سقوط نہیں تخریبِ ڈھاکہ

''شیخ مجیب ہر طرح سے سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے رابطے میں تھا اور بنگلا دیش بنانے کا مشن پورا کرنے کے بعد بنگلا آرمی میں موجود سوویت یونین کے ایجنٹوں نے شیخ مجیب کو قتل کر دیا‘‘۔ یہ تاریخی الفاظ جنوبی ایشیا بالخصوص بھارت اور مشرقی پاکستان کے امور کے انچارج اور بھارت کے اندر موجود رہنے والے سابقہ سوویت یونین کے ایک جاسوس Yuri Bezmenovکے ہیں۔ وہ مزید کہتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک مکمل طور پر سوویت یونین نے شروع کی اور پروان چڑھائی اور اس خطرناک مشن کو مکمل کرنے کے لیے ہر طرح کی زمینی مدد بھارت نے کی تھی۔ بھارت کے راستے مشرقی پاکستان کے اندر کلاشنکوف اور دیگر اسلحہ جن صندوقوں کے اندر جاتا تھا‘ ان کے اوپر اشاعتی مواد لکھا ہوتا تھا۔ سب سے بڑھ کر وہ یہ انکشاف بھی کرتا ہے کہ اس تخریبِ ڈھاکہ میں امریکہ کی مکمل ہاں اور حمایت بھی شامل تھی۔
پاکستان جب دنیا کے نقشہ پر بلحاظِ آبادی‘ مسلم ممالک میں اس وقت کے سب سے بڑے مسلم ملک انڈونیشیا کے تقریباً برابر‘ ایک بڑے ملک کی حیثیت سے ابھرا تو پوری دنیا بالخصوص دو بڑی طاقتوں کو کھٹکا۔ یہ دو بڑی طاقتیں سوویت یونین اور امریکہ باہم سرد جنگ کی شکل میں برسر پیکار تھیں۔ ان کے مابین کمیونزم کو لامحدود اور مسدود کرنے پر سرد جنگ جاری تھی۔ روس اس اشتراکی نظام کو پھیلانا چاہتا تھا جبکہ امریکہ اس کو روکنا چاہتا تھا۔ ایسے میں پاکستان کا اسلامی نظریے کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر ابھرنا اور بالخصوص اسلام کے نام پر قائم ہونا‘ ایک تیسرے نظام کے تعارف کے طور پر لیا گیا‘ اس لیے پاکستان کو اپنے قیام کی ابتدا سے ہی ایک طرف سپرپاورز کی مخالفت کا سامنا تھا تو دوسری طرف ہمسایہ ملک بھارت کی بھی شدید مخالفت درپیش تھی جو کسی بھی طرح پاکستان کو واپس بھارت میں ضم کرنے کا خواہش مند تھا تاکہ اکھنڈ بھارت کی تکمیل ہو سکے۔ مشرقی پاکستان جنوب مشرقی ایشیاء کے زیادہ قریب تھا‘ یوں امریکہ نے پاکستان کو سیٹو کا ممبر بنایا۔ سیٹو کا مقصد کمیونزم کو جنوب مشرقی ایشیاء میں پھیلنے سے روکنا تھا۔ دوسری جانب اندرونی طور پر پاکستان میں 1950ء سے 1957ء تک کئی وزیراعظم آئے اور گئے۔ ملک کا پہلا آئین 9سال کی تاخیر سے 1956ء میں بنا۔ یہ دونوں باتیں اس دور کے سیاسی بحران کی غماز تھیں۔ اس کے ساتھ ہی ایوب خان کے مارشل لاء اور آمریت نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو مخالفت کا ایک اور موقع اور وجہ فراہم کر دی۔
اگلا فیکٹر معاشی ہے‘ ایک تو روزِ اول سے ہی پاکستان کو بھارت کی طرف سے قومی دولت کا حصہ پورا نہیں دیا گیا اور دوسری طرف بھارتی جنگی جنون نے پاکستان کو قومی بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر لگانے پر مجبور کر دیا۔ شروع میں پاکستان 65سے 70فیصد تک بجٹ دفاع پر لگانے پر مجبور تھا‘ اس لیے معیشت اور عوام کے حصے میں بہت کم وسائل آتے تھے۔ معاشی بحران سے دوچار ایک غریب ملک میں جمہوریت یا حکومت تو کجا ایمان بچانا تک مشکل ہو جاتا ہے۔ معاشی بدحالی کے شکار مشرقی پاکستان کے لوگوں میں بھارت کی طرف سے یہ پراپیگنڈا کیا جاتا تھا کہ غربت کی وجہ مغربی پاکستان ہے۔ اس پراپیگنڈا کی زد میں آنیوالے مفلوک الحال لوگوں کو بھارت کی طرف سے نہ صرف اسلحہ بلکہ جنگی تربیت اور پر کشش معاوضہ بھی دیا جاتا تھا۔ بھارت اس سے قبل 1962ء میں چین کے ہاتھوں جنگ میں شکست کھانے کے بعد اور بڑا علاقہ گنوانے کے بعد‘ 1965ء کی جنگ میں پاکستان کے ہاتھوں امریکہ اور برطانیہ کی مداخلت کی وجہ سے بمشکل بچنے کے بعد اپنے عوام کا اعتماد مکمل طور پر کھو چکنے کی وجہ سے بھی پریشان تھا۔ اس وجوہات کی بنا پر بھی بھارت کی طرف سے مشرقی پاکستان میں تخریبی عمل کو بڑھایا گیا۔ واضح رہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد‘ اندرا گاندھی اس سانحہ کو لے کر اپنی فتح کا کھوکھلا پر چار کرکے اپنی عوام کی جذباتی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی‘ جو چند سال تک اس کی کام بھی آئی۔
بھارت کو مشرقی پاکستان میں اپنا عمل دخل بڑھانے‘ در اندازی کرنے اور شر پھیلانے کا موقع اس لیے بھی ملتا تھا کہ بنگلہ دیش کی سرحد تین اطراف سے صرف انڈیا سے ہی ملتی ہے جبکہ چوتھی سمت صرف سمندر ہے۔ اس لیے بھارت مشرقی پاکستان کا واحد پڑوسی ملک تھا۔ اس کے علاوہ بھارت کا پہلا وزیراعظم جو کہ17سال وزیراعظم رہا جی ہاں! جواہر لال نہرو 1963ء تک بھارت کا وزیراعظم رہا اور یوں بھارت میں برسر اقتدار ایک ہی فرد کو بھرپور موقع ملا کہ وہ نفرت اور شدت پسندی کو بنیاد بنا کر مشرقی پاکستان میں پورے جنون کے ساتھ پاکستان کی تعمیر کو تخریب میں بدل سکے جس کا سب سے بڑا مظہر مکتی باہنی کی تحریک اور بھارتی سر زمین کا سوویت یونین کے ہاتھوں استعمال ہے۔ گزشتہ سال بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے برملا اور فاتحانہ انداز میں دعویٰ کیا کہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے میں بھارت نے کردار ادا کیا تھا۔ اگلا فیصلہ کن کردار دو عالمی طاقتوں کا پاکستان کو توڑنے پر ایک ہونا تھا جی ہاں! سوویت یونین تو پاکستان کا مخالف تھا ہی مگر امریکہ کو بھی یہ بات بہتر محسوس ہوئی کہ پاکستان دو ٹکڑے ہو جائے۔ شیخ مجیب کو بغاوت پر قائل کرنے اور استعمال کرنے میں سوویت یونین پوری طرح شامل تھا۔ شروع میں جس جاسوس کا ذکر ہوا‘ یہ سب کچھ آپ اس کی کتاب Deception Was My Job میں پڑھ اور اس کے دیے گئے انٹرویوز میں سن سکتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بات اور بھی ٹھوس ہو جاتی ہے کہ علیحدگی اکثریت کا فیصلہ نہیں تھا‘ اسی لیے شیخ مجیب اپنی ہی فوج کے ہاتھوں‘ 1975ء میںقتل ہو گیا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھارت یعنی اندرا گاندھی نے موجودہ پاکستان پر بھی چڑھائی کرنا چاہی تھی مگراس وقت کے امریکی صدر نکسن نے اندرا گاندھی کو فون کر کے ان ارادوں سے باز رہنے کی تنبیہ کی تھی۔ یوں یہ ثابت ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی علاقائی ہی نہیں‘ بین الاقوامی پلاننگ تھی جس میں مجیب الرحمن جیسے متعدد سیاسی رہنما استعمال ہوئے تھے۔ وہ روس جاسوس صاف طور پر کہتا ہے کہ جب ہم کوئی تحریک کسی معاشرے میں شروع کرتے ہیں اور چلاتے ہیں تو جو لوگ ہمارے لیے کام کرتے ہیں‘ وہ ہوتے تو احمق ہیں لیکن مفید ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں گزشتہ کچھ برسوں سے پانچویں نسل کی جنگ کا بہت چرچا ہے تو یہاں ایک وضاحت بہت ضروری ہے۔ یہ وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ اس وقت دنیا میں سرد جنگ کا دور تھا اور سرد جنگ در اصل چوتھی نسل کی جنگ تھی۔ اب یہ چوتھی نسل کی جنگ اپنی شکل اور اوصاف کے اعتبار سے پانچویں نسل کی جنگ سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہے۔ چوتھی نسل کی دو بڑی جنگیں ویتنام اور افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑی گئی تھیں۔ ان دو جنگوں کو مشرقی پاکستان کے اندر پیدا کیا جانے والے خلفشار‘ سول وار اور بالآخر گرم جنگ سے جس ترتیب سے بدلا گیا‘ یہ مکمل طور پر ایک چوتھی نسل کی جنگ کی مثال ہے۔ اگر آپ پانچویں نسل کی جنگ کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انتہائی ضروری ہی نہیں بلکہ ناگزیر ہے کہ آپ چوتھی نسل کی جنگ کو سمجھیں۔ اس کے لیے مشرقی پاکستان میں مسلط کی گئی‘ عالمی طاقتوں کی طرف سے بھارت کی مدد سے‘ جنگ ایک اہم مثال ہے۔
قارئین کرام ذہن نشین رکھیے کہ پاکستان کے قومی نشان میں چار فصلوں کی تصویر ہنوز موجود ہے۔ گندم اور کپاس مغربی پاکستان جبکہ چائے اور پٹ سن مشرقی پاکستان کی نمائندگی کرتے تھے۔ پاکستان نے آج تک اس کو تبدیل نہیں کیا۔ یہ ایک انتہائی غیرمعمولی بات ہے اور پاکستان کی طرف سے آج تک ایک خیر سگالی اور اپنائیت کا اظہار ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں