بھارت کے اندر فلم اور میوزک انڈسٹری کو جو چیز زیر کر گئی ہے‘ وہ کرکٹ ہے۔ بھارت کو کرکٹ میں وہی مقام حاصل ہے جو عالمی سیاست میں تاحال امریکہ کو حاصل ہے‘ اگرچہ یہ بہت حد تک کم ہو چکا ہے اور بدستور ہو رہا ہے۔ آپ کو شاید عجیب لگے گا کہ بھارت تو کرکٹ کی عالمی رینکنگ میں پہلے نمبروں پر بھی نہیں ہے پھر اس کو کرکٹ کی عالمی طاقت کیوں کہا گیا ہے؟ اسی طرح امریکہ کی عالمی طاقت کی حیثیت تو کب کی چیلنج ہو کر اب تو دوسرے نمبر پر آچکی ہے۔ ان باتوں میں موجود ابہام اور اصلیت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
بھارت میں کرکٹ راج کا تسلط
بھارت میں کرکٹ انتظامیہ کی مالی حالت کبھی ایسی ہوتی تھی کہ اسے وسائل اکٹھے کرنے کے لیے میوزک شوز کرانا پڑتے تھے لیکن اب وقت بدل گیا ہے‘ اب بھارتی فلمی ستارے بھارت کی ٹی ٹونٹی لیگ کے موقع پر میدان میں اپنی صرف ایک جھلک دکھائے جانے کے شیدائی بنے ہوتے ہیں۔ بھارت میں جیسے ہی ٹی ٹونٹی لیگ شروع ہوئی تو عالمی سطح پر سوائے جنوبی افریقہ اور نیدر لینڈ کی ٹیموں کی ایک سیریز کے‘ دیگرتمام عالمی ٹیموں میں سے کوئی بھی ٹیم کسی بھی قسم کی سیریز نہیں کھیل رہی۔ یہ محض اتفاق ہے اور نہ ہی پہلی دفعہ ہوا ہے۔ اس تناطر میں بلاشبہ یہ بات کی جا سکتی ہے کہ بھارت کو کرکٹ کی دنیا میں ایک عالمی طاقت کا درجہ حاصل ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی‘ بھارت کو عالمی میچز اور سیریز میں بھی ایک مخفی قوت بدستور یہ مقابلے جتوانے کا اہتمام جاری رکھتی ہے۔ بھارت نے اپنے ہاں ہونے والا جو ورلڈکپ جیتا تھا‘ اس کے فِکس ہونے کے شواہد عیاں ہوکر اب تو پرانے بھی ہو چکے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے نمایاں بیان سری لنکا کے وزیر کھیل کا تھا‘ جنہوں نے الزام لگایا تھا کہ اُس ورلڈ کپ کا فائنل فِکس تھا اور سری لنکا نے اس کی انکوائری کروانے کا مطالبہ بھی کیا تھا لیکن بات دب گئی یا دبا دی گئی۔ واپس آتے ہیں بھارت میں شروع ہونے والی کرکٹ لیگ کی طرف‘ جس میں عالمی کھلاڑیوں کی بڑی تعداد کھیل رہی ہے۔ یہ لیگ دو ماہ تک جاری رہے گی۔ اس کی وجہ سے سب سے بڑا فائدہ جو بھارت کی مودی سرکار کو ہوگا‘ وہ یہ ہوگا کہ اب اپوزیشن چاہے سر کے بل کھڑی ہو جائے‘ کتنا بھی بڑا ایشو اٹھا لے‘ عوام پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اس کرکٹ لیگ کے سہارے مودی سرکار نے پہلے ہی دن تشہیر کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اس لیگ کا افتتاحی میچ جس میدان میں منعقد ہوا اس کا نام بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ہی منسوب ہے اور کمنٹری کرنے والوں نے یہ نام دو دفعہ لیا۔ جب پاکستان میں کرکٹ لیگ ہوئی تھی تو افتتاحی میچ میں کمنٹری کرنے والوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا نام دو دفعہ لیا تھا۔ ایسا کرنے سے لا محالہ طور پر شہرت تو ملتی ہے‘ چاہے آپ کرکٹ کی الف ب بھی نہ جانتے ہوں۔ بھارت کی کرکٹ لیگ کے موقع پر وہاں کے فلمی ستارے مختلف اشتہارات میں بھی جلوہ گر ہو رہے ہیں۔ اس عمل سے عوام کے ذہنوں پر کرکٹ کا جادو دو گنا ہو کر چڑھتا ہے۔ یہ فلمی ستارے جن اشتہارات میں جلوہ گر ہورہے ہیں‘ وہ کوئی عام اشتہارات نہیں بلکہ کرکٹ پر شرط لگانے یعنی جوا کھیلنے کی ترغیب دینے والے اشتہارات ہیں ۔یہ اشتہارات بھارت کی جوا مارکیٹ کو بھی پرموٹ کرتے ہیں۔ جوا ایک لت ہے۔ اس سے پہلے کرکٹ کے کھیل کا بھی یہ نچوڑ نکل چکا ہے کہ یہ بھی ایک لت ہے۔ لوگ موبائل کی مدد سے چاہے جس بھی جگہ پر موجود ہوں‘ میچ ضرور دیکھتے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچتی ہے کہ لوگ ہسپتالوں میں بھی میچ ضرور دیکھتے ہیں۔ بھارتی کرکٹ لیگ دو ماہ تک جاری رہے گی‘ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ دو ماہ کے لیے بھارت ایک مکمل نشہ والی حالت کی طرح سکون میں چلا گیا ہے۔
کرکٹ گوکہ ایک اچھی تفریح ہے لیکن کیا ایک ترقی پذیر ملک سال کے دو ماہ‘ مطلب ایک بٹا چھ فیصد وقت کو صرف ایک مصنوعی دھیان ہٹائو مہم کے چکر میں ضائع کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے پاکستان‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی کرکٹ لیگز منعقد ہو چکی ہیں۔ شائقینِ کرکٹ چاہے کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں‘ وہ کرکٹ تو لازمی دیکھیں گے‘ خاص طور پر جنوبی ایشیا میں منعقد ہونے والے مقابلے۔ اب آپ کو کھیل کے ایک اور پہلو کی طرف لیے چلتے ہیں جو کچھ یوں ہے کہ کھیل دنیا میں ملکوں کے درمیان سفارت کاری کے لیے بھی ایک مؤثر ذریعہ ہوتے ہیں لیکن بھارت اپنی اس لیگ میں کسی بھی پاکستانی اور بہت دفعہ تو بنگلہ دیشی اور سری لنکن کھلاڑیوں کو بھی نہیں بلاتا۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ بھارت کے کھلاڑی سری لنکا اور بنگلہ دیش کی ٹی ٹونٹی سیریز میں بھی شرکت نہیں کرتے۔ یہ وہ خاص قسم کا مزاج ہے جو اپنے آپ کو اعلیٰ یا طاقتور دکھانے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے‘ چاہے اس سے دوسروں کو کوئی بھی فرق نہ پڑتا ہو۔ بھارت‘ جو علاقائی طور پر بڑا ملک ہونے کے زعم میں مبتلا رہ کر علاقائی امن کو خراب کیے رکھتا ہے‘ اس کی اس سوچ کی عکاسی کھیلوں میں بھی علاقائی عداوت کی صورت میں عیاں ہے۔
امریکہ کی عالمی طاقت کا اختتام
بھارت جس ملک‘ امریکہ‘ کے چھوٹے کی حیثیت سے اس خطے اور ایشیا کے امن میں رکاوٹ بنا بیٹھا ہے‘ اس کیلئے واحد عالمی طاقت کا مقام رکھنے والا ملک‘ اب واضح طور پر اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ دنیا بلکہ ایشیا کا کوئی بھی ملک یعنی چین تقریباً سو سال بعد امریکہ کے مقابلے پر آیا ہے۔ امریکی کرنسی کی اجارہ داری بھی اب ختم ہونا شروع ہو چکی ہے‘ اس عمل کو بہت سارے لکھنے والے ڈی ڈالرائزیشن کا نام دے رہے ہیں۔ چین نے اپنی قائم کردہ شنگھائی تعاون تنظیم کو پھیلاتے ہوئے سعودی عرب کو بھی اس میں شامل کر کے ایشیا میں اپنی سربراہی کی جھلک دکھانا شروع کر دی ہے۔ چین اس سے پہلے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بحال کروا کر پہلے ہی کرکٹ کی اصطلاح میں یارکر پر چھکا لگا چکا ہے۔ صورتحال کی اس تبدیلی کو بہت سے ممالک ابھی تک یقین کی آنکھ سے نہیں دیکھ رہے۔ بہت سارے عالمی ادارے یہ اقرار اور اظہار کیا کرتے تھے کہ 2023-24ء میں چین معاشی اعتبار سے امریکہ پر سبقت لے جائے گا لیکن اب امریکہ اس تاثر کو طاقت کے بل پر دبا رہا ہے۔ دوسری طرف عالمی میڈیا اب بھی امریکہ ہی کی طرف داری کرتا ہے جبکہ چین کا میڈیا دھیمے لہجے سے کام لیتا ہے اور محض دعووں پر مبنی خبریں نہیں چلاتا۔ اس لیے میڈیا پر امریکہ کا بھرم باقی ہے۔ امریکی کرنسی کی بات ہوئی تو عرض کرتے چلیں کہ اس کی عالمی تجارت میں اجارہ داری بدستور ختم ہو رہی ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ امریکہ کی عالمی سربراہی چھن جانے کا مطلب امریکہ کا اپنا زوال ہر گز نہیں‘ اگرچہ یہ اندرونی طور پر مسائل کا شکار بھی ہو رہا ہے لیکن اپنے بے پناہ قدرتی اور انسانی وسائل کی بدولت یہ اپنی شناخت تو باقی رکھے گا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھارت کے ہاتھ کیا آئے گا اور یہ اپنی علاقائی‘ اپنے قد سے بڑی دشمنیوں سے کس طرح نمٹ پائے گا۔ یاد رہے چین کو امریکہ کے بعد جس ملک سے سب سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے‘ وہ بھارت ہے۔ بھارت کرکٹ کے نشے سے مدہوش رہ کر کتنا وقت گزارلے گا؟ یہ اس وقت پتا چلے گا جب یہ وقت گزر چکا ہوگا اور یہ اب مہینوں کی بات ہے بس!