یونیورسٹیوں کی سیاست

آٹھ سال تک امریکہ کے صدر رہنے والے رونلڈ ریگن نے عہدۂ صدارت سے فراغت کے بعد ایک دفعہ بتایا تھا کہ وہ اپنے دورِ صدارت میں سب سے زیادہ اپنے ملک کی یونیورسٹیوں سے متعلق ''کنسرنڈ‘‘ رہتے تھے۔ اس خیال یا تشویش کی وجہ کسی بھی قسم کی سیاسی یا انقلابی تحریک کا شروع ہونا تھا۔ اب امریکہ جیسے ملک میں تحریک کا چلنا یقینا عجیب سی بات لگتی ہے مگر ریگن کا دور ایسا نہیں تھا۔1981ء سے 1989ء تک کے دورِ صدارت میں پہلے چار سال سرد جنگ کے حوالے سے سخت ترین سال تھے۔ بالخصوص افغان جنگ کی وجہ سے یہ کشیدگی ایک پراکسی وار کی شکل میں جاری تھی۔ یہ وہی دور ہے جب مسلم دنیا بھی عملی طور پر اس جنگ میں شریک تھی۔ پاکستان میں اس وقت 'ایشیا سبز ہے‘ یا 'ایشیا سرخ ہے‘ کی تحریکیں عروج پر تھیں۔ ملک میں اشتراکیت کے نظام کو سوویت یونین کی مخالفت میں شدت پیدا کرنے کے لیے نظامِ کفر سے تشبیہ دی جاتی تھی حالانکہ اگر روس نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو یہ روس کا قصور تھا نہ کہ اشتراکی نظام کا ؟ اسی بات کا ایک دوسرا رخ یہ ہے کہ اس سے پہلے سرد جنگ ہی کی وجہ سے امریکہ نے ویتنام پر حملہ کر کے بیس سال تک لشکر کشی جاری رکھی تھی مگر دنیا میں کہیں بھی قبضے کی اس جنگ کے خلاف کوئی آواز تک نہیں اٹھی تھی۔ ہاں! ایک بات ضرور ہے کہ اس وقت یہ گونج ضرور سنائی دیتی تھی کہ افغانستا ن میں روس کی موجودگی ایک طرف ایک مسلم ملک پر حملہ ہے، دوسری طرف سوویت یونین کا اگلا ممکنہ ہدف پاکستان کو بتایا جاتا تھا۔ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جب امریکہ بیس سال تک افغانستان پر قابض رہا اور اس خطے میں اس نے جنگ مسلط کیے رکھی تو مسلم دنیا نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اس وقت کسی نے کوئی مزاحمت نہ کی اور نہ ہی امریکہ کے افغانستان پر حملے کو مسلم ملک یا مسلم دنیا پر حملے سے تشبیہ دی گئی۔ شاید عالمی طاقتوں کی منافقانہ سیاست کا یہی اصل روپ ہے۔آپ اس کو طاقت یا مفادات کی سیاست کا نام بھی دے سکتے ہیں۔
قریب دو عشرے پرانی بات ہے کہ جب دوپاکستانی نژاد برطانوی طالب علموں نے سوال کیا تھا کہ آپ کے ملک میں طلبہ یونینز پر تو پابندی ہے‘ پھر آپ کے ملک میں سیاسی قیادت کہاں سے آتی ہے؟(آپ اپنے طور پر اس کا جواب ضرور سوچیں البتہ) میرے پاس اس وقت صرف یہی جواب تھا کہ پاکستان میں اگرچہ طلبہ یونینز پر پابندی ہے مگر دائیں بازو کی تنظیمیں اس کے باوجود اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یونین پالیٹکس ختم ہونے کے باوجود بعض تعلیمی اداروں پر ان کا اس طرح ''قبضہ‘‘ ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر یونیورسٹیوں میں کسی استاد کی تعیناتی بھی نہیں ہو سکتی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اگر یہ تنظیمیں کسی کم معیار کے بندے کو استاد بھرتی کرانا چاہیں تو کوئی ا نہیں روک بھی نہیں سکتا۔ معیار محض یہ ہے کہ بھرتی ہونے والے افراد کا نظریاتی طور پر اپنی سیاسی پارٹی سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں ایک پروفیسر نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں ایسے لوگ بھرتی ہو کر اب ریٹائر بھی ہو چکے ہیں‘جن کا معیا ر شاید ایک سکول کی سطح پر پڑھانے کے لائق بھی نہیں تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ کسی نے بھی اس دعوے نما خیالات کی مخالفت میں ایک لفظ تک کہنے کی کوشش نہیں کی۔ مذکورہ پروفیسر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اگر معاملہ بڑھا تو پھر وہ ایسی بھرتیوں کی نام لے کر نشاندہی کر سکتے ہیں اور تمام ریکارڈ ان کے پاس موجود ہے۔
اب چلتے ہیں لاہور شہر کے تعلیمی اداروں کی طرف! اگرچہ اس وقت تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر قانوناً پابندی ہے مگر عملاً صورتحال یہ ہے کہ ایک طلبہ تنظیم کے نعرے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے در و دیوار پر لکھے ہوئے اب بھی مل جائیں گے۔ دو کالجز تو اب بھی عملاً اس تنظیم کے زیرِ قبضہ ہیں۔ اس سے آگے بڑھیں تو آپ پر آشکار ہوگا کہ اس طلبہ تنظیم کا تعلق جس سیاسی جماعت سے ہے‘ اس کے سربراہان‘ خواہ عمر بھر انہوں نے ایک ہی الیکشن جیتا ہو‘ بلا روک ٹوک کالج یا یونیورسٹی میں آ سکتے اور تقریبات سے خطاب بھی کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں اہم ترین بات یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں دس سال سے زیادہ عرصے تک کانوکیشن بھی اس لیے نہیں ہو سکتا تھا کہ ایک مخصوص جماعت کے رہنمائوں کے علاوہ کسی اور کو مہمانِ خصوصی بننے کی اجازت نہیں تھی۔ تعلیمی اداروں میں مخصوص تنظیموں کے علاوہ کسی بھی دیگر تنظیم کو ایک پوسڑلگانے تک کی جرأت نہیں ہوتی۔ اب آپ کے سامنے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ جس ملک میں تیس سال سے زائد عرصے سے طلبہ یونینز کا الیکشن نہ ہوا ہو‘ کیا وہ ملک اپنے ہاں جمہوریت کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ اس سے بھی بڑا مذاق یہ ہے کہ اب سوڈنٹس ہی نہیں اساتذہ کی بھی اپنی تنظیمیں ہیں اور ان کے فنکشنز میں بھی مہمانِ خصوصی کے طور پر ایک ہی سیاسی پارٹی کے رہنما شریک ہوتے ہیں۔
اب بات لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں ہونے والے ایک فنکشن کی جس سے سابق وزیر اعظم عمران خان نے خطاب کیا تو ایک شور برپا ہو گیا اور ایک طوفان اٹھانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس تقریب کے خمیازے کے طور پر وفاقی حکومت نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب کو ایک قومی سطح کی تعلیمی کمیٹی سے نکال دیا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت اس پر مزید نوٹسز لیتی بھی نظر آ رہی ہے۔ اس سلسلے میں پہلی اہم بات یہ ہے کہ سابق وزیراعظم کی جماعت اس وقت دو صوبوں میں برسرِ اقتدار ہے اور جس یونیورسٹی میں یہ تقریب منعقد ہوئی‘ وہ بھی ان کے صوبے میں ہی واقع ہے۔ اب فرض کریں کہ 'تعلیم کے ساتھ ہنر‘ یا ایسا ہی کوئی پروگرام اگر پنجاب کی صوبائی حکومت نے شروع کر رکھا ہو اور اس سلسلے میں دیگر یونیورسٹیوں میں پروگرامز کا انعقاد بھی ہو چکا ہو تو اس میں وائس چانسلر صاحب کا کیا قصور ہے؟ اس معاملے کا ایک دوسرا رخ یہ ہے کہ عمران خان صاحب محض سابق وزیراعظم یا ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نہیں ہیں‘ وہ برطانیہ کی ایک بڑی یونیورسٹی میں اعزازی طور پرایک اہم ترین عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اور پاکستان میں بھی ایک یونیورسٹی کے بانی ہیں۔ وہ سپورٹس کے عالمی چیمپئن ہیں اور ہسپتالوں کی ایک چین کے بھی بانی ہیں۔ عمران خان اگر کسی تعلیمی ادارے میں کسی تقریب سے خطاب کرتے ہیں تو اس سارے پس منظر کو سامنے رکھنا ہو گا۔ یادپڑتا ہے کہ لاہور میں شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے لیے فنڈ ریزنگ کی خاطر بھی خان صاحب تعلیمی اداروں کے دورے کیا کرتے تھے۔ اس وقت یونیورسٹی ہی نہیں‘ سکولوں اور کالجوں کے طلبہ بھی والنٹیئر کے طور پر فنڈ ریزنگ کا کام کرتے تھے۔ مذکورہ تقریب کے حوالے سے سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ وائس چانسلر صاحب نے سابق وزیر اعظم کے لیے ''میرے قائد‘‘ جیسے الفاظ کیوں استعمال کیے۔ اس ضمن میں گزارش یہ ہے کہ جو بھی مہمانِ خصوصی ہو‘ اُس کو اس کے عہدے اور رتبے کے اعتبار ہی سے پکارا جاتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر بات یہ ہے کہ اگر وائس چانسلر صاحب شایانِ شان الفاظ استعمال نہ کرتے تو اس سے وہاں موجود ہزاروں طلبہ بپھر سکتے تھے۔ ویسے بھی جس صوبے‘ جس شہر میں یہ یونیورسٹی ہے‘ اس کی برسرِ اقتدار جماعت کے قائد کو اگر ''قائد‘‘کہہ دیا جائے تو اس میں اتنے غصے یا اشتعال کی کیا بات ہے؟
سیاسی وابستگی سے ہٹ کر دیکھیں تو قیامِ پاکستان کی تحریک کے دوران قائد اعظم بھی مسلم طلبہ سے خطاب اور ملاقاتوں کے لیے تواتر سے جایا کرتے تھے۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے تحریکِ پاکستان میں جو کردار ادا کیا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ اس خطاب کے ری ایکشن میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے‘ بصورتِ دیگر طلبہ کثیر تعداد میں زیادہ بھرپور طریقے سے ایسی تقریبات میں شریک ہوسکتے ہیں۔ طلبہ میں اگر سیاسی شعور نہ ہوتا تو امریکی صدر ریگن کو امریکہ جیسے ملک کا صدر ہو کر بھی ان کے حوالے سے اتنا محتاط نہ رہنا پڑتا۔ باقی اگر سیاست دانوں کو تعلیمی اداروں سے دور رکھنا اتنا ہی ضروری ہے تو ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو ان تنظیموں سے بھی 'رہائی‘ دلائی جائے جن کی مرضی کے بغیر متعلقہ اداروں میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں