گزشتہ کالموں میں ہم بات کر رہے تھے دیارِ غیر میں اپنوںکے لیے مارے جانے والوں کی تو اس فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ ہو گیا ہے۔پچھلا کالم لکھ کر بھیج چکا تو اگلی صبح ایک انتہائی محنتی اور بے باک صحافی کی شہادت کی خبر مل گئی‘ جس پر پوری قوم سخت رنجیدہ ہے۔
پچھلے کالموں میں جنوبی ایشیا میں ہونے والی جنگوں پر بات کی جا رہی تھی۔جنوبی ایشیا وہ خطہ ہے جو آج بھی مغربی طاقتوں کے زیر اثر یا حصار میں ہے۔ اس خطے کے سب سے بڑے ملک بھارت‘ جو کہ ایک سیکولر ملک ہونے کا دعویدار بھی ہے‘ کی بات بھی جاری تھی۔ اس سلسلے میں اب ذکر کرتے ہیں بھارت کی خاندانی و جمہوری آمریت کی دوسری سربراہ اندرا گاندھی کا جنہیں 31اکتوبر 1984ء کو اُن کی رہائش گاہ پر قتل کر دیا گیا تھا۔ اُن کا قتل واضح طور پر سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی کی وجہ سے ہوا۔ اس فوج کشی میں ٹینک تک استعمال کیے گئے تھے جس کے نتیجے میں اس عبادت گاہ کا بڑا حصہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ یہ سیکولر بھارت کے چہرے پر اتنا بڑا داغ ہے کہ جس کو لاکھ کوششوں کے باوجود مٹانا بھارت کے لیے ممکن نہیں بلکہ وقت کے ساتھ یہ داغ اور بھی نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ پوری دنیا میں موجود سکھ ہر سال اس دکھ کو مظاہروں کی شکل میں یاد کرتے ہیں۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں سکھوں کے قتلِ عام کا جو سلسلہ جاری ہوا اُس کے خلاف بھی آج تک مظاہرے اور سیمینار ہوتے رہتے ہیں۔
پرانے کالم میں اندرا گاندھی پر بننے والی فلم اندو سرکار پر بھی بات ہوئی تھی‘ اس فلم کے ذریعے جو پہلو اجاگر کیے گئے دوبارہ اسی طرف چلتے ہیں۔ اس فلم کا بنیادی مدعا 1975ء میں اندرا گاندھی کی جانب سے لگائی جانے والی ایمرجنسی تھی جو 1977ء تک جاری رہی۔ یہ ایمرجنسی ہر طرح سے ایک سول حکومت کی جانب سے لگایا جانے والا مارشل لاء تھا۔ تمام بڑے اپوزیشن رہنماؤں پر کریک ڈاؤن کیا گیا‘ جو گرفتاری سے بچ گئے وہ بھیس بدل کر فرار ہو گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ بھارتی وزیراعظم مودی ایک سکھ کا روپ دھار کر فرار ہوئے تھے اور اسی بھیس میں پھرتے رہے۔ آپ یہ دلچسپ تصویر آج بھی انٹر نیٹ پر ڈھونڈ سکتے ہیں۔ اس ایمر جنسی میں اخباروں میں حکومت کے خلاف تمام خبروں کا بائیکاٹ کر دیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک اخبار نے گاندھی جی کا ایک قول چھاپنے کی کوشش کی جو جمہوریت کے متعلق تھا تو ایک پولیس والے نے اس کو اشاعت سے روکا‘ جس پر اخبار والے نے کہا کہ یہ تو گاندھی جی کا قول ہے تو پولیس والے نے ایک بہت معنی خیز فقرہ کہا کہ ''اب دیس میں گاندھی کے معنی بدل گئے ہیں‘‘۔ اس کے بعد اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ اس ایمرجنسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کاروباری لوگ روزمرہ استعمال کی اشیا کا ذخیرہ کرکے دولت کمانا شروع کر دیتے ہیں پھر ایمرجنسی کا مشورہ دینے والے سنجے گاندھی خود بھارت کے وزیراعظم بن جاتے ہیں۔ فلم میں سنجے گاندھی ایک موقع پر بھارت کے وزیراعظم بننے والے چندر شیکر کی‘ ایک مختصرتقریر میں بہت زیادہ بے عزتی کرنے کے بعد ان سے استعفے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔
اس فلم میں بھارت کی ایک اور ناکامی کو بھی فلمایا گیا ہے۔ وہ یوں کہ جس وقت یہ ایمرجنسی لگائی گئی اس وقت بھارت اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کی ایک کوشش بھی شروع کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بھارت میں ایک بھرپور مہم چلائی جاتی ہے۔ جس کے تحت سنجے گاندھی ایک ممبر پارلیمنٹ کے ذمے 350 مردوں کومنصوبہ بندی پر قائل کرنے کا ٹارگٹ بڑھا کر 700 کرتے دیتے ہیں۔ اس فلم کا علامتی ہیرو ایک موقع پر بھارت کی کل آبادی کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ ''ساٹھ کروڑ بھارتی حکومت کو گالی دینے کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور مر جاتے ہیں‘‘۔ واضح رہے کہ چین نے آبادی کنٹرول کرنے کی جو پالیسی 1979ء میں ''ایک جوڑا ایک بچہ‘‘ کی شکل میں اختیار کی تھی بلکہ نافذ کی تھی‘ وہ انتہائی کامیابی سے آگے بڑھائی جاتی رہی۔ یہ اسی کامیاب پالیسی کا نتیجہ ہے کہ اگلے دو سالوں میں چین کی آبادی بھارت سے کم ہو جائے گی۔ چینیوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ یہ آبادی کنٹرول نہ کرتے تو اس وقت چین کی آبادی میں پچاس کروڑ کا اضافہ مزید ہو چکا ہوتا اور چین دو ارب آبادی کا ملک بننے کے قریب پہنچا ہوتا۔ اس کے بعد اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ سنجے گاندھی دہلی شہر کے اندر ایک بڑی غریبوں کی بستی کو زبردستی ہٹا کر ایک عالی شان ہوٹل بنانے کی کوشش کرتے ہوئے اس آبادی کو بزور طاقت بے دخل کر دیتے ہیں۔ یہ علاقہ Turkman Gate کا تھا‘ جو انڈیا گیٹ اور لال قلعہ کے قریب ہے۔ اس موقع پر ایک فقرہ طاقت کے استعمال کے متعلق بولا جاتا ہے کہ ایمرجنسی میں Emotions کے بجائے صرف آرڈرز چلتے ہیں۔ غریبوں کی بستی خالی کروانے کی چکر میں مارے جانے والوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ نکسل ہاڑی تھے۔ اب اس سے یہ بھی پتا چلتا ہوتا ہے کہ بھارت میں نکسل وادی علیحدگی پسندوں کا معاملہ کتنا پرانا ہے اور کس طرح ان لوگوں کے نام پر دیگر لوگوں پر بھی ظلم کیا جاتا رہا ہے۔ یہ ایمرجنسی کس قدر آمرانہ تھی‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس دوران ایک لاکھ سے زیادہ لوگ جیلوں میں ڈالے گئے تھے۔
یہ نکسل ہاڑی وہ لوگ ہیں جو چین کے بانی لیڈر مائو زے تنگ کے ماننے والے ہیں۔ اسی لیے یہ لوگ ماؤسٹ (Maoist) بھی کہلاتے ہیں۔ اگر آپ ان کے بارے میں بھی جاننا چاہتے ہیں تو ایک فلم ریڈ الرٹ (Red Alert) کے نام سے موجود ہے۔ ریڈ یعنی سرخ کا لفظ اور جھنڈا یہ لوگ اس لیے استعمال کرتے ہیں کہ کمیونزم کا علامتی رنگ سرخ ہے جبکہ چین کے بانی بھی ایک کمیونسٹ ہی تھے۔ یاد رہے کہ گزشتہ کالم میں ہم نے پاکستان میں پولینڈ کے نائب وزیر خارجہ کا پاکستان کی دائیں بازو کی ایک جماعت کے سرگرم رکن کے ہاتھوں قتل کا ذکر کیا تھا۔ اُس فیروز نامی قاتل نے ایک لوڈر گاڑی ایک غیرملکی وفد پر چڑھانے کے بعد (جس میں دو صحافی فوٹو گرافرز سمیت تین پاکستانی بھی مارے گئے تھے) سوشل ازم مردہ بادکے نعرے بھی لگائے تھے۔ اسے یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا کہ سوشل ازم کفر کا نظام ہے‘ اس لیے اس نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ کس طرح ایک نظام یعنی سوشل ازم کو کفر سے تشبیہ دلوانے کے لیے امریکہ نے کتنی زیادہ فنڈنگ اور محنت کی ہو گی جبکہ علامہ اقبال نے سوشل ازم کو عین اسلامی معاشی اساس پر مبنی نظام قرار دیا تھا۔ اگر بھارت کے اندر جاری نکسل ہاڑیوں کی تحریک کو چین کی حمایت حاصل ہو گئی تو یہ بھارت کو خدشات کے بجائے خطرات سے دو چار کر سکتی ہے۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے تو یہ آج بھی ایک مکمل سوشلسٹ ملک ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ چین ہی ہے جس کی وجہ سے ایشیا ایک طاقت کے طور پر ابھرنے کے قابل ہوا ہے۔
اب واپس آتے ہیں اندو سرکار فلم کی طرف جس میں ایک جگہ ہیرو کہتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے نیچے جو گڑھے بنے ہیں وہ راتوں کو جاگنے کی وجہ سے نہیں بنے بلکہ ان خوابوں کی وجہ سے بنے ہیں جو اس نے ترقی کے لیے دیکھ رکھے ہیں۔ ارشد شریف نے بھی ملکی ترقی کے خواب دیکھ رکھے تھے‘ اُنہی خوابوں کی تعبیر کے چکر میں وہ قبر میں اتر گیا ہے لیکن بغیر حق حاصل کیے جینے سے حق پر مارا جانا کہیں زیادہ بہتر اور مقدم ہے۔