کسی بھی مصنف کے لیے بنیادی اور سب سے لازمی شرط ہے کہ وہ منصف بھی ہو۔ یہ بات اس لیے ناگزیر کا درجہ رکھتی ہے کہ کسی عدالت میں انصاف کرنے والے جج کا فیصلہ تو محض ایک علاقے یا صرف اس قوم کے لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن صاحبِ قلم کی بات ہر دور کے لیے اور سرحدوں کو پار کرتے ہوئے تمام دنیا کے لوگوں پر اپنے نقوش چھوڑتی ہے۔ راقم کو مشہور بھارتی نغمہ نگار جاوید اختر کے ایک ادبی محفل میں مخصوص سوچ کے ساتھ کہے جانے والے الفاظ پر زیادہ تعجب نہیں ہوا۔ اگرچہ مختلف حلقوں میں اس کو لے کر ایک تشویش پائی جا تی ہے اور لوگ ایک نامور مصنف کی جانب سے حقائق کو مسخ کرنے پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں؛ تاہم لوگ اب اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ یہ بھارت ہی ہے جس نے گورے کے یہاں سے چلے جانے کے بعد اس علاقے یعنی جنوبی ایشیا میں استعماری سوچ پروان چڑھائی اور اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ یہ بھارت ہی ہے جس نے اس خطے کو ابھی تک معاشی ترقی سے روک کر ذہنی ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس بات کو چند واقعا ت کی روشنی میں بیان کیا جائے تو صورت حال مزید واضح ہو جائے گی۔
کلدیپ نائر سے کیے گئے سوال
آنجہانی کلدیپ نائر کو کون نہیں جانتا۔ وہ بھارت کے مشہور مصنف اور کالم نگار تھے۔ راقم ایک ٹی وہ چینل پرایک حالاتِ حاضرہ کے پروگرام کی ریکارڈنگ میں مصروف تھا۔ اسی دوران اینکر نے وقفہ لیا اور اپنے مہمانوں پر انکشاف کیا اب ہمیں بھارت کے ممتاز صحافی کلدیپ نائر جوائن کریں گے۔ پروگرام میں ہم تین شرکا تھے۔ ہمیں کہا گیا کہ آپ تینوں افراد نے ان سے دو‘ دو سوالات کرنے ہیں۔ اینکر صاحب نے یہ کہہ کر قدرے مشکل میں ڈال دیا کہ جناب! آج پتا چلنا چاہیے کہ کلدیپ صاحب سے کسی نے سوال کیا ہے۔ میری باری آئی تو پہلا سوال کرنے سے پہلے میں نے اپنے عقیدت بھرے جذبات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ سر! ہم آپ کو پڑھتے اور سنتے ہوئے جوان ہوئے ہیں۔ آپ سے پہلا سوال یہ ہے کہ پاکستان تو کبھی سرد جنگ کا حصہ بن گیا، کبھی یہاں جمہوریت پٹڑی سے اتر گئی، لیکن آپ کے ہاں (بھارت میں) تو ایسا کچھ نہیں ہوا، پھر بھی بھارت ابھی تک معاشی طور پر (پسماندگی اور غربت میں) ہمارے ساتھ کیوں کھڑا ہے؟ اس پر کلدیپ صاحب صرف اتنا کہہ پائے تھے کہ '' اب بہتری آ رہی ہے‘‘۔ اس کے بعد دوسرا سوال یہ کیا گیا کہ بھارت میں جب بھی فسادات ہوتے ہیں تو دو فریقوں میں سے ایک فریق‘ وہ بھی جارحیت کرنے والا‘ ہندو ہی کیوں ہوتا ہے؟ کبھی سکھ، مسلم، عیسائی یا بھارت کی دیگر اقلیتیں آپس میں کیوں نہیں لڑتی دیکھی گئیں۔ یعنی وہاں جب بھی فسادات ہوئے‘ ہندو مسلم فسادات ہوئے، ہندو عیسائی اور ہندو سکھ فسادات ہوئے۔ اس پر پہلے تو کلدیپ صاحب نے کہا : نہیں‘ باقی بھی ہو جاتے ہیں۔ جس پر ضمنی سوال کیا گیا کہ کوئی بڑی مثال پیش کر دیں تو جواب میں کلدیپ صاحب لاجواب ہو گئے۔ پروگرام ختم ہونے پر اینکر نے جو حیرانی بھری داد دی وہ اپنی جگہ لیکن مجھے آج یہ واقعہ اس لیے یاد آ رہا ہے کہ کوئی تو جاوید صاحب کے سامنے ایسا صاحبِ ادراک ہوتا‘ جو اُن سے اسی قسم کے سوالات کرتا۔ مثال کے طور پر ان سے یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہیے تھا کہ آپ ممبئی حملوں پر تو ہمیں موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ بھارت کے سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول ایک انٹرویو میں باقاعدہ یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ کس طرح افغانستان سے مسلح لوگ بھرتی کرکے‘ بھاری رقوم و اسلحہ دے کر انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا۔ یہی وہ دہشت گرد تھے جنہوں نے پاکستان کی سر زمین پر پانچویں نسل کی جنگ (ففتھ جنریشن وار فیئر) مسلط کیے رکھی۔ یہ اس دور کا ذکر ہے جب افغانستان میں امریکہ موجود تھا اور بھارت وہ واحد ریجنل ایکٹر تھا جو امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو حالتِ جنگ میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔ یہ وہ دور تھا جب افغانستان میں افغان بھی جاتے ہوئے ڈرتے تھے لیکن بھارت وہاں ہوٹل اور ٹورازم کے نام پر بھاری سرمایہ کاری کر رہا تھا۔ اس کے متعدد قونصلیٹ جنگ زدہ ملک میں کام کر رہے تھے۔ یہ دورانیہ دو دہائیوں پہ محیط ہے۔ وہ باقیات آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ جاوید اختر صاحب سے یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ جن ممبئی حملوں کا وہ ذکر کر رہے ہیں‘ ان کے بارے میں ممبئی کے پولیس چیف ہیمنت کرکرے نے کیا لکھا ہے؟ باقی باتیں چھوڑیں‘ صرف یہی بتا دیں کہ انڈین نیوی کا حاضر سروس آفیسر کلبھوشن یادیو پاکستان میں کیا کر رہا تھا اور ابھینندن ورتمان پاکستان کیوں آیا تھا؟
موسیقی، فلم اور سپورٹس
جاوید اختر نے ایک عجیب منطق یہ پیش کی کہ ہم استاد نصرت فتح علی خان اور دیگر گلوکاروں کو اپنے ہاں بلاتے رہے‘ ان کے پروگرام کراتے رہے لیکن پاکستان میں لتا منگیشکر کو کبھی نہیں بلایا گیا۔ ارے صاحب ! سوال تو آپ سے بنتا ہے کہ آپ لوگ صرف گلو کاروں ہی کو کیوں بلاتے رہے؟ بات تو تب ہوتی کہ پاکستان سے گئے لوگ‘ جو اپنے عزیزو اقارب کو ملنے بھارت جاتے ہیں‘ کو کوئی دقت نہ ہو۔ کیا یہ امر ڈھکا چھپا ہے کہ پاکستانیوں کے ساتھ بھارت میں کیا سلوک ہوتا ہے؟ اس سے بھی بڑھ کر‘ بھارت کے ویزے کے لیے پاکستانیوں کو کتنی ترجیح دی جاتی ہے؟ اگر تھوڑی بہت بھی گنجائش ہوتی تو سیر و تفریح کے دلدادہ لوگ بھارت کا ویزہ ضرور لگواتے اور وہاں آتے جاتے رہتے لیکن صورتحال یہ ہے کہ پروفیسر صاحبان بھی بھارت میں کوئی کانفرنس اٹینڈ کرتے ہوئے کتراتے ہیں کہ پتا نہیں وہاں کے ادارے کیا سلوک کریں۔ رہی بات گلوکاروں کو بلانے کی تو یہ ایک نفع بخش انڈسٹری ہے۔ صرف گلوکار ی ہی نہیں‘ فلم کا شعبہ بھی بھارت میں ایک پورا کلچر رکھتا ہے‘ وہ الگ بات کہ اپنی فلموں میں بالی وُڈ پاکستان کو آئے دن منفی پیغامات ہی بھیجتا ہے اور زیادہ تر فلمیں بے سروپا کہانیوں اور افسانوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ بھارت کے اندر سوچ و فکر کی آزادی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ بی بی سی کی نریندر مودی سے متعلق ڈاکیومنٹری کا کوئی مدلل جواب دینا تو درکنار‘ حکومت نے اس فلم کی نمائش پر پابندی لگانے کے علاوہ فلم دیکھنے والے لوگوں کے ساتھ جو سلوک کیا‘ وہ ہی بھارت کی جمہوریت اور سیکولرازم کا بھید کھول دیتا ہے۔ بھارت کے اپنے لوگ بالخصوص سکھ برادری گاہے گاہے اس بات کا گلہ کرتی رہتی ہے کہ بھارت میں برہمن سوچ اور برہمنوں کا راج ہے اور صرف اعلیٰ ذات کے ہندو ہی حکومت کا حق رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ بھارت کی پچھتر سالہ تاریخ میں 52سال برہمن وزیراعظم رہے ہیں۔ بھارت کی پہلی اسمبلی میں علامہ اقبال کی نظم ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘پڑھی گئی تھی جس کے بعد ہندوئوں کی سوچ کی عکاسی کرنے والے مسلم مخالف ترانے بندے ماترم کو گایا گیا۔ جاوید اختر صاحب صرف شوبز انڈسٹری سے ہی حقیقت پوری طرح سن لیں‘ ان کو اندازہ ہو جائے گا کہ انہوں نے پہاڑوں جیسے حقائق کو پس پشت ڈال کر ایک ایسی خود ساختہ بات کی جس کے کرنے کی گنجائش کسی ادبی و سیاسی تو دور‘ شاید کسی نجی محفل میں بھی نہیں بنتی۔ لیکن شاید یہ ان کی مجبوری تھی کیونکہ انہوں نے واپس وہیں جا کر رہنا ہے‘ جہاں ان کی بیگم شبانہ اعظمی کے بقول‘ ممبئی میں کسی کو گھر فروخت کرنے سے پہلے بھی اس کا دین دھرم دیکھا جاتا ہے اور کسی مسلم کو گھر نہیں فروخت کیا جاتا۔
بھارت میں کام کرنے والے روس کی خفیہ ایجنسی کے ایک اعلیٰ اہلکار نے انکشاف کیا تھا کہ ہم ایسے لوگوں کی پذیرائی کرتے تھے جو لکھتے اور بولتے وقت حقائق سے ہٹ کر‘ ہماری مرضی کی بات کرتے تھے۔ ایسے لوگوں کے لیے اس آفیسر نے Political Prostitutes کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ جاوید اختر استاد نصرت فتح علی اور دیگر گلوکاروں کو ویزا دینے کی تو بہت بات کر رہے تھے‘ انہیں شاید علم نہیں کہ ابھی چند ہفتے قبل ہی پاکستان کی ہاکی ٹیم کو بھارت میں ہوئے ورلڈ کپ کے لیے ویزا نہیں دیا گیا تھا۔