مطالعہ پاکستان … (2)

گزشتہ کالم میں بات ہوئی تھی مطالعۂ پاکستان کے حوالے سے ایسے موضوعات کی جن کی تفصیل اس مضمون میں شامل ہونا ضروری ہے لیکن اُن کا سرسری ذکر بھی اس مضمون میں شامل نہیں کیا جاتا۔ اس سلسلے میں برصغیر میں استعماریت کے دور کی ظالمانہ حکومت اور لوٹ مار کا ذکر ہوا تھا‘ اس کے بعد تقسیم ہند کے وقت ہونے والا لاکھوں افراد کا قتلِ عام‘ جس کو تھوڑی سی توجہ سے بچایا جا سکتا تھا۔ اب آج کی تحریر میں دیگر موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ جن کا تفصیلی مطالعہ اور تحقیقی جائزہ لیا جانا بھی ضروری ہے۔ اس کو جدید تاریخ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ایک وفاقی یونیورسٹی کے سیلیبس میں کم و بیش دو کے قریب کورس ''جدید دنیائے اسلام‘‘ کے نام سے پڑھائے جاتے ہیں‘ ضروری ہے کہ اس سیلیبس میں ان موضوعات کو بھی شامل کیا جائے۔ اس حوالے سے درج ذیل موضوعات اہم ترین ہو سکتے ہیں۔
اسلامو فوبیا
دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے اور لمبے عرصے کے لیے اہلِ یونان نے دنیا کو جدید علم کے خزانے فراہم کیے۔ اس میں تمام جدید علوم‘ چاہے وہ قدرتی سائنس سے متعلق ہوں یا پھر انسانی جسم کے مطالعہ سے متعلق‘ ان سب کی بنیاد اہلِ یونان ہی نے رکھی تھی۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ دورانیہ چھ سو سال سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ انسان پر اہلِ یونان کا جدت اور ترقی کے لیے یہ سب سے بڑا احسان ہے۔ طویل عرصے تک اس میدان میں اہم خدمات انجام دینے کے بعد اہلِ یونان اور اس کے بعد مختصر عرصے کے لیے اہلِ روم کو زوال کا سامنا بھی کرنا پڑا‘ اُس دور کو سیاہ دور کہا جاتا ہے۔ اس سیاہ دور کی جدید علوم کے مطالعہ اور تحقیق کی شکل میں احیا کرنے والے لوگ‘ عراق کے ایک تعلیمی شہر دارالحکمت کے باسی تھے۔ ان لوگوں نے اہلِ یونان کے دیے ہوئے علم کو آگے بڑھایا اور نئی بلندیوں کی طرف لے کر گئے۔ یہ دور بھی تقریباً چھ سو سال پر محیط ہے۔ اب اگر مغرب والے اس حقیقت کو ماننے میں کسی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں تو وہ بے شک اس دور کو عرب سے منسوب کرلیں یا پھر مشرق سے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ اس دور میں مسلمانوں نے علمی میدان میں گرانقدر خدمات سر انجام دیں مگر یورپ والوں کو چڑ اسلام یا مسلمانوں سے ہی نہیں‘ مشرق یا ایشیا کے الفاظ سے بھی ہے۔ اب بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ اگر مغرب والے مسلمانوں کی ان علمی خدمات کو تسلیم نہیں کرتے تو کم از کم ہم لوگ تو مسلمانوں کی ان علمی خدمات کا واضح ذکر کریں۔ اسلامو فوبیا کی یہ پہلی وجہ اور حوالہ ہے۔ نہ صرف قدیم بلکہ دورِ جدید کے علما بھی اس تعصب میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ اُن کی تقاریر اور انٹرویوز میں بھی اُن مسلم سائنس دانوں کا کہیں کسی طور بھی ذکر موجود نہیں۔ شاید وہ اُس دور کا مطالعہ ہی نہیں کرتے یا پھر ان کو مطالعہ کروایا ہی نہیں جاتا؟
اس کے بعد لارنس آف عریبیہ جیسے کردار کے ذریعے سلطنتِ عثمانیہ کی تباہی کی عملی داستان شروع ہوتی ہے۔ یہ سلطنت اس وقت تک کی ہی نہیں بلکہ آج تک کی اسلامی دنیا کی‘ عالمی سطح کی آخری طاقت تھی۔ پھر مغرب کی یہ مسلم دشمنی‘ روس دشمنی کی طرف مڑ گئی جس میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم مغرب کے ساتھ روس کے خلاف کھڑے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام کے ظالمانہ رنگوں اور مغرب کی دشمنی اور سازشی سوچ کو پس پشت ڈال کر اشتراکیت کے خلاف اس حد تک بڑھ گئے تھے کہ ہم اس کو کفر قرار دیا کرتے تھے۔ ہمارے ملک کے مذہبی سیاسی رہنما اس میں نمایاں تھے۔ وہ تو اب چین کی وجہ سے ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت کا اس نظام کے حوالے سے ایک نیا اور اصل روپ سامنے آیا ہے۔ اب تو بات یہاں تک آگئی ہے کہ ہمارے مذہبی سیاسی رہنما چین کی سیاسی پارٹی کی سو سالہ تقریبات میں آن لائن خطاب کرتے اور چین کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔ اس مخالفت کا سب سے بڑا اور سنگین سلسلہ روس کے ٹوٹنے کے بعد شروع ہوا تھا اور آج تک جاری ہے۔ اس کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم دنیا پر ہونے والے مظالم‘ جن کو تین دہائیاں گزر چکی ہیں‘ کا ذکر ایک خاص موضوع یا نام سے ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے ہولوکاسٹ کی طرز پر ایک اصطلاح کا استعمال کیا جانا بھی ناگزیر ہے۔ اس تیس سالہ دور میں مسلمانوں کی کتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور معاشی نقصان کتنا ہوا ہے‘ اس کا احاطہ ہونا بھی لازم ہو چکا ہے۔ سب سے آخری اور اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا شکار بھی مسلمان ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو ہی دہشت گرد گردانا جاتا ہے۔ اس کا بھی ایک مفصل علمی احاطہ ہونا اور اسکے بعد اس کا نصاب میں شامل کیاجانا بھی ضروری ہے۔
حقوقِ نسواں
یہ موضوع مطالعۂ پاکستان کے ساتھ اسلامیات اور اسلامی تاریخ کا حصہ بھی بننا ضروری ہے۔ آج کے دور کے مغربی منشور یا ایجنڈوں میں انتہائی نمایاں بات حقوقِ نسواں کا شور نما ذکر ہے۔ اب اگر غیر جانب دار ہو کر دیکھا جائے تو یہ تحریک اچھی بات ہے‘ خیال اس بات کا رکھنا پڑتا ہے کہ اس کی تشریح صرف مغربی نقطۂ نظر اور طرز والی نہ ہو۔ اس منشور کا بنیادی مدعا عورت کو مرد کے برابر ہر طرح کے حقوق دینا ہے۔ اب بات بنیادی طور پر یہ ہے کہ اسلام نے ایک منشور کی حیثیت سے‘ دنیا میں سب سے پہلے عورت کو مرد کے برابر کے حقوق دیے تھے‘ مطلب عورتوں کے حقوق کا بانی منشور‘ اسلامی منشور ہی ہے۔ اب اس کا ذکر مغرب والے تو سرا سر ہی نہیں کرتے لیکن ہمیں تو یہ ذکر کرنا چاہیے۔ اس سلسلے کی ایک اور اہم بات دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی کا قیام بھی ہے جو دو مسلمان بہنوں نے مراکش میں دسویں صدی میں قائم کی تھی۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات ملک میں سی ایس ایس کے امتحان میں شامل جینڈر سٹڈیز کا ایک مضمون ہے جس میں حقوقِ نسواں کے متعلق ہر طرح کے نظریات حتیٰ کہ اشتراکی نظریہ کا بھی ذکر ہے لیکن اسلامی فیمینزم کے نام سے ایک موضوع یا باب کیا‘ ایک پیراگراف بھی شام نہیں ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی شعبہ ہائے زندگی اس پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ اسلام کے لفظ سے فوبیا کی طرز پر خوف کا حوالہ دیا جائے تو اس کو بھی اہلِ عرب منشور کا نام دے لیں یا کوئی اور لیکن یہ ایک ایسا منشور ہے جو سب سے پہلا یعنی بنیادی حیثیت رکھنے والا منشور ہے‘ اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا۔ یہاں اس بات کا دہرایا جانا بھی ضروری ہے کہ دنیا میں آزادی اور برابری کا استعارہ سمجھے جانے والے منشور‘ وہ چاہے امریکی آزادی کا ڈیکلیئریشن ہو یا فرانس کا انقلابی منشور‘ دونوں ہی میں صرف مردوں کی آزادی اور برابری کی بات کی گئی تھی جبکہ وہاں عورتوں کو اپنے حقوق کے لیے با قائدہ علیحدہ تحریکیں چلانا پڑی تھیں‘ جو چالیس سال سے زیادہ عرصہ تک امریکہ سمیت پورے یورپ میں چلیں تب جا کر عورتوں کو اُن کے حقوق ملے تھے۔
آخر میں قارئین سے گزارش ہے کہ تقسیم ہند کے وقت لاکھوں افراد کا قتل عام ہو یا پھر تین دہائیوں سے مسلمانوں کے خلاف جاری جارحیت میں ہونے والا جانی نقصان‘ ان واقعات کے لیے آپ بھی کوئی نام تجویز کریں‘ چلیں ظلم کا سدباب نہ سہی اسے کوئی نام تو دیا جائے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں