ماحول کا نیاجبر

سائنسی تحقیق یہ ثابت کر چکی ہے کہ لوگ اکتوبر کے مہینے میں سب سے زیادہ اداس ہوتے ہیں اور اس کے لیے ''Sad‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ دراصل یہ ایک مخفف ہے‘ اصل اصطلاح ہے ''Seasonal affective disorder‘‘۔ یعنی ایک موسم ایسا آتا ہے جس میں موسمی کیفیت انسانوں کی ذہنی حالت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور ایک اداسی سی ان پر طاری کر دیتی ہے۔ آپ سادہ لفظوں میں اس کو خزاں کا موسم بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے مکمل برعکس‘ مارچ کے مہینے میں ہر شخص ذہنی طور پر ایک خوش گوار موڈ میں رہتا ہے۔ در اصل موسمی کیفیات اور کسی بھی علاقے کے خد و خال یا قدرتی ماحول انسان کی سرگرمیوں، معیشت، سیاست، عسکری منصوبہ بندی، لباس، گھروں کی تعمیر اور اس کی ذہنی صحت یعنی نفسیات پر بھی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جغرافیہ کے لوگ اس کو ماحول کا جبر ''Environmental determinism‘‘ کہتے ہیں۔
اب آپ اپنے موڈ یا اپنے کسی قریبی عزیر یا دوست کے موڈ کا بغور مشاہدہ کریں۔ اپنے مشاہدے میں آپ کو اس بات کا اعتراف نظر آئے گا۔ اس اداسی کا سب سے زیادہ اثر شام کے وقت ہوتا ہے۔ ذہنی امراض کا علاج کرنے والے ماہر معالج اس حوالے سے اپنے مریضوں کو واضح طور پر تنبیہ کرتے ہیں۔ اس اداسی کے لیے اکثر وہ مریضوں کو دی جانے والی ادویات میں کچھ تبدیلی بھی کر دیتے ہیں۔ اس اداسی کو ختم نہ سہی‘ کم کرنے کے لیے آپ کسی گرائونڈ میں جاکر زیادہ وقت بِتائیں۔ اس سے اس موسمی اداسی کا اثر کافی حد تک زائل ہو جاتا ہے۔ چونکہ اس موسم میں گرمی تقریباً ختم ہو جاتی ہے لہٰذا آپ اگر چاہیں تو کسی میدان میں جاکر صرف سیر کرنے کے بجائے دوڑ لگانے کی مشق بھی کر سکتے ہیں۔ سائنس یہ بتاتی ہے کہ تیس منٹ تک مسلسل سیر خاص طور پر تیز قدموں کے ساتھ سیر آپ کے دماغ کے خلیوں کو بہتر پوزیشن میں لے آتی ہے جس سے ذہنی طور پر آپ مضبوط اور بہتر محسوس کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایسی اداسی میں ہر گز تنہا مت بیٹھیں۔ اس حوالے سے ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کے پاس ضرور وقت گزاریں جس کے ساتھ آپ کو کوئی کام یا غرض نہ ہو۔ اسے non contractual گفتگو کہتے ہیں۔
آج کی دنیا میں ذہانت کو بھی مختلف پیمانوں پر پرکھا جاتا ہے اور اس پیمانے کو Intelligence quotient یعنی IQ کا نام دیا جاتا تھا۔ اس کے مختلف درجے ہیں جن پر انسانوں کو پرکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایک نیا نظریہ‘ جو در اصل ایک نیا اصول تھا‘ متعارف کروایا گیا۔ اس اصول کو انگریزی زبان میں Emotional Quotient یعنی EQکا نام دیا گیا ہے۔ یہ‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے‘ جذباتی ذہانت کا پیمانہ ہے۔ اس کا مقصد بنیادی طور پر یہ پتا لگانا تھا کہ انسان ذہانت سمیت اپنے دیگر وسائل کس طرح بروئے کار لاتے ہیں۔ اس طرح جو اپنے وسائل اور ذہن کو بہتر طریقے سے استعمال کرے گا‘ وہی زیادہ کامیاب کہلائے گا۔ اس کو ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک کالج یا یونیورسٹی میں ایک ہی کلاس میں بہت سارے طالب علم حصولِ علم کے لیے کوشاں ہیں۔ سب کو ایک خاص مقدار میں گھر سے پیسے ملتے ہیں۔ چونکہ ان تمام طلبہ کا داخلہ ایک خاص قسم کے میرٹ پر ہوا ہے لہٰذا ان سب میں ذہانت کا پیمانہ (IQ) تقریباًیک جیسا ہی ہو گا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ آگے کون جائے گا؟ تو اس کا فیصلہ اس بات سے ہوگا کہ ان میں سے کون اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر اپنے وسائل کو بہتر انداز سے استعمال کرے گا۔ مطلب یہ کہ کون سے طلبہ اپنا وقت دیگر سرگرمیوں کے بجائے پڑھائی میں لگاتے ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ چھٹیوں کے ایام میں وہ گھومتے پھرتے ہیں یا ان دنوں میں بھی اپنی پڑھائی کو جاری رکھتے ہیں۔ اسی طرح گھر سے ملنے والے پیسوں سے اپنے لیے نئے جوتے‘ کپڑے خریدتے ہیں یا کوئی کتاب خریدتے ہیں، یا اگر کسی مضمون میں وہ کوئی کمی محسوس کر رہے ہیں تو اپنے جیب خرچ سے اس مضمون کے لیے کسی پرائیویٹ ٹیوشن کا اہتمام کرتے ہیں۔ جذباتی ذہانت کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ اپنے عارضی جذبات اور خواہشوں کو پورا کرنے کے بجائے لانگ ٹرم کی پلاننگ کرنا، مستقبل کو دھیان میں رکھتے ہوئے جذباتی ذہانت کو بروئے کار لانا اور پیداواری سرگرمیوں کو نہ صرف جاری رکھنا بلکہ ان سرگرمیوں کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہنا۔ اسی نظریے کے تحت یہ بات بتائی جاتی ہے کہ اپنے آج کو اپنے آنے والے کل پر قربان کر دو۔ اس کو Deferred Gratification Pattern بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا عبوری مفہوم یہ ہے کہ آپ اپنی عارضی خواہشات کی تکمیل کو ملتوی کر دیں۔ طلبہ کی عارضی خواہشات کا آپ کو اندازہ ہو چکا ہے کہ موج مستی اور پارٹی کرنا، فلم دیکھنے جانا، آوارہ گردی کرنا وغیرہ۔
اب آپ کو لیے چلتے ہیں اس سے اگلے نظریے کی طرف‘ جو پہلے والے کلیے کی طرح بظاہر ایک سخت گیر اصول کی طرح ہماری زندگیوں پر لاگو ہو چکا ہے۔ یہ نظریہ بھی جذباتی ذہانت ہی کی ایک جدید شکل ہے۔ جو بات اس میں نئی ہے وہ ذہانت اور جذباتی پن کے بجائے ''ذہنی مضبوطی‘‘ ہے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب آپ کو ایک تیز یا ذہین دماغ کے بجائے ایک مضبوط دماغ کی ضرورت ہے۔ اس کی وضاحت مثالوں سے ہی کی جا سکتی ہے۔ سب سے بڑی مثال کورونا کی شکل میں پھیلنے والی بیماری ہے جس نے جسمانی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ذہنی ہلاکتیں کی ہیں۔ یعنی لوگوں کو ذہنی طور پر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لوگ ابھی تک اس کے خوف سے مکمل طور پر باہر نہیں نکل سکے۔ اس بیماری نے لوگوں کے درمیان فاصلے بڑھا دیے ہیں۔ آن لائن ورک یا ورک فرام ہوم کے کئی فوائدہو سکتے ہیں مگر لوگوں کے میل جول میں اس وبا سے واضح طور پر کمی آگئی۔ اس وبائی مرض کی سب سے زیادہ ہلاکت خیز بات لوگوں کے روزگار یعنی معیشت کا متاثر ہونا ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں اس وبا کے سبب ہل کر رہ گئیں جس کی وجہ سے لوگ ایک ''ڈیزاسٹر‘‘ کا شکار ہو گئے۔ ابھی تک وہ اس کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکے۔ اسی کے ساتھ دنیا میں موسمیاتی تبدیلیاںبلکہ تباہیاں بھی ایک ایسی آفت ہیں جن سے لوگ سہم کر رہ گئے ہیں۔
اکتوبر کے مہینے میں شروع ہونے والی مصیبت یعنی سموگ ہی کو لے لیں جس کے آنے سے ایک نیم دھندلی کیفیت کچھ اس طرح طاری ہوتی ہے کہ ایک موسمیاتی جنگ کا احساس ہونے لگتا ہے۔ لوگوں کا چلنا پھرنا اس موسم میں کم ہو جاتا ہے۔ سانس لینے میں دقت محسوس ہوتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسی کیفیت میں سانس لینا ایک دن میں بیس سگریٹ پینے کے برابر ہوتا ہے۔ اس موسمیاتی زہریلی دھند سے پہلے تو نومبر کے مہینے میں ہونے والی بارش سے نجات مل جاتی تھی لیکن اب یہ سموگ ساری سردیوں میں جاری رہتی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ گزشتہ سال یہ زہریلی دھند پورے موسمِ سرما پہ محیط تھی۔ اب اگر آپ سموگ کے حل کے لیے مصنوعی بارش کا سوچ رہے ہیں تو وہ بارش بھی اس کیفیت کو اس لیے ختم نہیں کر سکتی کہ یہ بارش کے بعد پھر سے جنم لے لیتی ہے۔ اس سموگ کا اثر اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ لوگوں میں کان‘ ناک اور گلے کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ سانس کی بیماریاں بھی زور پکڑلیتی ہیں۔ایک وقت تھا کہ سردیوں کے موسم کا انتظار کیا جاتا تھا لیکن اب یہ طے ہو چکا ہے کہ اس چار سے پانچ ماہ کے دورانئے کو گن گن کر گزارنا پڑے گا۔
بات شروع ہوئی تھی SAD یعنی اداسی کے موسم کی‘ کبھی یہ اکتوبر تک ہی محدود رہتا تھا۔ اب نومبر کے گزرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ یہ کہنا اب زیادہ مناسب ہو گا کہ محض موسمِ خزاں ہی نہیں بلکہ سردیاں بھی اسی اداسی اور پریشانی میں گزارنا پڑیں گی۔ اس لیے اب اپنے آپ کو ذہنی طور پر مضبوط بنانا پڑے گا۔ اس طرح کی کیفیت کو ابنارمل صورتحال کہا جاتا ہے لیکن اب وہ دور آ چکا ہے جس کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ Abnormal is the new normal۔ یہی جغرافیائی زبان میں ماحول کا نیا جبر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں