ڈپلومیسی سیاست کا ایک انتہائی نازک‘ باریک مگر مؤثر شعبہ مانا جاتا ہے۔ ڈپلومیسی کی ایک قدرے جدید اور انوکھی شکل کھیلوں کے مقابلے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران سوویت روس اور امریکہ ایک دوسرے کے ہاں ہونے والے اولمپکس مقابلوں کا مکمل بائیکاٹ کر دیتے تھے۔ امریکہ کے بائیکاٹ میں اس کے قریبی اتحادی ممالک بھی شامل ہوتے تھے یا انہیں مجبوراً بائیکاٹ کرنا پڑتا تھا۔ 1980ء کے اولمپکس مقابلے روس میں منعقد ہوئے تو آسٹریلیا، ہالینڈ، جرمنی (مغربی جرمنی) اور پاکستان کے بائیکاٹ کی بدولت بھارت بہ آسانی گولڈ میڈل جیت گیا تھا۔ آج کل کھیلوں کے میدان میں پاکستان اور بھارت میں صرف کرکٹ کا مقابلہ ہی باقی رہ گیا ہے۔ کرکٹ کے میچز کے دوران ہر شعبۂ زندگی کے لوگ اپنی اپنی ٹیم کی حمایت کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عام طور پر اس کا مقصد عوام میں حمایت یا شہرت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ کرکٹ کا کھیل دنیا میں بالعموم اور جنوبی ایشیاکی ایک ارب 75 کروڑ سے زائد آبادی میں بالخصوص ایک جنون کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ اس کا اندازہ آپ کرکٹ ڈپلومیسی کے اس زاویے سے لگا سکتے ہیں کہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے موقع پر پاکستان میں جرمنی اور برطانیہ کے سفیروں کی جانب سے باقاعدہ طور پر پاکستان کی حمایت سے متعلق بیانات جاری کیے گئے۔ حالانکہ جرمنی میں کرکٹ کا کھیل نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن جرمن سفیر نے سپورٹس ڈپلومیسی کا یہ موقع خالی نہیں جانے دیا۔ واضح رہے کہ انہوں نے فائنل کے موقع پر گرین شرٹ پہن کر پاکستان کی ٹیم کو سپورٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
کرکٹ ڈپلومیسی اپنا ایک جداگانہ اوراہم مقام رکھتی ہے۔ اس کا سب سے پہلا اور باضابطہ استعمال سابق صدر ضیاء الحق نے دورۂ بھارت میں کیا تھا جب وہ بن بلائے ایک کرکٹ میچ دیکھنے کیلئے بھارت جا پہنچے اور راجیو گاندھی سے ملاقات کر کے اپنا موقف بھرپور انداز میں پیش کر کے بھارت کو کسی بھی قسم کی ممکنہ جارحیت سے روکنے میں کامیاب رہے۔ اس کے علاوہ ان کے ایک قریبی پالیسی میکر نے ایک دفعہ یہ انکشاف کیا تھاکہ صدر ضیا نے اپنے دور میں مشہور ٹی وی ڈراموں اور لمبی لمبی کرکٹ سیریز سے عوام کا دھیان بھٹکائے رکھا۔ 1965ء کی جنگ کے بارے میں ایک بھارتی مصنف نے لکھا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نے مقامی مخدوش حالات سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان پر حملہ کیا‘ اس وقت بھارت میں کرکٹ زیادہ مقبول نہ تھی ورنہ شاید وہ آئی پی ایل کی طرز پر کسی لمبے کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کرا لیتے۔ اسی طرح بھارتی سیاست میں فلمی ستاروں کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کو بھی الیکشن کمپین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن ایک سروے کے مطابق‘ کرکٹ کے ستاروں کی چمک فلمی ستاروں سے کہیں زیادہ ہے۔ چونکہ بھارت کو انٹر نیشنل کرکٹ میں سب سے زیادہ پذیرائی ملتی ہے عین اسی طرح جیسے امریکہ کو یو این فورمز میں خصوصی مقام ملتا ہے‘ تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آئی سی سی کی فنڈنگ میں سب سے زیادہ حصہ بھارت کی جانب سے ڈالا جاتا ہے۔ بھارت میں منعقدہ کسی بھی کرکٹ ٹورنامنٹ کی وجہ سے انٹرنیشنل کمپنیوں کو اپنی اشیا بیچنے کیلئے دنیا کی دوسری بڑی مارکیٹ میسر آ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت سے تین دفعہ مس ورلڈ کا انتخاب ہونے میں بھی لگ بھگ ڈیڑھ ارب آبادی میں کاسمیٹکس کی اشیا کو بیچنے کا ایک پوشیدہ عنصر شامل تھا۔ بھارت کی بات آئی سی سی میں سب سے زیادہ مانی جاتی ہے‘ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئی پی ایل ٹورنامنٹ‘ جو بھارت کا خالصتاً مقامی نوعیت کا ٹورنامنٹ ہے‘ کے دوران کوئی بھی بڑی انٹرنیشنل کرکٹ سیریز منعقد نہیں کی جاتی۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے بزنس ٹائیکون کیری پیکر نے 1970ء کی دہائی میں دنیا کے تمام بڑے بڑے کھلاڑیوں کو اپنے ہاں بلوا کر میچز کروائے تھے اور یوں کھیلوں میں پیسوں کی طاقت کو منوایا تھا۔ بھارت کے علاوہ سری لنکا، بنگلہ دیش، برطانیہ اور ویسٹ انڈیز بھی مقامی نوعیت کے ٹی ٹونٹی ٹورنامنٹس کا انعقاد کرا چکے ہیں جس سے کرکٹ میں پیسے کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔
کرکٹ کا کھیل سیاست میں بھی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ بھارت اس کی ایک واضح مثال ہے جو پاکستان کے ساتھ اپنی سیاسی کشیدگی کا بدلہ کھیلوں کے میدان میں اس طرح لیتا ہے کہ وہ آئی پی ایل جیسے ٹورنامنٹس میں کسی بھی پاکستانی کھلاڑی کو کھیلنے کا موقع نہیں دیتا۔ اسی طرح 1980ء کی دہائی میں پاکستان کی ٹیم نے سری لنکا کا دورہ کیا‘ باوجود اس کے کہ وہاں پر تامل علیحدگی پسندوں کی تحریک زوروں پر تھی اور خودکش دھماکے ایک معمول بن چکے تھے۔ اس سیریز کے دوران امپائرنگ کا معیار انتہائی ناقص ہونے کی وجہ سے ایک مقام ایسا بھی آیا کہ محسوس ہوا شاید پاکستان یہ سیریز منسوخ کر دے مگر پاکستانی حکومت نے اپنا اثرو رسوخ بلکہ اتھارٹی بھی استعمال کی اور اس سیریز کو جاری رکھا۔ یوں سری لنکا میں کرکٹ کے فروغ میں پاکستان کا بڑا کردار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سری لنکا کے پرانے کھلاڑی بالخصوص جے سوریا مسلسل پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے حق میں بیانات دیتے رہے ہیں۔ کرکٹ کے ذریعے اپنا نام اور مقام پیدا کرنے کے حوالے سے پاکستان سپر لیگ نے ایک اہم سفارتکار کا کردار ادا کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی اجارہ داری کو بیلنس کرنے کے لیے چین میں کرکٹ لیگ کا انعقاد اور چین کی کرکٹ ٹیم بنانا ایک مؤثر قدم ہو سکتا ہے۔ تقریباً ایک سال پہلے اس طرح کی ایک‘ دو خبریں سامنے بھی آئی تھیں۔ اگر چین اس طرح کا کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اس کو پاکستان میں سپورٹس ڈپلومیسی کا ایک بڑا موقع میسر آ سکتا ہے ۔اس طرح 'دوستی کے رشتے کھیلوں کے ناتے‘کا نعرہ مزید استحکام پکڑ سکتا ہے۔ اگر مقامی سطح کی سیاست کو دیکھا جائے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کرکٹ میں عمران خان کی شہرت ہی انہیں کھیل سے میدانِ سیاست میں لے کر آئی۔ کرکٹ کے میدان میں عمران خان نے ایسی ایسی کامیابیاں سمیٹیں کہ آج تک وہ ریکارڈ نہیں توڑے جا سکے۔ سب سے بڑی مثال 1992ء کا ورلڈ کپ ہے۔ کرکٹ ایک جنون ہونے اور پوری قوم کے لیے یکساں دلچسپی کا کھیل ہونے کے باوجودپاکستان ابھی تک دوسرا ورلڈ کپ نہیں جیت سکا ہے۔ یہ یقینا عمران خان کی ایک بڑی کامیابی تھی جس نے انہیں ایسی شہرت دی کہ آج تک اس کا توڑ نہیں کیا جا سکا۔ اب تو کہا جاتا ہے کہ ورلڈ کپ کے فاتح کپتان‘ عمران خان پاکستان کی سیاست میں ایک چوک یا چوراہے کی طرح ہو چکے ہیں‘ مطلب پاکستان کی ساری سیاست کو اسی چوک یا چوراہے سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ بات یہاں تک آ چکی ہے کہ عمران خان مقبولیت میں بھٹو کا ریکارڈ بھی توڑ چکے ہیں۔
اب بات حالیہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کی ہو جائے جس میں سیمی فائنل میں بھارت کو انگلینڈ کے ہاتھوں دس وکٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، جو یقینا ایک عبرتناک شکست ہے۔ یہ بھارت کی ورلڈ کپ میں دس وکٹوں سے دوسری شکست تھی۔ اس سے قبل گزشتہ سال ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں بھارت کوپاکستان کے ہاتھوں دس وکٹوں سے شکست کا سامناکرنا پڑا تھا۔پاکستان نے فائنل میں کم سکور کے باوجود نہایت عمدہ طریقے سے دفاع کیااور اس طرح ایک اچھا فائنل مقابلہ دیکھنے کو ملا۔ بعض افراد کا ماننا ہے کہ اگر پاکستان یہ کپ جیت جاتا تو شایدعمران خان کا سحر کچھ کم ہوجاتا بلکہ کچھ عرصے کیلئے پاکستان کی سیاست کا شور شرابہ بھی اس جیت کے نیچے دب جاتا کیونکہ ٹیم کے تاریخی استقبال سے لے کر سبھی تقریبات اور میڈیا شوز کا ایک ہی موضوع ہونا تھا‘ کرکٹ اور بس کرکٹ۔ پاکستان اور بھارت پتا نہیں کب اپنے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دیں گے۔ کرکٹ کی جیت جیسی چیزوں کو ایک مصنوعی غذا کہا جاتا ہے جس سے لوگ کچھ دنوں کیلئے تمام مسائل بھول کر ایک مصنوعی خوشی میں کھو جاتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں ماحولیاتی مسائل اب ایک عفریت بن چکے ہیں۔ اتوار کی رات اور سوموار کی صبح پڑنے والی ہلکی پھوار دونوں ممالک کیلئے ورلڈ کپ سے کہیں زیادہ اہم تھی۔ جتنے بادل تقریباً بیس گھنٹے تک دونوں ملکوں پر چھائے رہے‘ اگر ان کو برسانے کیلئے مصنوعی بارش کا اہتمام ہو جاتا تو دونوں قوموں کو اصل غذا (صاف ہوا) میسر آ سکتی تھی۔