یونیورسٹی پروفیسر کو نصیحت (Advice to a University Professor) کے نام سے ایک تحریر بہت معنی خیز اور مشہور ہے۔ انگریزی کی اس تحریر میں یونیورسٹی پروفیسر کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے طالب علموں کے ساتھ اُن کی علمی لیاقت کے اعتبار سے پیش آئیں۔ اس تحریر میں طالب علموں کو اے سے ڈی تک مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔
سب سے پہلے اے گریڈ سٹوڈنٹس آتے ہیں‘ ان کے بارے میں استادکو باور کرایا گیا ہے کہ مستقبل میں اُن میں سے کوئی ایک آپ کاColleague بھی ہو سکتا ہے یعنی اس چیز کا قوی امکان موجود ہوتا ہے کہ یونیورسٹی میں ٹاپ کرنے والے طالب علم کو وہیں بحیثیت استاد متعین کر دیا جائے۔ بی گریڈ طالب علم سے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مستقبل کے افسر یعنی بیوروکریٹ ہو سکتے ہیں اور ترقی پذیر ممالک میں یہی ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں۔ سی گریڈ طالب علم زیادہ تر کاروباری بنتے ہیں اور ہو سکتا ہے آپ کو مستقبل میں ان کے پاس اپنے کسی طالب علم یا ادارے کی مالی مدد کے لیے جانا پڑے۔ سب سے آخر میں آنے والے ڈی گریڈ یعنی سب سے کم نمبر لینے والے طالب علموں سے متعلق آپ کی توقع سے زیادہ چونکا دینے والا فقرہ درج ہے‘ جو در اصل ایک انتباہ ہے:
Beware! They can be future students.
یہ تحریر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں پنجاب فارسٹ ڈپارٹمنٹ کے سیکرٹری لیول کے افسر ڈاکٹر افضل صاحب نے اس وقت کے وزیر ماحولیات آصف علی زرداری کی موجودگی میں پڑھی۔ ان دنوں پہلی دفعہ ماحولیات کے حوالے سے بہت شور مچا تھا اور یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا جا رہا تھا۔ پاکستان میں اس وزارت کو بہت ''کماؤ‘‘ وزارت سمجھا جاتا تھا جو بعد میں صحیح بھی ثابت ہوا کیونکہ درخت لگانے کے لیے جو شجر کاری مہم شروع کی جاتی تھی‘ اس کا کسی بھی سطح پر کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہوتا تھا کہ اس مہم میں کتنے درخت لگے اور جو لگے وہ بھی محفوظ بھی ہیں یا اکھاڑ دیے گئے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ آج شہید بی بی کے اُس دور کو گزرے اڑھائی دہائیاں ہونے کو ہیں اور ہمارے ہاں ماحولیات کا جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
ہم اس سے پہلے کئی کالموں میں ذکر کر چکے ہیں کہ لاہور میں زیر زمین صاف پانی 400 فٹ تک کھدائی کرنے پر بھی میسر نہیں کیونکہ حالیہ کچھ برسوں میں ماحولیات کو پہنچنے والے بے تحاشا نقصان کی وجہ سے زیر زمین پانی بھی آلودہ ہوا ہے۔ کبھی یہ پانی محض سو فٹ کی گہرائی پر ہی میسر ہوتا تھا۔ قارئین! کبھی زندگی گزارنے کے لیے روٹی‘ کپڑا اور مکان ضروری تھے اسی لیے شاید پیپلز پارٹی نے روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا لیکن آج پینے کا صاف پانی‘ سانس لینے کے لیے صاف ہوا اور جان بچانے والی ادویات زندگی گزارنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہو چکی ہیں لیکن کوئی اس طرف توجہ دینے کو تیار نہیں۔ انسان کی سب سے بنیادی ضرورت ہونے کی وجہ سے پانی کو مستقبل کا تیل ( oil of the future) بھی کہا جا رہا ہے۔ وطن عزیز مگر دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اب بھی ڈیم بنانے کی مخالفت کی جاتی ہے حالانکہ یہ ڈیم پانی ذخیرہ کرنے اور سیلابوں کے خطرات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ سستی بجلی بھی پیدا کرتے ہیں۔ جمہوری حکومتوں میں تو ویسے بھی بڑے ڈیموں کی تعمیر پر اتفاق رائے ہونا نا ممکن ہے لیکن دورِ آمریت میں یہ کام طاقت کے بل پر بھی کروایا جا سکتا تھا لیکن بد قسمتی سے کسی بھی دور میں ایسا نہ ہو سکا۔ کالا باغ ڈیم اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔
اب آئیے موجودہ صورتحال کی طرف؛ پاکستان اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں مسلسل پانی کی کمی ہو رہی ہے۔ اس کمی کا شکار سب سے زیادہ کراچی شہر ہوا ہے جہاں پینے کا صاف پانی ناپید ہو چکا ہے۔ پورا شہر سیمنٹ اور لوہے سے بنے پلازوں کا وہ جنگل بن چکا ہے جس کی پانی کی دستیابی کے حوالے سے حالت ایک صحرا سے بھی بری ہے۔ کتنا تعجب خیز امر ہے کہ کراچی میں ایک طرف تو پینے کا پانی ناپید ہے لیکن دوسری طرف جب کبھی وہاں بارش ہو جائے تو اس کے پانی کو سنبھالنے کا کوئی بندوبست موجود نہیں ہے۔ اس پانی کی نکاسی بھی ناممکن ہو جاتی ہے۔ جس پانی کو کنٹرول کرکے آبِ زر بنایا جا سکتا ہے اس میں کہیں انسان ڈوب رہے ہوتے ہیں اور کہیں یہ بیماریاں پھیلا رہا ہوتا ہے۔ پختہ سڑکیں زمین کو ''ری فل‘‘ بھی نہیں ہونے دیتیں۔ مجوزہ وجوہات میں وطن عزیز کی آبادی میں سالانہ 35 لاکھ افراد کا اضافہ جو کہ بھارت اور چین کے بعد دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ دوسری طرف ٹمبر مافیا کی وجہ سے ملک میں جنگلات میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ پاکستان اپنے قیام کے وقت بمشکل ساڑھے تین کروڑ آبادی کا ملک تھا اور اُس وقت دنیا میں 14ویں نمبر پر تھا اور اب 23کروڑ کی حد عبور کر چکا ہے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ پوری دنیا آبادی میں اضافے کو صفر کی شرح پر لانے کی کوشش کر رہی ہے اور تمام ترقی یافتہ ممالک یہ ہدف حاصل کر چکے ہیں‘ اس سلسلے میں سب سے بڑی کامیابی چین نے حاصل کی جس نے 1979ء سے لے کر 2016ء تک ایک جوڑا ایک بچہ کی پالیسی کے تحت 40 کروڑ کی آبادی کو قابو کیا۔ یعنی اگر وہ ایک بچہ کی پالیسی بلکہ قانون لاگو نہ کرتے تو ان کی آبادی میں مزید چالیس کروڑ کا اضافہ ہو چکا ہوتا۔ مگر یہ سب ان کی اے گریڈ قیادت کی عملی ذہانت سے ممکن ہوا۔بات ہو رہی تھی وطن عزیز میں قدرتی ماحول اور پانی کی‘ تو قارئین کرام! ذرا غور کریں شہر میں کسی دکان سے آپ 100 روپے کی پانی کی بوتل‘ جس کے معیار کی کوئی ضمانت نہیں‘ خریدتے ہیں جبکہ گاؤں میں 100 روپے میں ایک لٹر خالص دودھ میسر ہوتا ہے اور تو کہیں اس سے بھی کم قیمت پر۔ گویا شہروں کی زندگی کتنی ظالم‘ مہنگی اور آلودہ ہو چکی ہے جسے مختصراً ڈی گریڈ کہا جا سکتا ہے۔
اب بات لاہور شہر کی‘ جس کا میں خود بھی مقروض ہوں‘ اسی شہر کی ایک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک پروفیسر کے طور پر یہیں کام کر رہا ہوں۔ اسی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی تحریر بارہا میرے ذہن کی پرتوں سے ٹکراتی ہے کہ لاہور شہر کیا سے کیا ہو گیا ہے اور کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے لے کر مال روڈ تک کا فاصلہ چھ کلو میٹر بنتا ہے‘ ہم کبھی نہر کے کنارے صبح و شام دوڑ لگایا کرتے تھے۔ اب اگر یہ بات طالب علموں کو بتاؤں تو وہ دو وجوہات سے اس پر یقین نہیں کرتے۔ اول‘ وہ کہتے ہیں کہ بارہ کلومیٹر کی دوڑ کس طرح لگا لیتے تھے آپ‘ اور وہ بھی نہر والی سڑک پر؟ اس پر ان کو یقین دلانا پڑتا ہے کہ اگر آپ بھی کوشش کریں تو یہ بارہ کلومیٹر کی دوڑ لگا سکتے ہیں اور دوسری بات کا آپ خدارا یقین کریں کہ اُس وقت‘ 1990ء کی دہائی میں‘ نہر کے ارد گرد کا ماحول قدرے صاف ہوتا تھا اور صبح کے وقت ٹریفک نہ ہونے کی وجہ سے یہ ماحول انتہائی صحت مند بھی ہوتا تھا۔ اب یہ وقت آن پہنچا ہے کہ آپ دن کے کسی بھی وقت‘ کسی گرائونڈ میں جاکر بھی صاف ہوا میں سانس نہیں لے سکتے۔ وجہ انتہائی زہریلی دھند‘ جو سموگ کے نام سے ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ باقی سیاسی قیادت خواہ کسی بھی پارٹی کی ہو‘ صوبائی ہو یا وفاقی‘ اس کی ترجیحات سے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ وہ اس عفریت پر قابو پانے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہیں۔ اس حساب سے تو ان کا گریڈ ایف یعنی فیل ہی بنتا ہے بلکہ کئی سالوں سے بن چکا ہے۔