ایشیا کی جدید جنگ اور ایشیا کی صدی

سعودی عرب اور ایران میں تعلقات بحال کرانے کے بعد چین نے یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ میں بھی ثالثی کا کردار نبھانے کے ارادے کا اظہار کیا ہے۔ اگر چین ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ اس کی عالمی طاقت کی حیثیت سے ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ ایسا ہونے سے چین کی عالمی ساکھ میں گراں قدر اضافہ ہو گا۔ واضح رہے کہ آج کی دنیا کی سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہر علاقائی واقعہ اب عالمی واقعہ بن جاتا ہے۔ اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اب دنیا آپس میں اتنی زیادہ Inter- Dependent ہو چکی ہے کہ کسی بھی ایک علاقے کا کوئی بھی بڑا واقعہ، باقی دنیا کو سیاسی یا معاشی طور پر کسی نہ کسی حد تک متاثر ضرور کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر‘ ہر واقعے کی چونکہ میڈیا کوریج بھی ہوتی ہے‘ اس لیے کسی بھی منفی عمل کا لوگوں کے ذہنوں پر اثر ضرور پڑتا ہے۔ البتہ ایک بات کا فرق ضرو رہتا ہے کہ اگر کوئی منفی عمل کسی مغربی ملک میں پیش آئے تو اس کو عالمی مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور اس پر ردعمل بھی زیادہ دیا جاتا ہے جبکہ مشرقی و ایشیائی بالخصوص مسلم ممالک میں ہونے والے کئی بڑے بڑے واقعات بھی عالمی سطح پر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ اب اس تناظر میں جو صورتحال سامنے آتی ہے‘ کچھ یوں ہے:
محض یورپ کا مسئلہ‘ پوری دنیا کا مسئلہ
بھارت کے وزیر خارجہ کے گزشتہ دنوں کیے گئے ایک خطاب کا یہ جملہ بہت معنی خیز ہے کہ یورپ کو یہ روش بدلنا ہو گی‘ صرف ان (یورپ) کا مسئلہ ہی عالمی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمیں یوکرین کی شکل میں مل سکتی ہے۔ یوکرین میں جاری آپریشن نما جنگ کو جتنی کوریج مل رہی ہے‘ اتنی کوریج مسئلہ کشمیر، فلسطین، عراق، شام، لیبیا یا یمن کو کبھی بھی نہیں ملی۔ یوکرین کے اندر پیدا ہونے والی جن مشکلات کا سامنا وہاں کے عوام کو ہے، اگر ان کا موازنہ کیا جائے تو پاکستان کے اندر اس سے کہیں زیادہ معاشی گرداب پیدا ہو چکا ہے۔ پاکستان سے متعلق تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مغرب نے یوکرین کا بدلہ یہاں پر لیا ہے۔ آپ ملکی کرنسی کی قدر کو دیکھ لیں‘ یہ اتنی تیزی سے اور اتنی زیادہ گری ہے کہ کسی مکمل جنگ زدہ ملک کی کرنسی بھی اتنی تیزی سے نہیں گری۔ اس طرح کے معاشی ہتھیار سرد جنگ کی حکمت عملی کا حصہ ہوتے ہیں۔ کرنسی کے علاوہ روز مرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہیں۔ اس میں جو پہلو زندگی کو اجیرن کر دیتا ہے وہ تیل اور بجلی کی قیمتیں ہیں۔ مزدور طبقہ دن میں صرف ایک وقت کا کھانا کھا رہا ہے۔ یہ سارا بحران کسی بھی طرح نہ تو قدرتی ہے اور نہ ہی یوکرین کے لوگوں کے مسائل سے کم ہے۔ لیکن اگر آپ پاکستان کے لوگوں کے مسائل کی کوریج عالمی میڈیا پہ دیکھیں تو آپ کو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی، حالانکہ یہ ایک مکمل معاشی جنگ کا منظر ہے۔
اب عالمی اداکاروں کے پیدا کردہ اس معاشی جنگ کے پس پردہ عوامل پر غور کریں۔ مغرب برملا طور پر چین کے معاشی منصوبے سی پیک کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ کے بیان سے خود بھارت کو بھی سبق لینا چاہیے تاکہ وہ اس علاقائی بحران میں اپنا منفی کردار نبھانا بند کرے۔ بھارت ایک بار پھر افغانستان کی سرزمین سے پاکستان مخالف مسلح کارروائیاں کر رہا ہے۔ پہلے بھی ذکر ہوا تھا کہ بھارت اس وقت عالمی سرد جنگ میں مغرب کے ایما پر چین کے خلاف پراکسی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یورپ باقی دنیا کے مسائل کو مسائل کیسے مانے گا اگر بھارت جیسا خطے کا بڑا ملک ہی اپنے علاقے میں عالمی سطح کی دہشت گردی کرنے سے باز نہیں آئے گا؟ بھارت‘ اپنی فلموں کے منفی کرداروں کی طرح‘ اس خطے میں ایک گینگسٹر کا کردار نبھا رہا ہے۔ اگر وہ تھوڑا غور کرے تو اس کے اپنے ملک میں پتا نہیں کتنے بحران کتنی دہائیوں سے پنپ رہے ہیں۔ بھارت کو اب تک صرف ایک چیز کا فائدہ مل رہا ہے کہ کوئی مغربی طاقت تو کجا‘ چین بھی بھارت میں چلنے والی علیحدگی پسند تحریکوں میں سے کسی کی معاونت نہیں کر رہا۔ اگر کسی ایک بھی بڑے ملک نے یہ پالیسی اپنا لی تو بھارت کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل اتنا تیز ہو جائے گا کہ مہینوں والی ہلچل دنوں میں نظر آئے گی۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک بار پھر سابق بھارتی آرمی چیف کا بیان یاد کرتے ہیں کہ بھارتی فوج اڑھائی محاذوں پر لڑنے کی سکت نہیں رکھتی۔ ان محاذوں میں چین اور پاکستان کے بعد آدھا محاذ بھارت کے اندر چلنے والی علیحدگی پسند تحریکوں کو کہا گیا تھا۔ یہ بیان چار‘ پانچ سال پرانا ہے‘ اس لیے اب حالات مزید خراب ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر اب بھارت کے اندر ہندوتوا تحریک کے باعث تمام غیر ہندو آبادی خود کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہے اور معاشرتی یگانگت ختم ہو چکی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ بھارتی وزیر خارجہ کو اپنی اس بات کو بطور وزیر داخلہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ایشیا کی صدی کب شروع ہو گی
ایشیا رقبے اور آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا براعظم ہے۔ دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی کے ساتھ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایشیا آدھی دنیا سے بھی زیادہ بڑا ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ اندرونی اور بیرونی لڑائیوں کے مراکز ایشیاہی میں نظر آتے ہیں۔ آپ دنیا کا نقشہ سامنے رکھ کر صرف ایشیا پر نظر دوڑائیں تو آپ کو پرانے اور پیچیدہ ترین مسائل کا گڑھ ایشیا ہی نظر آئے گا۔ جاپان جیسی عالمی معاشی طاقت کو دیکھ لیں‘ پتا چلے گا کہ اس کے سرحدی تنازعات روس اور چین‘ دونوں کے ساتھ موجود ہیں۔ اسی طرح جاپان کا عالمی سیاست میں رخ اور جھکائو واضح طور پر امریکہ کی طرف نظر آئے گا۔ اس کے بعد مشرقی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا (مشرقِ وسطیٰ) اور وسطی ایشیا کو دیکھیں‘ ہر خطے میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور درپیش ہے۔ تھوڑا سا غور کریں تو آپ کو ہر تنازع کے پیچھے کسی نہ کسی شکل میں امریکی یا مغربی ہاتھ ضرور نظر آئے گا۔ امریکی فوجی اڈے، امریکی افواج کی موجودگی یا پھر اندرونی معاملات میں ہر طرح کی بیرونی مداخلت بھی نظر آئے گی۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ پاکستان کے موجودہ بحران کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر دیکھ لیں۔ بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ اس بات کو زیادہ گہرائی سے سمجھنا ہو تو یہ جان لیں کہ مغربی ممالک کے اتحاد کے مقابل اگر دنیا میں کوئی طاقت کھڑی ہو سکتی ہے تو وہ صرف ایشیا ہی ہے۔ یہ ریجن چین کی سربراہی میں اٹھ سکتا ہے اوراب اٹھ رہا ہے۔
چین کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے ایسے اتحادی میسر نہیں ہیں جیسے اتحادی یورپ کی شکل میں امریکہ کو دستیاب ہیں۔ اس سے بھی آگے بڑھیں تو علم ہوتا ہے کہ چین کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اردگرد اکثر ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں جنگی کیفیت و افراتفری برپا ہے۔ چین وہ ملک ہے جس کے پوری دنیا میں سب سے زیادہ سرحدی ہمسائے ہیں۔ یہ تعدا چودہ ہے۔ ان میں سے اکثریت ایسے ممالک کی ہے جہاں کوئی نہ کوئی کشمکش جاری ہے۔ ان میں سے سب سے بڑا مسئلہ بھارت ہے۔ پہلے بھی ذکر ہوا کہ چین کی بھارت کے ساتھ‘ نیپال سمیت‘ پانچ ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر متعدد تنازعات موجود ہیں۔ بھارت واحد ملک ہے جو ابھی تک چین کے معاشی منصوبوں کا نہ صرف حصہ نہیں بنا بلکہ ان کی کھلے عام مخالفت بھی کرتا رہتا ہے۔ اسی تناظر میں بھارت پاکستان میں بھی شرپسندی کا محاذ بھڑکا رہا ہے۔
اگر بھارت چین کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کر لے تو نہ صرف چین کو بہت مدد مل سکتی ہے بلکہ بھارت کو بھی اس سے بہت سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر چین جس طرح سے بتدریج بھارت کی مذمت کے بجائے اس کی مرمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے‘ اس کے نتیجے میں بھارت ''کچھ دو اور کچھ لو‘‘ کے بجائے عنقریب سب کچھ کھوتا نظر آئے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں