ترقی اور تباہی کے متضادات

گزشتہ کالم میں تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کے موقع پر ہونے والے قتلِ عام کو ایک نام دیا گیا تو یورپ میں موجود سکھ کمیونٹی نے نہ صرف راقم بلکہ 'روزنامہ دنیا‘ کا بھی شکریہ ادا کیا اور تو اور اُس کالم کو اپنی زبان گور مکھی میں ترجمہ کرکے اپنے لوگوں میں تقسیم بھی کیا۔ انہوں نے 'روزنامہ دنیا‘ کے نام اس کالم پر شکریہ کا باقاعدہ ایک خط لکھنے کا عندیہ بھی دیا۔ دوسری طرف کچھ قارئین نے 'روزنامہ دنیا‘ کی ویب سائٹ پر شائع شدہ کالم پر بھی فیڈ بیک دیا ۔ ایک صارف نے لکھاکہ گورے نے دنیا کے پچاس سے زیادہ ملکوں کو اپنی کالونی بنایا‘ ان میں سے کئی ممالک آزادی کے بعد گورے کے راستے پر ہی چل کر ترقی بھی کر چکے۔ اور تو اور گورا جاتے ہوئے ہمیں ریلوے اور نہروں کا کامیاب نظام بھی دے کر گیا لیکن ہم ہی اُس سے کما حقہُ فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اس لیے اب ہمیں خود کو ٹھیک کرنا ہوگا‘ وغیرہ وغیرہ۔ آج کا کالم بھی انہی باتوں کی علمی وضاحت کی نظر ہوگا۔
برطانوی راج اور دنیا کی ترقی
اس سلسلے میں پہلی مثال امریکہ پھر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی دی جا سکتی ہے۔ اب اس تصور کو سمجھنے کے لیے تھوڑا نہیں بلکہ بہت زیادہ غور کرنا پڑے گا۔ پہلے امریکہ کی بات کرتے ہیں‘ جس کے بڑے حصے پر ایک دور میں برطانیہ قابض ہو گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں عین وہی زبان اور مذہب رائج ہوا جو برطانیہ میں رائج تھا‘ اس کے ساتھ وہاں کے لوگوں نے طرزِ زندگی بھی مکمل طور پر برطانوی ہی اختیار کرلیا‘ اور آج تک وہی طرزِ زندگی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اب اس حوالے سے غور طلب پہلو یہ ہے کہ جب برطانیہ نے امریکہ پر قبضہ کیا‘ اُس وقت وہاں مقامی آبادی بہت ہی کم تھی جو وقت کے ساتھ مزید کم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہو گئی‘ ان کو ریڈ انڈینز کہا جاتا تھا۔ پھر ان کی جگہ برطانیہ سمیت یورپ بھر سے لوگ ہجرت کرکے امریکہ جا پہنچے۔ وجہ یہ تھی کہ یہ خطہ ہر طرح کے قدرتی وسائل سے مالا مال تھا‘ جس کی بنیاد پر اس کو ''مواقع کی سر زمین‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ حقیقت میں امریکہ‘ برطانیہ اور یورپ ہی کا ایک علاقہ بن گیا۔ اب یہ بات واضح ہو گئی ہوگی کہ بھلے اس علاقے کے لوگوں نے برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کی لیکن یہاں کے موجودہ رہائشی دراصل برطانوی لوگوں ہی کی اگلی نسل ہیں۔ اب بھی بات پوری طرح واضح نہیں ہوئی تو اگلی مثال کا ذکر اس کو مکمل واضح کردے گا۔
اگلی مثال ہے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی جو آج بھی مکمل طور پر برطانیہ کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ علاقے مکمل طور پر برطانیہ نے ہی دریافت کیے جبکہ یہاں پر پہلے سے موجود لوگ ایک تو تعداد میں بہت کم تھے اور دوسرا ان کے پاس کوئی مذہب اور دنیاوی نظام نہیں تھا۔ امریکہ کی طرح یہاں بھی برطانوی کثیر تعدا میں آکر آباد ہوگئے اور یہ علاقہ ان کا دوسرا گھر بن گیا۔ برطانوی لوگوں کی طاقت اور تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے مقامی لوگوں نے بھی اُنہی کا مذہب‘ زبان اور طرزِ زندگی اختیار کرلیا۔ اس پہلو سے اس بات کا واضح ادراک ضرور ہو جاتا ہے کہ اس خطے میں برطانوی راج کو کسی بھی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں تھا۔ وہاں نہ کوئی آزادی کی تحریک چلی تھی‘ نہ زبان کا کوئی مسئلہ پیدا ہوا تھا‘ حتیٰ کہ مذہب کے معاملے میں بھی کوئی تفریق نہ تھی‘ وجہ یہ تھی کہ یہاں کی مقامی آبادی کے پاس کوئی مذہب تھا ہی نہیں۔ سادہ مگر معنی خیز بات یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک مستقل طور پر برطانیہ ہی کا ایک علاقہ بن گئے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یا اظہار یہ ہے کہ ان دونوں ممالک میں آج بھی برطانوی جھنڈے کا واضح عکس موجود ہے۔ اس کے ساتھ نسل‘ زبان‘ مذہب‘ سیاسی و معاشی نظام ہر چیز پر برطانوی رنگ ہی غالب ہے۔ برطانیہ نے بھی یہاں کے مقامیوں کو ہر چیز اسی انداز سے بنا کر دی جس طرح سے وہ اپنے دیس کے باسیوں کے لیے بناتا تھا۔ یہ دونوں ممالک آج بھی برطانیہ و امریکہ کا ساتھ ہر طرح سے اور ہر سطح پر دیتے ہیں۔ آپ روس کے خلاف بننے والے علامتی اتحاد سیٹو یا سینٹو کو دیکھ لیں یا حال ہی میں بننے والا چین مخالف اتحاد دیکھ لیں‘ آسٹریلیا ان سب کا حصہ ہے۔
برطانوی راج اور بر صغیر کی بربادی
ہمارے ہاں کچھ لوگ یہ مؤقف اختیار کرتے نظر آتے ہیں کہ یہاں گورے نے جو کچھ بھی کیا وہ اِس خطے کی ترقی کے لیے تھا۔ اصل بات مگر یہ ہے کہ ہندوستان میں ریلوے کا جال گورے نے اپنی اشیا کی نقل و حرکت کے لیے بنایا تھا ۔ اُن لوگوں کی طرف سے مگر اس تناظر میں موجود انتہائی تلخ حقیقت نہیں بتائی جاتی‘ وہ یہ کہ ریلوے کا جال بچھانے کے لیے جو لاگت آئی تھی وہ مقامی آبادی سے وصول کی گئی۔ ریلوے کا جال بچھانے کے ٹھیکے بھی مہنگی برطانوی کمپنیوں کو ہی دیے گئے۔ مزید یہ کہ ریلوے کا یہ جال مقامی لوگوں کی ضروریات کو مدِنظر رکھنے کے بجائے صرف اپنے خام مال کی برآمد کو مدِنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا۔ اسی طرح بندر گاہوں کی تعمیر میں بھی برطانیہ کی تجارت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ ریلوے کا یہ نظام برطانوی فوج کی نقل و حرکت کے کام بھی آتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ نے سترہ لاکھ کی بہادر فوج ہندوستان ہی سے بھرتی کی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے حوالے سے ایک اور انتہائی اہم بات برطانیہ کا تین بلین پاؤنڈ کا فنڈ تھا جس میں برصغیر کے لوگوں سے ایک ارب پچیس کروڑ پاؤنڈاکٹھے کیے گئے جو جنگ ختم ہونے کے بعد بھی واپس نہیں کیے گئے۔ باقی کوہ نور ہیرے کا قصہ تو سب کو یاد ہی ہوگا۔
اب بات تعلیمی اداروں اور انگلش زبان کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگلش آج بھی اپنی عالمگیریت کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی زبان ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ گورے نے یہ زبان برصغیر کی کتنے فیصد آبادی کو سکھائی؟ جس کا جواب بہت آسان ہے۔ جب گورا یہاں سے گیا تو اس خطے کی شرح خواندگی بیس فیصد سے بھی کم تھی۔ مزید یہ کہ اس وقت صرف مقامی زبان میں اپنا نام لکھنے والے کو بھی خواندہ تصور کیا جاتا تھا۔ یہ وہی دور ہے جب لوگ اپنے دستخط کے ساتھ بقلم خود بھی لکھا کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ دستخط کرنے والا لکھنا جانتا ہے۔ اب سوال یہ کہ اگر صرف بیس فیصد لوگ مقامی زبان میں لکھ سکتے تھے تو پھر انگریزی جاننے والوں کی شرح کتنی کم ہو گی‘ ظاہر ہے نہ ہونے کے برابر ہی بنتی ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ انگریز نے صرف ایک مخصوص کلاس کو یہ زبان سکھانے کا اہتمام کیا تھا جس کا مقصد اپنے لیے مترجم اور دفاتر میں سٹاف کے طور پر کام کرنے والوں کا بندوبست کرنا تھا۔ اس کلاس کو Buffer Classبھی کہا جاتا ہے۔ اب آپ کی آسانی کے لیے ایک اور مشاہدہ بیان کرتا چلوں۔ آپ نے اکثر دیکھا اور سنا ہوگا کہ انڈین‘ بالخصوص ہندو بہت اچھی انگلش بولتے ہیں۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے‘ جب گورا یہاں آیا تو مسلمانوں نے اس کے طرزِ زندگی کو اپنانے میں نہ صرف ہچکچاہٹ محسوس کی بلکہ باقاعدہ مخالفت بھی کرتے رہے لیکن ہندوؤں نے اس سب کو بخوشی اس لیے بھی قبول کیا کیونکہ وہ خوش تھے کہ ان کی مسلمانوں کی غلامی سے جان چھوٹی‘ بھلے پھر وہ گورے کی غلامی میں چلے گئے۔ اس کے علاوہ گورے نے بھی مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں کے لیے نرم گوشا دکھایا جس کا سلسلہ آخری دم تک جاری رہا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں