عورتوں کا عالمی دن 6 مارچ کیسے بنتا ہے؟

انسانی تاریخ میں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد اور سب سے زیادہ احتجاجی کوشش‘ انسانی آبادی کے نصف یعنی عورتوں کو کرنا پڑی ہے۔ ویسے تو امریکہ اور فرانس میں اٹھارہویں صدی کے آخر میں جمہوری نظام کا نفاذ ہو گیا تھا لیکن یہ صرف مردوں کی جمہوریت تھی۔ خواتین کو اس نام نہاد جمہوری نظام میں دوسرے درجے کا شہری مانا جاتا تھا۔ معاشی وسیاسی سمیت تما م مساوی حقوق کے لیے عورتوں کو خود تحریکیں چلانا پڑی تھیں۔ اس سلسلے کی ابتدا 1880ء کی دہائی میں دنیا کی اول ترین جمہوریتوں میں سے ایک‘ امریکہ سے ہوئی تھی۔ یہ تحریک کسی انقلاب سے کم نہ تھی۔ جمہوری ملک ہونے کے باوجود امریکہ میں عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل نہ تھا، وہ نہ تو جائیداد خرید سکتی تھی‘ نہ اس کو مرد کے برابر اجرت ملتی تھی اور نہ ہی اسے ووٹ کا حق حاصل تھا۔ سادہ لفظوں میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ مغرب میں اس وقت جمہوریت کے نام پر جو نظام تھا‘ وہ سراسر پدرشاہی نظام تھا یا وہاں تب تک صرف مردوں کے لیے جمہوریت آئی تھی۔ عورتوں کی جانب سے اپنے حقوق کے حصول کی پہلی تحریک کو فیمنزم کی First Wave کہا جاتا ہے۔ یہ فرسٹ ویو اس لیے ہے کہ عورتوں کو اپنے حقوق کے لیے اس کے بعد بھی وقفوں کے ساتھ جدوجہد کرنی پڑی اور Third wave of Feminism کے بعد‘ 1920ء میں امریکہ سمیت بڑے مغربی ممالک میں عورتوں کو ووٹ کا حق ملا تھا۔ اس سلسلے میں عورتوں کو روس میں 1917ء میں آنے والے کمیونسٹ یعنی سرخ انقلاب کا ممنون بھی مانا جاتا ہے جس نے عورتوں سمیت تمام انسانوں کے لیے برابری بالخصوص معاشی برابری کانعرہ نہ صرف بلند کیا بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھایا۔ شاید اسی لیے سمجھا جاتا ہے کہ عورتوں کے عالمی دن کا ربن یعنی گلابی رنگ دراصل کمیونسٹ انقلاب کے سرخ رنگ ہی سے کشید کیا گیا ہے۔
اگر قدیم تاریخ کے اوراق میں انسانی شعور کی ترقی کے مدارج و مراحل پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ دنیا کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظریات وافکار کی اصل اور مرکزی سر زمین قدیم یونان کو مانا جاتا ہے۔ جہاں چھ سو سال سے زیادہ عرصے تک درجنوں مفکروں نے دنیا کو آزاد سوچ کے ساتھ علم کی روشنی سے آشنا کرایا۔ اسے ہم یونانی منشور قرار دے سکتے ہیں لیکن اہلِ یونان کی تہذیب میں بھی عورت کو کسی قسم کی آزادی یا حقوق حاصل نہ تھے۔ یونان کے علاقوں ایتھنز تہذیب میں انتشار پھیلنے کے بعد کے دورکو تمام تاریخ دان ''ڈارک ایجز‘‘ یعنی تاریک دور کا نام دیتے ہیں۔ یہ دور لگ بھگ چار صدیوں پہ محیط تھا جب دنیا میں فہم و دانش اور نئے علمی افکار کی آمد کا سلسلہ رک گیا تھا۔ اس لیے یہ تاریکی اصل میں عورتوں کے لیے مکمل اندھیرے کے مترادف تھی کیونکہ ان کے حقوق اور برابری کا ابھی دور دور تک کوئی نشان، کوئی گمان بھی موجود نہیں تھا۔ بات علمی و فکری جمود کی کریں تو یہ تاریکی اس وقت ختم ہوئی جب 611 ء میں ایک نئے منشور کا نزول عرب کے صحرائی علاقے سے شروع ہوا۔ اس الہامی منشور کی تکمیل 6 مارچ 632ء کو ہوئی۔ اس دن آخری و تکمیلی خطبۂ حج‘ جسے ''حجۃ الوداع‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے‘ میں دیگر ہمہ گیر موضوعات اور امور کے ساتھ جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا گیا وہ خواتین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کے حقوق کو مردوں کے نہ صرف برابر ( Equal) بلکہ بہتر (Equity)قرار دینا ہے۔ اس منشور کے تحت عورتوں کو علم کے حصول کا صرف حق ہی نہیں دیا گیا بلکہ اسے لازم بھی قرار دیا گیا۔ جائیداد اپنے نام رکھنے کے ساتھ ساتھ اسے وراثت میں بھی حصہ دار قرار دیا گیا۔ اُس وقت تک تقریباً پوری دنیا میں نسل کے بیٹے سے چلنے کا تصور پایا جاتا تھاجسے یکسر مسترد کر دیا گیا۔ کسی بھی شخص کے لیے‘ اس کی ذات پر سب سے زیادہ حق کے معاملے میں ایک عورت (اس کی ماں) کو مرد (باپ) پر تین چوتھائی فوقیت دی گئی۔ خواتین بالخصوص اہلِ خانہ سے نرم سلوک کی ہدایت کی گئی اور خصوصی تاکید کی گئی کہ عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرتے رہنا۔
اس کے بعد موجودہ عراق کی سر زمین پر علم کا ایک ایسا شہر بسایا گیا کہ جہاں اہلِ یونان کے دنیاوی علم کی جستجو کو آگے بڑھایا گیا اور یہ سلسلہ پانچ سو سال سے زیادہ عرصے تک چلتا رہا۔ سقوطِ بغداد کے بعد دوبارہ ''ڈارک ایجز‘‘ کا ایک دور آیا اور پھر علم و سائنس کی شمع روشن کرنے کا سلسلہ (یونان کے بعد) دوبارہ یورپ میں چلا گیا جسےRenaissance یعنی یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کا دور کہا جاتا ہے۔ یہ برتری آج تک برقرار ہے۔
جیسے ابتدا میں ذکر ہوا کہ عورتوں کے حقوق کی تحریک مغربی ممالک میں پروان چڑھی‘ اسی لیے یہ ممالک اپنے آپ کو خواتین کے حقوق کا بانی او ر وارث سمجھتے ہیں اور آج بھی اس عالمی دن کو منانے میں نہ صرف سب سے نمایاں نظر آتے ہیں بلکہ اپنے زیرِ اثر اور دنیا کے دیگر ممالک میں اپنے معیار کے مطابق عورتوں کے حقوق پر عمل کرانے کے لیے دھونس و دھمکی سے کام لیتے بھی نظر آتے ہیں۔ آپ پرویز مشرف کے دور کو دیکھ لیں‘جس میں خواتین کے لیے اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کی تعداد کو بڑھا کر ایک چوتھائی تک کر دیا گیا۔ اسی طرح ڈراموں کے موضوعات سے لے کر خبروں کی کوریج پر غور کریں تو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ کسی ایجنڈے کا حصہ ہے جس پر ڈنڈے سے عمل کرایا جا رہا ہے۔ اسی تناظر میں کسی نہ کسی طور Feminism کا نعرہ بھی متنازع بنا دیا گیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ مٹھی بھر تنظیموں کی طرف سے عورتوں کے لیے ''آزادی‘‘ کے بجائے ہیجان انگیز مخصوص مظاہرے اور مطالبات تھے۔ دوسری طرف یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی عورتوں‘ جو معاشرے کا نصف ہیں‘ میں شرحِ تعلیم مردوں سے کہیں کم ہے، وراثت میں اپنا حق لینا ایک دشوار بلکہ ناممکن مرحلہ ہے۔ جہیز کی لعنت اور بیٹی کی پیدائش پر مبارکباد کے الفاظ سے محرومی معاشرے میں پائی جانے والی صنفی تفریق کی غمازی کرتی ہے؛ تاہم مغرب میں بھی عورت جنسی استحصال اور بڑھاپے میں اپنوں کے ساتھ رہنے کے لیے کوشاں دکھائی دیتی ہے۔ بوڑھی مائیں خوشی اور تہوار کے مواقع پر بھی اپنے پیاروں کو ملنے کے لیے ترستی رہتی ہیں۔ یہ بھی عورتوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ عورتوں کے سب سے پہلے، مکمل اور جامع حقوق کا منشور 6 مارچ 632 ء کو مکمل ہوا تھا۔ مغرب والے اپنے مواد میں اس کا قصداً ذکر نہیں کرتے حالانکہ Islamic Feminism دنیا کا سب سے پراناتصور ہے۔ ہمارے ملک میں سی ایس ایس کے امتحان میں‘ جینڈر سٹڈیز کے مضمون میں بھی اس کا ذکر یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کو عورتوں کا محض ایک عالمی دن نہیں بلکہ 6 مارچ سے 8 مارچ تک‘ تین دن منانے چاہئیں۔ یا پھر کم از کم 6 مارچ کو علیحدہ طور پر کسی اور نام سے منانا چاہیے کیونکہ عورتوں کے حقوق کے ایک انتہائی گھنے اور سایہ دار شجر کا بیج سب سے پہلے 6 مارچ 632ء کو عرب کے بے آب و گیاہ صحرائوں میں بویا گیا تھا۔ اس منشور کا نام موجودہ اصطلاح میں اسلامی منشور برائے حقوقِ نسواں (Islamic Feminism) ہی بنتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ جتنا بھی اسلام فوبیا کا شکار رہیں‘ تاریخ کو مسخ نہیں کر سکتے۔ اب یہ مسلمانوں کا کام ہے کہ فیمنزم کے سلسلے میں 8 مارچ والے دن کسی تذبذب اور اختلافِ رائے بلکہ تضادِ رائے کے بجائے یا کسی قسم کا فکری انتشار پیدا کرنے کے بجائے 8 کے بجائے 6مارچ سے ہی عورتوں کو ان کے جائز حقوق کی فراہمی کی مناسبت سے اس دن کومثبت طریقے سے اجاگر کرنا شروع کر دیں۔ اس دن کو منانے سے پوری دنیا میں یہ پیغام عام ہو گا کہ اسلام میں نہ صرف عورتوں کو برابری کے حقوق میسر ہیں بلکہ خواتین کو حقوق فراہم کرنے کی برتری کے اصل وارث بھی مسلمان ہی ہیں۔
نوٹ: یہاں ایک اہم حقیقت کی وضاحت بہت ضروری ہے۔ ہمارے لکھنے اور بولنے والے تواتر سے یہ فقرہ دہراتے ہیں کہ ہمارے ہاں کل آبادی میں عورتوں کا تناسب 51 فیصد ہے جبکہ یہ بات سرا سر غلط ہے۔ ہمارے ہاں آبادی میں عورتوں کا تناسب 49فیصد ہے؛ البتہ ہمارے ہاں عورتوں کی شرحِ تعلیم مردوں کے معاملے میں بہت کم ہے؛ تاہم اب اس فرق میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں