راوی کو رواں رہنے دو

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے پڑھنے والے کو طلبہ ''راوین‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نام انہیں کالج سے چھپنے والے میگزین ''راوی‘‘ کی وجہ سے دیا گیا اور کالج میگزین کا یہ نام لاہور کے کنارے بہنے والی دریائے راوی کی نسبت سے رکھا گیا تھا۔ ہماری بات بھی اسی کالج کے حوالے سے جاری ہے‘ جہاں پر سابق وزیراعظم نے ایک ایسے پروگرام میں شرکت کی جس کا انعقاد ایک سرکاری تعلیمی شعبہ نے کیا تھا۔ اگلے روز اسی سلسلے میں ایک ٹی وی پروگرام میں جو بحث ہوئی‘ اس میں اس تعلیمی ادارے کے وائس چانسلر کا ایک وڈیو پیغام چلایا گیا جس میں وہ اپنے ادارے کی پوزیشن واضح کر رہے تھے۔ جس کے بعد توقع ہے کہ یہ معاملہ زیادہ طول بالخصوص منفی طول نہیں پکڑے گا۔ انہوں نے اپنے وڈیو پیغام میں بتایا کہ جلد ہی اس تعلیمی ادارے کے پلیٹ فارم سے ایک صحت مند مباحثہ کروایا جائے گا‘ جس میں دونوں اطراف کے لوگوں کو مدعو کیا جائے گا تاکہ کسی کا بھی کوئی گلہ نہ رہے۔
اب تعلیم کے شعبے سے منسلک لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایک طرف تو سابق وزیراعظم کے ایک تعلیمی ادارے میں خطاب پر خوب شور مچایا جا رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں ایک سیاسی جماعت کی ذیلی تنظیم اپنے کئی کئی روزہ طویل اجتماعات منعقد کرتی ہے۔ ان اجتماعات میں یونیورسٹی کے وسائل عام استعمال ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں جب تاریخی حوالوں یہ سوال اٹھایا گیا کہ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر جب پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے یہاں ایک لیکچر دیا تھا جس کا عنوان تھا ''قوموں کی ترقی میں یونیورسٹیوں کا کردار‘‘، لیکن یہ لیکچر ملک کی بڑی یونیورسٹی کے بجائے گورنمنٹ کالج میں کیوں ہوا تھا؟ تو اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یونیورسٹی میں اس لیکچر کے انعقاد کے لیے اجازت نہیں مل سکی تھی یا پھر اس لیکچر کے دوران وہاں بدمزگی پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔ کچھ طبقات کی طرف سے یہ بھی جواز پیش کیا جارہا ہے کہ عمران خان نے جو خطاب کیا وہ ایک تعلیمی ادارے میں تھا جبکہ مذکورہ یونیورسٹی تعلیمی سے زیادہ سیاسی درسگاہ بنی ہوئی ہے کیونکہ اس یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے بیشتر چھوٹے سے چھوٹے اوربڑے سے بڑے پروگرامز میں ایک ہی جماعت کے لوگوں کوشرکت کی اجازت ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یونیورسٹی میں اساتذہ کے لیے سیاسی پارٹی کا ایک الگ ونگ بھی قائم و دائم ہے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف اسی یونیورسٹی میں پیپلز پارٹی‘ (ن) لیگ‘ تحریک انصاف یا پھر کسی اور سیاسی جماعت کے تحت اساتذہ کا کوئی گروپ تشکیل نہیں پا سکتا۔
یہاں ذکر آجاتا ہے مرحوم ڈاکٹر مہدی حسن کا‘ جن کی پاکستان پیپلز پارٹی سے بہت گہری وابستگی تھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اسی پاداش میں کبھی پروفیسر کے عہدے پر ترقی نہ پا سکے اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر ہی اپنی سروس سے ریٹائر ہوگئے۔ ان کے حوالے سے اس زمانے کے پروفیسرز بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کی سالانہ رپورٹ میں ایک تصویر لگائی گئی تھی جس میں وہ پیپلز پارٹی کی ایک بڑی شخصیت سے ملاقات کر رہے تھے۔ کسی بھی پروفیسر کی سالانہ رپورٹ یا اے سی آر میں ایک تصویر کا شامل کیا جانا‘ آج تک کی یونیورسٹی کی تاریخ کا واحد اور انوکھا واقعہ ہے۔ ڈاکٹر مہدی حسن پیپلز پارٹی کے ایک رہنما ڈاکٹر مبشر حسن کے کزن بھی تھے۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو جلا وطنی کے بعد پاکستان تشریف لائی تھیں تو ڈاکٹر مہدی حسن کی ان سے ون آن ون ملاقات بھی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر مہدی حسن کا زمانہ‘ پاکستان میں لیفٹ اور رائٹ کی سیاست کا دور تھا۔ اس لیے انہیں لیفٹسٹ بھی کہا جاتا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ''ایشیا سرخ ہے‘‘ کے حامی مانے جاتے تھے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے اوپر ہونے والے ستم کی بہت ساری داستانیں سنایا کرتے تھے۔ وہ اس بات کا بھی اقرار نما اعتراف کیا کرتے تھے کہ ان کی سلیکشن بھی ایک سیاسی جماعت کی منظوری سے ہی ہوئی تھی۔ ان کی طرح مزید کئی پروفیسر کا نام بھی لیا جاتا ہے جن کی سلیکشن سے لے کر ان کی پروموشن تک ایک خاص قسم کے گرین سگنل کے بعد ہی ہوئی تھی۔
اب آتے ہیں ایک ایسے سوال کی طرف جس کو ملین ڈالر ہی نہیں بلکہ بلین ڈالر سوال قرار دیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنے دور طالب علمی میں کسی ایک طلبہ تنظیم سے منسلک رہتا ہے اور تعلیم مکمل ہونے پر جب کسی بڑے عہدے پر منتخب ہو جاتا ہے تو وہ اس تنظیم سے منسلک ہونے یا اپنے اس تعلق کو اپنے تعارفی کوائف یا بائیو ڈیٹا میں چھپاتا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب کچھ یوں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اس تعلق کو اس لیے چھپاتا ہے تاکہ وہ اس نوکری سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے۔ اگر وہ اس طلبہ تنظیم سے تعلق کو اپنے پروفیشنل کیرئیر کے لیے اپنے تعارفی کوائف میں شامل نہیں کر سکتا تو وہ زمانۂ طالب علمی میں اس میں شمولیت ہی کیوں اختیار کرتا ہے۔ یہاں ایم کیو ایم کی مثال دی جا سکتی ہے کہ ایک وقت تھا جب اس جماعت سے منسلک افراد جماعت سے منسوب باتوں کی وجہ سے کسی نوکری کے لیے دیے جانے والے انٹر ویو میں اس جماعت سے اپنے تعلق کو چھپاتے تھے۔ آپ اس قسم کے تعارف یا تعلق کو نیم مشکوک یعنی گرے کہہ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر مہدی حسن صاحب کے حوالے سے یاد آیا کہ وہ ''ایشیا سرخ ہے‘‘ کے حوالے سے یادیں دہراتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ اس دور میں اگر کوئی طالب علم یا استاد سرخ یا نیم سرخ رنگ کا کوئی پورا لباس نہیں بلکہ اگر صرف شرٹ یا کوئی جرسی ہی پہن کر یونیورسٹی آجاتا تھا تو اس پر ''سرخا‘‘ مطلب کمیونسٹ ہونے کا الزام لگ جاتا تھا۔ اس وقت پاکستان اپنی قومی پالیسی کے تحت چونکہ امریکی بلاک کا حصہ تھا اس لیے کمیونسٹ طبقے کو کافی مخالفت کا سامنا تھا۔اور یہ مخالفت لوگ اپنی مرضی سے امریکہ کی خوشنودی اور امریکی ڈالر کے حصول کے لیے کرتے تھے۔ اس کے لیے ڈالر سکالر کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ یہ سب بیرونی یا عالمی طاقتوں کے ایما پر ہوتا ہے اور ہم جیسے ملکوں کو یہ سب قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔ اور اب حالات یہ ہیں کہ آج کل ایک عالمی طاقت جو کہ کمیونسٹ ہے‘ کے اہم ترین فلاسفر کے نام پر ملک کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں مطالعاتی مراکز موجود ہیں۔ چلیں ہم یہ شکر کر سکتے ہیں کہ ہم مغربی غلامی سے رفتہ رفتہ کسی نہ کسی حد تک تو نکل ہی رہے ہیں۔
ہمیں ان غلامیوں سے مکمل آزادی اس وقت ہی مل سکتی ہے جب ہم اپنے تعلیمی اداروں کو کھل کر کام کرنے دیں گے۔ انہیں کسی سیاسی چپقلش یا افراتفری کا شکار نہ ہونے دیں گے۔ اس لیے گورنمنٹ کالج کی شکل میں موجود‘ راوی رسالے کے مرکزکو رواں دواں رہنے دیا جائے۔ خدانخواستہ راوی دریا کی طرح اگر یہ بھی خشک ہو گیا تو یہ علمی قحط پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں کو سیاسی تبدیلیوں سے مکمل طور پر دور رکھا جائے۔ حکومتیں آتی جاتی رہیں لیکن تعلیمی اداروں کو ان سیاسی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے مکمل طور پر بچایا جائے۔ جو اعتراض ایک سابق وزیراعظم کے ایک تعلیمی ادارے میں خطاب پر کیا جا رہا ہے‘ اسی کو ایک پالیسی کے طور پر اپنا کر دیگر تعلیمی اداروںکو بھی سیاسی مداخلت سے پاک رکھا جائے۔ اسی صورت علم کے دریا اپنا سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں