے گزرتی ہے یا پھر اسے اچانک بریک لگانی پڑتی ہے۔ اس آلودگی کو روکنے کا طریقہ زیادہ مشکل نہیں ہے، صرف یہ کرنا ہوگا کہ پلاسٹک کی ایک بڑی شیٹ کو ٹرالی میں بچھا دیا جائے اور اس کے اوپر مٹی ڈالی جائے اورجب ٹرالی بھر جائے تو اسی شیٹ سے تمام مٹی کو اوپر تک ڈھانپ دیا جائے۔ صرف اتنا کرنے سے مٹی کے گرنے کو نوے فیصد تک روکا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف مٹی زمین پر نہیں گرے گی اور آلودگی کم ہو گی بلکہ انتہائی محنت سے زمین سے اٹھا کر ٹرالی میں ڈالی گئی مٹی ضائع بھی نہیں ہوگی۔
اب آ جائیں ٹریفک کی وجہ سے پیدا ہونے والے دھویں کی طرف، اس ضمن میں اگر ٹریفک پولیس کو ایک اشارہ کر دیا جائے تو کافی ہوگا۔ یہاں ایک عدالتی فیصلہ یاد آ رہا ہے جس میں ون وے کی خلاف ورزی کرنے پر دو ہزار روپے جرمانہ کرنے کا حکم صادر ہوا تھا۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بھی اسی طرز پر سخت جرمانہ کیا جائے۔ ان گاڑیوں کا ریکارڈ کمپیوٹر میں جمع کیا جائے اور دوسر ی دفعہ جرمانے میں دو گنا تک اضافہ کیا جائے اور تیسری دفعہ گاڑی ہی بند کر دی جائے۔ کچھ لوگ یہ منطق دیتے ہیں کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں زیادہ تر پرانی ہوتی ہیں اور ان کو چلانے والے غریب لوگ ہوتے ہیں۔ یہ منطق ایک دفعہ ایک وزیر صاحب نے بھی پیش کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ کا پیدا کردہ دھواں لوگوں کی جان لے رہا ہو تو کیا ایسی ٹرانسپورٹ یا ایسے کسی فعل کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ سب سے بڑھ کر سوال یہ ہے کہ کیا اس ضمن میں حکومت کوئی سبسڈی نہیں دے سکتی؟
اب بات کرتا چلوں اس انٹرویو کی‘ جس میں راقم نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ لاہور شہر کی زندگی پانچ سال سے زیادہ نہیں رہ گئی۔ اس انٹرویو کی بعد وفاقی کابینہ میں بیٹھے‘ برطانیہ سے پڑھے ہوئے ایک ایڈوائزر صاحب نے اُسی سال یونیورسٹی کا دورہ کیا تھا اور سوال کیا تھا کہ آپ نے ایسا کیوں کہا؟ ان سے جو گزارشات کی گئی تھیں‘ ان میں سے کچھ باتیں تو میں نے بیان کر دی ہیں‘ اس کے علاوہ ان سے عرض کیا کہ یہ جو پانچ سال کا عرصہ بیان کیا ہے‘ وہ کم بھی ہو سکتا ہے۔ مزید وضاحت پر کہا کہ ایسا نہیں کہ پانچ سال کے بعد لاہور شہر کی ماحولیاتی زندگی بالکل تباہ ہوجائے گی، لیکن یہ ضرور ہو گاکہ شہر کے زیادہ تر علاقوں‘ خاص طور پر پرانے محلوں اور گنجان آباد علاقوں کا قدرتی ماحول تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ اس تباہی کی وضاحت یہ ہے کہ آپ تصور کریں کہ کچھ لوگ اگر شہر کی آلودگی کو اپنے اندر سمونے والے گندے نالے کے کنارے پر رہ رہے ہوں تو وہاں کی آب وہوا‘ مطلب ہوا‘ کا کیا حال ہوگا؟اب یہ ذہن نشین رہے کہ لاہور شہر میں بے شمار لوگ گندے نالوں کے کنارے پر آباد ہیں، لیکن یہاں سے جب بھی کسی باہر کے شخص کا گزر ہو تو اس کے لیے سانس لینا بھی محال ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں آباد لوگ اس گندی ہوا کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں۔ عین اسی طرح شہر کے آلودہ علاقوں میں لوگ رہ تو رہے ہوں گے مگر آلودگی کے عادی ہو کر۔ اس کے دیر پا اثرات ان کی زندگی کے دورانیے میں کمی کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔ اس وقت اُن مشیر صاحب کی خدمت میں یہ عرض کیا تھا کہ عنقریب سموگ کا دورانیہ خزاں سے شروع ہو کر تمام سردیوں تک باقی رہے گا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ وقت آ چکا ہے‘ یعنی جو پانچ سال کا دورانیہ اس وقت کہا گیا تھا‘ وہ گزر چکا ہے اور اب لاہور شہر کم از کم پانچ ماہ کے لیے نا قابلِ رہائش ہو چکا ہے۔
آپ کسی بھی عالمی ویب سائٹ پر جا کر پاکستان کے مختلف شہروں کے موسموں کا حال دیکھیں تو آپ کو شہر کے موسم کے علاوہ شہر کی ہوا کے معیا ر کا بھی بتایا جائے گا۔ پاکستان کے تقریباًتما م بڑے شہروں کی ہوا کا معیارUnhealthy یعنی غیر صحت بخش بتایا جاتا ہے۔ کبھی کبھا راس انڈیکس میں تبدیلی آتی ہے اور یہ Poorیا پھر Satisfactory قرار دیا جاتا ہے۔ اس صورت حال کو ماحولیات کے ماہرین اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس طرح کے شہروں میں سانس لینا چوبیس گھنٹوں میں بیس سگریٹ پینے کے مترادف ہے۔ بات شروع ہوئی تھی جان لیوا دھوکوں سے تو اس خطے کے لوگوں کے ساتھ ہونے والے دھوکوں میں سموگ اور یہ زہریلا ماحول ایک سب سے بڑا دھوکا ہے جو ہم خود بھی اپنے آپ کو دے رہے ہیں۔ جب ہم اس دھوکے کے اثر سے باہر نکلیں گے تبھی یہ سوچنے کے قابل ہوں گے کہ اس زہریلے ماحول کے دھوکے سے ہم کب اور کیسے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔موت بانٹنے والے قاتل سموگ کے دھویں کے بڑھتے دورانیے کی وجہ سے بجا طور جنوبی ایشیا کو سائوتھ کے بجائے Sad & Sorrow Asia کہا جارہا ہے کیونکہ یہ خطہ اب روٹی‘ کپڑا اور مکان کے بجائے صاف ہوا اور پانی کی تلاش میں اپنی بقا کی جنگ لڑے گا، وہ بھی اس صورت میں اگر یہ لڑنے کے قابل رہا تو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں