قطر نے سب کچھ کیسے جیتا

''آج کے دن کے یہ لمحات تاریخ کے لحاظ سے ناقابلِ فراموش ہیں‘‘۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو فٹ بال ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل کے مرحلے میں مراکش اور پرتگال کے میچ کے اختتامی لمحات میں کمنٹیٹر بول رہا تھا۔ اس کے بعد پوری دنیا نے نا قابلِ فراموش لمحات دیکھے جب مراکش کی ٹیم میچ جیت کر پہلی بار سیمی فائنل میں پہنچ گئی۔ اس کے بعد کہا گیا کہ ''سیاست، کلچر اور جغرافیہ سمیت سب کچھ اس جیت میں شامل ہے کیونکہ ایک عرب افریقی ٹیم پہلی دفعہ اس مقام تک پہنچی ہے‘‘۔ اس کے بعد فاتح ٹیم نے اپنی جیت کا جشن مناتے ہوئے ایک عجیب سماں باندھ دیا۔ ان مناظر کے علاوہ بھی‘ اس فٹ بال ورلڈکپ کو قطر نے سفارتی محاذ پر انتہائی بھرپورطریقے سے استعمال کرتے ہوئے مسلم ورلڈ سمیت پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ صرف تیس لاکھ آبادی والے جزیرہ نما چھوٹے سے ملک نے بجا طور پرمسلم ثقافت کا مقدمہ دنیا کے چوٹی کے میڈیا کے سامنے انتہائی خوبصورت طریقے سے پیش کیا۔ بالخصوص اسلامو فوبیا کا تاثر زائل کرنے کیلئے قطر نے بڑی خوبصورت کوششیں کیں اور پوری دنیا سے آئے ہوئے شائقینِ فٹ بال بالخصوص عالمی میڈیا کو‘ جو اولمپکس کے بعد کھیلوں کے دوسر ے سب سے بڑے ایونٹ کے ہر لمحے کی کوریج کے لیے قطر میں موجود ہے‘ حیران کر کے رکھ دیا۔
قطر شراب پر پابندی‘ اسلامی عبادت گاہوں کو ایک ٹورسٹ مقام کے طور پر کھولنے، افتتاحی تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن مجید سے کرنے اور خاص طور پر اس اہم موقع پر ایک ایسے معذور بچے کو‘ جو ایک معجزاتی زندگی گزار رہا ہے‘مہمانِ خصوصی کے طور پر پیش کر کے دنیا کو پہلے ہی بہت سارے مثبت پیغامات دے چکا ہے۔ شراب پر پابندی کے فیصلوں کو اگرچہ کئی طبقات نے خاصی تنگ نظری کے ساتھ دیکھا مگر میچ دیکھنے کے لیے آنے والی خواتین نے اس فیصلے کو بہت زیادہ سراہا ہے کیونکہ بد مست کر دینے والے اس مشروب پر پابندی کے سبب شائقین بالخصوص خواتین کے ساتھ کوئی بد تمیزی نہیں کرتا۔ شاید یہ اسی پابندی کا اثر ہے کہ کئی بڑی ٹیموں کے میچ ہارنے کے باوجود ابھی تک کوئی ہلڑ بازی یا لڑائی والا منظر دیکھنے کو نہیں ملا۔ یہ ورلڈ کپ اس حوالے سے بہت خاص ہے کہ اس نے مسلم دنیا کو ایک جگہ اکٹھا کر کے ایک دوستانہ ماحول پیدا کیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ایران کی ٹیم کی ورلڈ کپ میں شمولیت تھی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی ٹیم کی شرکت اور ایک میچ میں ارجنٹائن جیسی فیورٹ ٹیم کے خلاف غیر متوقع جیت نے سعودی عوام کو ایک نیا ولولہ اور پہچان دی۔ مراکش کی ٹیم نے ہر میچ میں اپنی جیت کے بعد فلسطین کا پرچم لہرا کر اپنی فتوحات کو اس مظلوم قوم کے نام کیا۔ یہ بلا شبہ ایک بڑی بات ہے۔
اس ورلڈ کپ سے پہلے تک پوری دنیا میں عرب خطے کے حوالے سے یہی تصور پایا جاتا تھا کہ یہ ایک قدیم طرز کا معاشرہ ہے۔ اس میں سختیاں اور بندشیں ہیں اور تفریح یاجدید طرزِ زندگی کی کوئی سرگرمی نہیں ہوتی لیکن اس ورلڈ کپ نے ان تمام خیالات کو رد کر دیا ہے۔ شائقین میں خواتین کو برابر کی سطح پر شمولیت کا موقع مل رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ خواتین زیادہ تحفظ محسوس کر رہی ہیں۔ ان شائقین میں مسلم دنیا کی خواتین بھی شامل ہیں۔ مسلم دنیا کی سب سے بڑی ترجمانی ایک مراکشی کھلاڑی نے اس وقت کی جب پرتگال کو میچ میں شکست دینے کے بعد اس نے اپنی والدہ کے ساتھ والہانہ انداز میں رقص کیا۔ مراکشی کھلاڑی کا اپنی جیت کو اپنی والدہ کے ساتھ منانا ایک عام بات نہیں ہے۔ بھلے ہمارے جیسے ملکوں میں اس کی زیادہ اہمیت نہ ہو مگر اس چھوٹے سے واقعے میں ایک بہت خاص بات اور پیغام پوشیدہ ہے۔ مراکش کے کھلاڑی کا میچ جیت کر اپنی والدہ کے ساتھ خوشی منانا کیا معنی رکھتا ہے‘ یہ بات مغرب کی ان مائوں سے پوچھیں جو اولڈ ہومز میں اکیلی بیٹھیں‘ اپنی اولاد کے درشن کو ترستی رہتی ہیں۔
حقوقِ نسواں کی مہم کو اپنا عقیدہ سمجھنے والی مغربی دنیا ایک بات کو یکسر نظر انداز کر دیتی ہے کہ ان کے اپنے ہاں عورتوں کے حقوق کی سب سے بڑی نفی ہوتی ہے اور سب سے زیادہ جن عورتوں کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں وہ عمر رسیدہ خواتین یعنی مائیں ہیں‘ وہ مائیں جو اپنے بچوں کے بالغ ہوتے ہی ان کے لیے ایک انجان حیثیت اختیا رکر لیتی ہیں۔ اس اجنبیت سے پہلے اکثر مائیں اپنے شوہروں سے علیحدہ ہو چکی ہوتی ہیں۔ مغربی ممالک کا اپنا ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ یورپی معاشروں میں بیشتر مائیں ''سنگل پیرنٹ‘‘ کے طور پر اپنے بچوں کو بلوغت تک پالتی ہیں اور بچوں کے جوان ہوتے ہی وہ اپنے بچوں کیلئے اجنبی بن جاتی ہیں۔ آپ مغرب میں ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں کے موقع پر جیت کے بعد کھلاڑیوں کو جشن مناتے دیکھ چکے ہوں گے۔ زیادہ تر کھلاڑی آپس میں یا زیادہ سے زیادہ اپنی بیوی‘بچوں یا پھر گرل فرینڈ کے ہمراہ خوشی مناتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا موقع ہو جب کسی مغربی کھلاڑی نے اپنی ماں کے ساتھ اپنی جیت کا جشن منایا ہو۔ اس لیے اس ورلڈکپ نے مغربی ممالک کی ان مائوں کا دل جیت لیا ہو گا، جنہوں نے میچ کے بعد جیت کی خوشی منانے کے یہ منفرد مناظر ٹی وی سکرینوں یا پھر سوشل میڈیا پر دیکھے۔ مراکش کی جیت کے بعد کے مناظر دراصل پوری دنیا کی مائوں کی جیت ہے۔
1990ء کی دہائی میں ایک 'یکطرفہ نظریہ‘ تہذیبوں کے تصادم کے نام سے پیش کیا گیا مگر اس کی آڑ میں مسلم دنیا یا تہذیب کو ایک ایسی تہذیبی جنگ کا سامنا کر نا پڑا جو آج بھی جاری ہے۔ اس جنگ کے تحت مسلم دنیا کی ثقافت کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ قطر میں ہوئے فٹ بال ورلڈکپ نے اس نظریے کوغلط ثابت کرنے میں بھی مدد فراہم کی ہے۔ قطر کا ماحول یہ بتا رہا ہے کہ اسلام صرف مسلمانوں کا‘ چند مذہبی رسوم و رواج پر مبنی مذہب نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کے لیے فلاح کا راستہ ہے۔ فٹ بال میچز کے موقع پر بہت ساری جگہوں پر اسلام کی تبلیغ کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ اسلامی افکار، نظریات، عقائد اور دیگر متعلقہ لٹریچر کو دیگر زبانوں میں ترجمہ کر کے آنے والے مہمانوں کو پیش کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس اقدام کے سبب بہت سارے لوگوں نے اسلام میں نہ صرف دلچسپی ظاہر کی بلکہ اس دین کو اپنا بھی لیا۔ پورے قطر میں اسلامی احکامات دیواروں اور بل بورڈز وغیرہ پر لکھے گئے اور لوگوں کی بڑی تعداد مساجد کا دورہ کرتی بھی نظر آئی۔
یہاں ایک بات کا مجھے بہت شدت سے احساس ہو رہا ہے۔ اگر ایک چھوٹی سی تحریر کو‘ جو حقوقِ نسواں اور فیمنزم سے متعلق ہے‘ ایک کتابچے کی شکل میں شائع کر دیا جاتا اور جس میں یہ بتایا جاتا کہ تاریخِ انسانی اس بات کی شاہد ہے کہ عورتوں کو مردوں کے مقابل برابر حقوق دینے والا منشور سب سے پہلے اسلام نے پیش کیا تھا‘ توسوچیے کیسا ہوتا۔ اس کتابچے میں یہ بھی بتایا جاتا کہ اسلام نے عورتوں سے متعلق اپنا جامع منشور آج سے چودہ سو سال قبل‘ 6مارچ 632ء کو خطبۂ حجۃ الوداع میں پیش کیا تھا اور یہ منشور اس خطبے کے ذریعے مکمل ہو گیا تھا۔ یہ منشور تعلیم کو عورت کے لیے لازم قرار دیتا ہے‘ وہی حقِ تعلیم جس کے لیے مغرب کی عورت کو ایک طویل تحریک چلانا پڑی تھی۔ اس منشور میں بتایا گیا کہ انسان کا سب سے اعلیٰ مقام جنت ہے اور وہ جنت انسان کی ماں کے پائوں تلے ہے۔ اس منشور نے دنیا میں سب سے پہلے عورت کو وراثت میں حصہ دار قرار دیا۔ اس منشور نے پوری انسانی تاریخ کے خود ساختہ تصور کو یکسر رد کر دیا جس کے تحت انسانی نسل یا شجرہ چلنے کا ذریعہ صرف بیٹے کو قرار دیا جاتا تھا۔ اس منشور نے بوڑھے والدین کی ناگوار باتوں پر اُف تک نہ کرنے کا حکم دیا۔ اس منشور ہی نے یہ حکم دیا کہ ہر مرد پر تین چوتھائی حق اس کی ماں کا ہے۔
اگر قطر والے ایسی کوئی تحریر تقسیم نہیں کر سکے تو بھی مراکش کے کھلاڑی نے اپنی زندگی کی ایک اہم ترین خوشی اپنی ماں کے ساتھ منا کر یہ بات عملی طور پر ثابت کر دی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں