قدرتی آفات کا ذکر آج کل بہت کثرت سے ہو رہا ہے، لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ان آفات میں سے جو سب سے زیادہ بھیانک آفات ہیں‘ وہ درحقیقت حضرتِ انسان کی اپنی پیدا کردہ ہیں۔ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ انسان نے قدرت کے پیدا کردہ نظام اور ماحول کو اپنی بڑھتی تعداد اور ماحول دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے خراب ہی نہیں بلکہ باقاعدہ طور پر تباہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس لیے اب موسمیاتی تبدیلیوں کی جگہ ''موسمیاتی تباہیوں‘‘ کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے۔ آپ ہوا میں آلودگی یا پھر سموگ کی مثال لے لیں۔ ان کو نام قدرتی آفتوں کا دیا جاتا ہے مگر یہ مکمل طور پر انسانوں کے اپنے پیدا کردہ مسائل ہیں۔ اب ذکر ایک ایسی آفت کا‘ جو خالص طور پر انسانوں بلکہ اشرافیہ کی پیدا کردہ ہے۔ اس آفت کو بجا طور پر ''ام المسائل‘‘ یا ''ام الآفات‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ہم غربت یا پھر امیر اور غریب کے درمیان پیدا ہونے اور وقت کے ساتھ مسلسل بڑھنے والے تفاوت کی بات کر رہے ہیں۔ اس تفاوت یا فرق کو پہلے Gap یعنی فاصلہ کہا جاتا تھا مگر اب یہ ایکGulf یعنی خلیج بن چکا ہے۔ جس طرح کسی خلیج کے دو کنارے کبھی نہیں ملتے‘ اسی طرح امیر اور غریب کا فرق کبھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ یہ فرق کتنا زیادہ بڑھ چکا ہے کہ اسے اب ایک خلیج کہا جاتا ہے‘ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دنیا کی صرف دس فیصد آبادی پوری دنیا کی کُل دولت کے 80 فیصد پر قابض ہے۔ اس فرق کو دوسرے انداز میں یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کی وہ آدھی آبادی جو غریب ترین ہے اور دنیا کی کل آبادی کا تقریباً نصف ہے‘ کے حصے میں دنیا کی کل دولت کا بمشکل صرف تین فیصد آتا ہے۔ باقی اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی اور بھیانک آفت ہے۔ اگر اس فرق کو ایک مثال سے سمجھنا چاہیں تو یہ جان لیں کہ اگر سو لوگوں میں آپ کو سو گھر تقسیم کرنے ہوں تو پچاس لوگوں کے حصے میں صرف تین گھر آئیں گے اور اسّی سے زیادہ گھروں کے مالک صرف دس لوگ ہوں گے۔
آپ نے سنا ہو گا‘ اکثر کہا جاتا ہے کہ ''خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے‘‘۔ اب اس فقرے کو بنیاد بن کر آپ خود سوچیں کہ خالی پیٹ شیطان کے لیے کتنی آئیڈیل جگہ ہو گا۔ اسی تناظر میں انگریزی کا ایک محاورہ کچھ یوں ہے کہ When Flatterers Get Together, The Devil Goes To Dinner۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جہاں خوشامدی اکٹھے ہو جائیں تو وہاں شیطان کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ اس صورت حال کا اگلا مرحلہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ''اگر کسی علاقے میں مکمل غربت چھا جائے تو شیطان اس علاقے سے مکمل رخصت ہو جاتا ہے‘‘۔ اس کی وضاحت کچھ یوں کی جاتی ہے کہ غربت اور بھوک کا مارا وہ کچھ بھی سوچ لیتا ہے جو شاید شیطان اس کو بہکا کر بھی سوچنے پرمجبور نہیں کر سکتا۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ قریب ہے کہ غریبی کفر تک پہنچا دے۔ یعنی جہاں حد سے زیادہ غربت ہو‘ وہاں لوگ ایمان فروشی کو بھی گوارا کر لیتے ہیں۔ اب آپ آنکھوں کے بجائے کانوں کا مشاہدہ نوٹ فرمائیں۔ آپ کو شاید عجیب لگ رہا ہو کہ مشاہدے کی آنکھ کی اصطلاح تو سنی تھی‘ یہ کانوں کا مشاہدہ کیا ہوا! تو گزارش ہے کہ جس طرح دنیا کی مصیبتیں اور دکھ بدل رہے ہیں‘ عین اسی طرح ایک بات کانوں سے سننے کو ملی۔ تعلق اس کا بھی غربت ہی سے ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ پہلے یہ تو سننے کو ملتا تھا کہ اب مزدور طبقے کے لوگ اس قدر مجبور ہیں کہ وہ دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا پا رہے، اس سے پہلے اس المیے کا ایک رخ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ اب مزدور طبقہ سالن کی ایک پلیٹ خریدتا ہے تاکہ دو لوگ اس سے پیٹ کا دوزخ بھر سکیں۔ سالن کی مقدار کی کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ ایک پیاز یا پھر اچار کی ایک پھانک کا سہارا لیتے ہیں۔ 'کانوں کے مشاہدے‘ کی بات یہ ہے کہ اس وقت مارکیٹ میں ایک ہی چیز ایسی بچی ہے جو اس وقت بھی قدرے سستی ہے اور جس کو روٹی کے ساتھ کھانے میں بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ جی ہاں! یہ ایک پھل ہے اور اس کا نام کیلا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اب کیلوں کا سالن پکانے کی کوشش بھی کی گئی ہے لیکن چونکہ یہ پھل میٹھا ہوتا ہے تو اس سے بنے سالن کا ذائقہ بھی میٹھا ہی رہتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کے کچھ علاقوں میں کیلے کو بطور سبزی سالن وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے مگر یہ کچے کیلے ہوتے ہیں جو خاصے سخت اور بے ذائقہ ہوتے ہیں۔ اب کیلوں کے میٹھے سالن پر آپ کو کچھ تعجب تو ہو رہا ہوگا لیکن صاحب! بھوک میں تو لوگ کڑوی اور گلی سڑی چیزیں بھی کھا جاتے ہیں‘ یہ تو پھر میٹھا سالن ہے۔ شاید آپ کو یہاں ''میٹھے کریلے‘‘ کا سالن یاد آ رہا ہو۔ کریلے بنیادی طور پر ایک کڑوی سبزی ہیں۔ اسی لیے کریلوں کو پکانے سے پہلے اس طرح کے مراحل سے گزارا جاتا ہے کہ ان کا کڑوا پن ختم کیا جا سکے۔ اسی طرح اس سالن میں ٹماٹر اور پیاز وغیرہ کی اچھی خاصی مقدار ڈالی جاتی ہے جس سے سبزی کا کڑوا پن ختم نہیں تو خاصا کم ضرور ہو جاتا ہے۔ مگر اب چونکہ سبزیوں کے دام خاصے بڑھ چکے ہیں اس لیے کریلوں کے چھلکوں پر ابھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے دانوں کو‘ جن کو پہلے مکمل طور پر چھیل دیا جاتا تھا تاکہ ان کا کڑوا پن ختم کیا جا سکے البتہ اس طرح کرنے سے کریلوں کی مقدار خاصی کم ہو جاتی تھی‘ان دانوں کو اب مکمل طور پر نہیں چھیلا جاتا بلکہ سبزی کی مقدار کو کم ہونے سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس صورت حال میں جو سالن تیار ہوتا ہے‘ اس کی مقدار تو زیادہ رہتی ہے مگر وہ قدرے کڑوا ہوتا ہے۔ یہ بظاہر ایک افسانوی بات لگ رہی ہو گی مگر جناب مہنگائی اور غربت کے باعث یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔
اب آپ کو ایک اور محاورا یاد آ رہا ہو گا کہ ''ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے‘‘ لیکن جناب! غربت ایجاد کی ماں ہی نہیں بلکہ نانی‘ دادی بھی ہوتی ہے۔ اگر بات سمجھ میں نہیں آ رہی تو تھوڑا صبر کا مظاہرہ کریں۔ پہلے ذکر ہوا ہے کریلوں کے سالن کا تو اب غربت نے ایک نیا سالن ''ایجاد‘‘ کیا ہے۔ مالی حیثیت لوگوں کو اس نہج پر لے آئی ہے کہ اب کریلوں کی کڑواہٹ کم کرنے کے لیے ہانڈی میں کیلے ڈالے جاتے ہیں۔ کڑوے کریلوں میں میٹھے کیلے ڈالنے سے کیلے قدرے کڑوے اور کریلے قدرے میٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس تناسب کو توازن میں لانے کے لیے کیلوں کی مقدار خاصی بڑھا دی جاتی ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے سالن کا میٹھا ہونا تو برداشت کیا جا سکتا ہے لیکن کڑوا سالن باقابلِ برداشت ہوتا ہے۔ اب اس ایجاد پر اگر کسی حاکم کا موقف لیا جائے تو لازماً وہ یہی کہے گا کہ ہماری معاشی حالت اتنی اچھی ہے کہ ہمارا مزدور طبقہ بھی اب ہر کھانے کے ساتھ سویٹ ڈش کھا رہا ہے۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ ماضی میں ایک دفعہ اس طرح کا بیان دیا بھی گیا تھا کہ کسی سبزی کی قیمت بڑھنے پر کہا تھا کہ سبزی کے بجائے سیب کھائیں، کیونکہ اس وقت سیب قدرے سستے تھے‘اسی طرح دال کے بجائے چکن کھانے اور ٹماٹروں کے بجائے دہی کے استعمال کے مشورے بھی دیے جا چکے ہیں ۔چلیں! واپس چلتے ہیں کریلوں اور کیلوں کی آمیزش سے بننے والی ہنڈیا کی طرف۔ یہ ڈش تو تیار کرکے کھائی جا رہی ہے لیکن ابھی اس کے ذائقے سے رغبت کی مزید ضرورت ہے۔ اس میں کریلے کم اور کیلے زیادہ ڈالے جاتے ہیں اور وجہ یہ ہے کہ کیلے اب بھی ساٹھ‘ ستر روپے فی درجن میں دستیاب ہیں، جبکہ کریلے دیگر سبزیوں کی طرح مہنگے ہی ہیں، البتہ ایک بات ہے کہ اب کیلوں کی وجہ سے کریلوں کے چھلکوں کا اوپر والا کڑوا دانے دار حصہ بھی کھایا جا رہا ہے۔ اسی سے ملتی جلتی ایک اور ڈش بھی ہے‘ جس کی ترکیب ایک رسالے میں چھپ بھی چکی ہے، لیکن وہ صرف گرمیوں میں پکائی جا سکتی ہے البتہ یہ سو فیصد سستی ہے۔ جی ہاں! تربوز ایک ایسا پھل ہے جس کے چھلکے یا بیرونی حصے کو بھی پکایا جا سکتا ہے۔ اس کی تفصیل پھر سہی۔ البتہ یہ بات خاصی عجیب محسوس ہوتی ہے کہ اب تک کیلے کو ایک پھل کے طور پر ہی دیکھا جاتا تھا لیکن کیا کریں‘ غربت چیز ہی ایسی ہے کہ اس نے ایک اچھے خاصے خوش ذائقہ پھل کو بھی سبزی بنا دیا ہے۔