کرکٹ راج کا نیا دور

''میں کئی راتوں سے سو نہیں پایا‘‘۔اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اتنا کچھ کرنا باقی ہے‘ صورتِ حال ٹھیک نہیں ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ الفاظ پاکستانی عوام کے جنونی شوق سے متعلق ادارے کے اہم ترین عہدیدار کے ہیں۔ آپ کو عجیب لگ رہا ہو گا کہ وہ کون سا عہدیدار ہے جس نے یہ سب کچھ کہا تو جناب! یہ الفاظ پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے سربراہ کے ہیں۔ پاکستان اور نیوز ی لینڈ کے درمیان ہونے والے پہلے ٹیسٹ کے دوسرے دن‘ کھانے کے وقفے کے دوران ہونے والے ایک انٹرویو میں وہ فرما رہے تھے کہ بورڈ میں اتنی خرابیاں ہیں کہ سارا سٹرکچر ''اَن ڈُو‘‘ کر کے نیا سٹرکچر بنانا ہے۔ بورڈ کے کافی مسئلے ہیں‘ جنہیں اب حل کرنا ہے۔ یہ انٹرویو کئی لحاظ سے غیر متوقع تھا۔ سب سے خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے اس انٹرویو میں زیادہ تر سیاسی باتیں کیں یا یوں کہیے کہ سیاست کو کھیل میں بھی لے آئے۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے اس پہلے انٹرویو میں کھلے طریقے سے سابقہ حکومت اور موجودہ حکومت کا موازنہ کیااور سابق چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ سیاست کا رنگ اس لیے بھی نمایاں نظر آیا کہ ان کا شمار بالخصوص عمران مخالفین میں ہوتا ہے‘ ساتھ ہی ساتھ وہ موجودہ حکومت کے واضح حمایتی بھی ہیں۔ اس سے پہلے بھی موصوف کئی حوالوں سے متنازع رہ چکے ہیں۔ اگلی بات جو ان کی دوبارہ تقرری کو متنازع و سیاسی بناتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ ان کا کرکٹ کے شعبے میں تجربہ شاید ایک گلی محلے کے کھلاڑی سے زیادہ نہیں ہے اور اس پر طرہ پچھتر سال کی عمر۔
اب اس تعیناتی کے دیگر پہلوئوں کا شمار کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ عمران خان سے متعلق پائی جانے والی یہ رائے کہ ان کی شہرت یا سیاسی کمال میں کرکٹ کا انتہائی اہم کردار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رائے اس لیے مستند نہیں مانی جا سکتی کہ موجودہ نوجوان نسل میں شاید ہی کوئی ایسا ہو‘ جس نے ان کو کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھا ہو۔ واضح رہے کہ عمران خان 1992ء میں انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہو گئے تھے۔ موجودہ نسل نے عمران خان کو کرکٹ کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا اور کرکٹ کا جنون وقت گزرنے کے ساتھ اتنا زیادہ بڑھا ہے کہ کپتان کے دور کے کھلا ڑی تو اس کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اب کرکٹ کھیل سے بڑھ کر جنون کا انداز اختیار کر چکی ہے اور یہ جنون پورے جنوبی ایشیا میں پایا جاتا ہے۔ اس جنون میں سارا سال جاری رہنے والے ٹی ٹونٹی مقابلوں نے خاصا اضافہ کیا ہے۔ سرکاری یا قومی ٹیموں سے ہٹ کر مقامی لیول کے ٹی ٹونٹی کے مقابلوں کی وجہ سے یہ کھیل چونکہ سارا سال جاری رہتا ہے اس لیے اب کرکٹ جنوبی ایشیا میں ایک نفسیاتی اور معاشی کھیل بھی بن چکا ہے۔ اسی وجہ سے اس کھیل میں میچ فکسنگ اور سٹے بازی بھی عروج پر ہوتی ہے اور بعض مخصوص میچوں میں معاملہ کروڑوں سے نکل کر اربوں تک جا پہنچتا ہے۔ اس کھیل کی ٹی وی نشریات کے دوران چلنے والے کمرشلز کی مد میں بھی بھاری رقوم خرچ ہوتی ہیں۔ آپ تھوڑا سا غور کریں تو دیکھیں گے کہ ہر کھلاڑی کی شرٹ پر چار سے پانچ مختلف قسم کے اشتہارات چسپاں ہوتے ہیں، یعنی اس کھیل کو سپانسرز بھی بہ آسانی اور کثرت سے دستیاب ہوتے ہیں۔
اب واپس چلتے ہیں مذکورہ انٹرویو کی طرف‘ جس میں انٹرویو کرنے والے نے انگریزی میں سوالات کیے کیونکہ انٹرنیشنل میڈیا بھی اس طرح کے انٹرویوز کو کوریج دیتا ہے لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ انگلش پر مکمل عبور رکھنے کے باوجود نئے چیئرمین نے ایک آدھ سوال کے بعد ہی اردو میں جوابات دینا شروع کر دیے اور پھر سوال کرنے والے نے بھی اردو میں ہی سوال پوچھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی انگریزی چینلوں نے یہ انٹرویو اردو میں ہی چلایا۔ اس کی بڑی وجہ اس انٹرویو کی اہمیت ہو سکتی ہے کیونکہ عام طور پر میچز کے دوران اس طرح کے انٹرویو نہیں ہوتے۔ بہر حال اسی بہانے دنیا نے یہ دلچسپ منظر بھی دیکھا کہ انگلش چینلوں پر اردو میں انٹرویو نشر ہو رہا تھا۔
اس انٹرویو کے سیاسی ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نئے سربراہ نے بعض مقامات پر خالص سیاسی طرز کے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پرانے سربراہ کو تبدیلی کی اطلاع دے دی تھی مگر انہوں نے اس کے باوجود نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے لیے ٹیم کا اعلان کیا۔ بعد ازاں انہوں نے ٹیم میں چند تبدیلیاں کرنے اور محمد رضوان کی جگہ سرفراز احمد کو کھلانے کا کریڈٹ لینے کی بھی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سرفراز احمد بہت دیر کے بعد ٹیم میں شامل ہوئے ہیں اور تین‘ چار وکٹوں کے گرنے پر آئے اور بہت اچھا پرفارم کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اس ٹیم کا اعلان سابق سربراہ نے کیا تھا تو سرفرازکے اچھا کھیلنے کا کریڈٹ بھی سابق چیئرمین کو جاتا ہے لیکن ان کی گفتگو سے یہی تاثر ملا کہ یہ سلیکشن انہوں نے خود کی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ شاہد آفریدی کو انہوں نے بہت مشکل سے راضی کیا کہ وہ چیف سلیکٹر کا عہدہ سنبھال لیں، حالانکہ یہ عہدہ کسی بھی کھلاڑی کے لیے ایک اعزاز کی طرح ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاہد آفریدی بہت جارحانہ کھلاڑی رہے ہیں۔ یہ بات شاہد آفری کی بیٹنگ کے حوالے سے تو ٹھیک ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ بائولنگ میں بھی جارحانہ ہوتے تھے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ یہ بات کسی فاسٹ بائولر سے متعلق تو کہی جا سکتی ہے، لیکن ایک سپنر سے متعلق یہ بات بہت عجیب لگتی ہے۔ کھیل میں سیاست اور سیاست میں کھیل کا تذکرہ چل رہا ہے تو یہ ذکر بھی ہو جائے کہ پاکستانی کرکٹ میں عمران خان کے بعد اگر کسی شخص نے سب سے زیادہ نام کمایا ہے تو وہ شاہد خان آفریدی ہیں۔ شاہد آفریدی عمران خان کی حکومت میں کچھ سیاسی بیانات‘ بالخصوص پی ٹی آئی حکومت پر تنقید کی وجہ سے بھی خبروں میں رہے جبکہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے اور موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد انہوں نے موجودہ وزیراعظم کی حمایت میں بھی ایک ٹویٹ کیا تھا جو اِس وقت سوشل میڈیا پر دوبارہ وائرل ہے اور لوگ ان کی تعیناتی کو اس ٹویٹ کے ساتھ منسلک کر رہے ہیں۔
اب بات اس خطے میں کرکٹ کے نام پر لوگوں کو ایک عارضی، مصنوعی اور کھوکھلی غذا دینے کی۔ اس کو fictitious دوائی بھی کہا جاتا ہے۔ اگر کسی ڈاکٹر کو اپنے مریض کی بیماری کا سرا نہ مل رہا ہو‘ وہ اس کی تشخیص نہ کر پائے تو بسا اوقات تو مزید ٹیسٹ لکھنے کے ساتھ ساتھ مریض کو ذہنی سکون اور نیند آور دوائی دے کر رخصت کر دیتا ہے۔ یقینا اس دوائی سے مرض تو دور نہیں ہوتا لیکن مریض بیماری کی تکلیف سے کچھ ریلیف ضرور محسوس کرتا ہے۔ جنوبی ایشیا‘ جو دنیا کے دیگر خطوں کی نسبت زیادہ معاشی مسائل کا شکار ہے‘ میں بھی کرکٹ کے ذریعے ایک سکون آور دوائی کا کام لیا جا رہا ہے اور لوگوں کا علاج یعنی ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے نیند آور گولیاں دے کر انہیں سلایا جا رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ معاشی طور پر دیوالیہ ہونے والے سری لنکا نے بھی اپنے ہاں نہایت کامیابی سے مقامی ٹی ٹونٹی لیگ کا انعقاد کیا ہے۔ ایک دیوالیہ ہونے والے ملک میں مقامی لیگ کے کرکٹ میچز دیکھنے کے لیے شائقین کی بڑی تعداد کا آنا یہ ثابت کرتا تھا کہ وہ طویل عرصے سے اس غنودگی والی دوائی کا شکار ہیں۔ علاوہ ازیں حالیہ دنوں میں بھارت نے بنگلہ دیش سے ایک سیریز کھیلی ہے‘ آسٹریلیا کی وومن کرکٹ ٹیم نے بھارت کا دورہ کیا ہے، پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیسٹ سیریز کے بعد اب نیوزی لینڈ کے ساتھ ہوم ٹیسٹ سیریز جاری ہے۔ غرض پورے جنوبی ایشیا میں سخت معاشی حالات کے باوجود کرکٹ اپنے جوبن پر ہے۔ یہ بات پہلے بھی ہو چکی ہے کہ 1992ء میں نواز شریف حکومت کے خلاف جب ایک سیاسی تحریک کا آغاز ہوا تو حکومت نے اکلوتے سرکاری ٹی وی پر کرکٹ کے ورلڈ کپ میچز دکھانے شروع کر دیے حالانکہ پہلے صرف پاکستان کے میچز ٹی وی پر دکھائے جا رہے تھے۔ یہ حربہ کارگر رہا اور حکومت مخالف تحریک دم توڑ گئی۔
آخر میں ایک پنڈت کی پیشگوئی‘ اس کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ٹیم اچانک نہ سہی مگر مرحلہ وار بہت سے اہم میچز جیتے گی، اس کی منطق پھر سہی۔ معلوم نہیں کیوں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اب پھر معاشی بہتری کے بجائے کرکٹ کے ذریعے ہی عوام کا دل بہلایا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں