گورے کا ایجاد کردہ کھیل‘ کرکٹ‘ آج برصغیر کے لوگوں کا جنون ہی نہیں بلکہ غربت کے مارے لوگوں کا دھیان بٹانے یا انہیں دھیان میں لگائے رکھنے کا ذریعہ بھی بن چکا ہے۔ آئے روز کرکٹ کے نت نئے ٹورنامنٹ منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ کرکٹ کی اسی گہما گہمی کے دوران گزشتہ دنوں استعماریت کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بننے والے بھگت سنگھ کو تختہ دار پر چڑھانے کا دن بھی منایا گیا۔ اب یہ باتیں کس طرح باہم منسلک ہیں اور کس حد تک منسلک ہیں‘ اس کا ٹی ٹوئنٹی تو نہیں لیکن ایک روزہ میچ کی طرز پر جائزہ لیتے ہیں۔
کرکٹ راج بشکل استعماریت
گزشتہ دنوں برطانیہ کی کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ کے دورے پر تھی‘آخری میچ ختم ہوا تو اگلے ہی روز اسی برطانوی کرکٹ ٹیم کے بنگلہ دیش میں میچ کھیلنے کی خبر آئی تو بہت حیرانی ہوئی کہ ایسا بھی کیا ہو گیا کہ اتنی تیزی کے ساتھ‘ مطلب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ ٹیم اگلے ٹورنامنٹ کیلئے بنگلا دیش پہنچ گئی۔ جب تھوڑا غور کیا تو پتا چلا کہ یہ بالکل ہی مختلف ٹیم تھی یعنی نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلنے والی ٹیم کا ایک بھی کھلاڑی اس ٹیم میں موجود نہیں تھا اور ایک علیحدہ ٹیم بنگلہ دیش کے خلاف کھیلنے کے لیے پہنچ چکی تھی۔ کرکٹ کے ذریعے لوگوں کو مگن رکھنے کا طریقہ اتنا موثر ہے کہ سری لنکا جیسے ملک نے بھی اپنے ہاں ڈیفالٹ ہونے کے باوجود مقامی ٹی ٹوئنٹی لیگ کروائی تھی اور اسے دیکھنے کے لیے آنے والے شائقین کی بڑی تعداد نے یہ ثابت کیا تھا کہ کرکٹ راج اس خطے میں اپنے عروج پر ہے۔ اب اس کھیل کے بانی ملک کے تعاون اور کرکٹ پالیسی پر غور کریں کہ اس نے بنگلہ دیش کے ساتھ سیریز کھیلنے کیلئے اپنی ایک دوسری ٹیم یہاں بھیج دی۔ جنوبی ایشیا کے بارے میں یہ بات مکمل اعتماد اور شواہد کے ساتھ کی جاتی ہے کہ یہ خطہ آج بھی اغیار کے ہاتھوں یر غمال ہے۔ پہلے برطانیہ یہاں غالب تھا‘ اب امریکہ ہے۔ اس خطے کی حکومتوں کو بنانا‘ ہٹانا‘ معاشرتی و سیاسی تحریکوں کو پروان چڑھانا‘ تعلیمی نصاب پر اثر انداز ہونا حتیٰ کہ اہم شخصیات کو راستے سے ہٹا دینے سمیت ہر ممکن طرز کی استعماریت آج بھی یہاں جاری و ساری ہے۔ اس استعماریت کو جاری و ساری رکھنے میں بھارت ہر طرح سے مغرب کی خدمت کے لیے اس خطے کے ایک گینگسٹر کے طور پر‘ باوجود اپنے کمزور اندرونی ڈھانچے کے‘ موجود ہے۔ بھارت نے اپنے کرکٹ راج کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اس برس سے اپنے ہاں خواتین کی ٹی ٹوئنٹی لیگ بھی شروع کروا دی ہے۔کرکٹ کا لوگوں پر کتنا گہرا اثر ہوتا ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1992ء میں جب اپوزیشن نے نواز شریف کے خلاف تحریک کا اعلان کیا تو انہوں نے اس وقت کے واحد اور سرکاری ٹی وی پر ورلڈکپ کے صرف پاکستان کے میچز دکھانے کے بجائے تمام ٹیموں کے میچز دکھانے کا اعلان کر دیا تاکہ لوگوں کی توجہ سیاست سے ہٹ کر کرکٹ پر مبذول ہو سکے۔
کرکٹ کی اہمیٹ کے حوالے سے ایک بھارتی فلم کا ایک سین بہت یادگار ہے۔ منظر کچھ یوں ہے کہ کسی علاقے میں قتل کی واردات کے بعد جب پولیس اہلکار تحقیقات کر رہے ہوتے ہیں تو ایک وِلن اس ٹیم کے افسر سے کہتا ہے کہ چھوڑو صاحب‘ میڈیا پر جو شور ہے اور لوگوں کا احتجاج ہے‘ بھارت کے ایک کرکٹ میچ جیتنے کی دیر ہے‘ لوگ سب بھول جائیں گے۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں‘ ابھی حال ہی میں پاکستان پی ایس ایل کا شاندار انعقاد ہوا ہے‘ اس دوران پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ کا ایک بیان آیا تھا کہ پی ایس ایل لوگوں کو تفریح فراہم کر رہی ہے۔ انہیں کون بتائے کہ تفریح کی حیثیت اس وقت ثانوی ہو جاتی ہے جب لوگوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ ہو۔ پی سی بی کے موجودہ چیئرمین کرکٹ سے دور کا واسطہ بھی نہ ہونے کے باوجود اس عہدے پر براجمان ہیں۔ گو کہ پرانے سربراہ کو بدلنے کا نئی حکومت کو مکمل اختیار حاصل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس عہدے پر کرکٹ کو سمجھنے والی شخصیت کا موجود ہونا زیادہ موزوں نہیں؟ لیکن یہاں تو سب چل رہا ہے سوائے عوام کو ریلیف میسر ہونے کے۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ رمضان سے ایک دن پہلے خربوزہ 80روپے کلو فروخت ہو رہا تھا لیکن پہلے روزے ہی یہ دو سو روپے کلو سے بھی اوپر چلا گیا۔ درمیانے درجے کا خربوزہ 230روپے میں خریدنا پڑا۔ کیا بھیانک مہنگائی ہے۔ ایک روپے کی چیز تین روپے میں خریدنا پڑی تو خیال آیا کہ مہنگائی میں اضافے کی شرح ٹی ٹوئنٹی کی طرز پر ایک ہی دن میں تین سو کے سٹرائیک ریٹ پر پہنچ گئی۔ یہاں اربابِ اختیا ر سے گزارش کرتا چلوں کہ یہ خربوزہ تو مقامی پیداوار ہے‘ اس میں ہر گز ڈالر کا کوئی بھی عمل دخل نہیں ہے۔ یہ بات موجودہ وزیراعظم نے پٹرول کی قیمت سے متعلق ایک منطق کے طور پر پیش کی تھی کہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے پٹرول مہنگا ہوا ہے۔ پاکستان ایک انوکھا ملک ہے جہاں مقدس مہینے کے شروع ہوتے ہی تمام فروٹ اور سبزیوں میں اتنی لوٹ مار شروع ہوچکی ہے کہ استعماریت کی تاریخ بھی شرما کر رہ جائے۔ گزشتہ دنوں بھارت کے پاکستان میں سفیر کا ایک بیان پیاز کی قیمت کے متعلق شائع ہوا تھا جس کے مطابق دلی میں پیاز تیس جبکہ ہمارے ہاں تین سو روپے کلو تک فروخت ہوتارہا لیکن اگر بھارتی سفیر اپنے گریبان میں جھانکیں تو انہیں بخوبی ادراک ہو جائے گا کہ یہ بھارت ہی ہے جو اس خطے کو معاشی لحاظ سے زبوں حالی کا شکار بنائے رکھنے کیلئے استعماری قوتوں کا آلۂ کار بنا ہوا ہے۔
بھگت سنگھ کی قربانی کس کام آئی
اب بات برصغیر میں استعماریت کے خلاف لڑنے والے اشتراکی نظریات کے مالک بھگت سنگھ کی‘ جس نے 1931ء میں محض چوبیس سال کی عمر میں تختہ دار کو چوم لیا تھا۔ بھگت سنگھ کو برطانوی سامراج سے دو طرح کے شدید طرز کے اختلافات تھے۔پہلا اختلاف اس کو اشتراکی ہونے کی وجہ سے سرمایہ دارانہ نظام سے تھا جبکہ برطانیہ اس کا سب سے بڑا داعی اور مرکز تھا۔ بھگت سنگھ کا دوسرا اختلاف برطانوی سرکار کے استعماری سے زیادہ سامراجی ہونے کی وجہ سے تھا۔ استعماریت صرف سیاسی قبضہ ہوتا ہے جبکہ سامراجیت معاشی قبضہ ہوتا ہے جس کو بھگت سنگھ لوٹ مار سمجھتا تھا۔ اس بہادر سپوت کے خیالات اس قدر واضح تھے کہ وہ جیل میں پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد بھی اشتراکیت کی کتابیں پڑھا کرتا تھا۔ بھگت سنگھ کی قربانی نے اس خطے کی آزادی کی تحریک کو ایک نیا ولولہ دیا تھا۔ بھگت سنگھ کو اگرچہ اس وقت تمام ہندوستان نے اپنا ہیرو مانا تھا لیکن اس کی قربانی کا بعد میں زیادہ چرچا اس لیے نہیں ہوا کہ وہ اشتراکی نظریات کا علمبردار تھا۔ یاد رہے کہ روس میں اشتراکی انقلاب آچکنے کے بعد دنیا میں نظریاتی جنگ شروع ہو چکی تھی۔ 1921ء میں چین کیساتھ ہندوستان میں بھی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی جا چکی تھی۔ اب اس پورے علاقے میں معاشی ابتری دیکھ کر یہ سوچنا پڑتا ہے کہ استعماریت نہ سہی لیکن سامراجیت اب بھی یہاں موجود ہے۔ اس خطے کے تمام ممالک کے لوگ لوٹ مار کرنے کے بعد زیادہ تر برطانیہ میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ ان ملکوں میں قانون اور انصاف کی صورتحال برطانوی استعماری دور سے بھی خراب ہے۔ اسلئے ٹیپو سلطان اور بھگت سنگھ سمیت جن شخصیات برطانوی سامراجیت کی مخالفت میں اپنی جانیں قربان کیں‘ ہم ان معذرت خواہ ہیں۔