آج کل سب سے زیادہ چرچا ڈالر کا اور اس کے مالک‘ امریکہ کا ہو رہا ہے۔ زیادہ تر خبریں براہِ راست ڈالر کی اجارداری کے عروج کے خاتمے کی آرہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ کی جگہ عالمی نظام میں چین کے پہلے نمبر پر آنے کی باتیں بھی تواتر سے کی جا رہی ہیں لیکن چونکہ چین میں میڈیا بہت محدود ہے اور مختلف طرح کی اپروچ کے تحت چلتا ہے اس لیے چین والے اس کا زیادہ تذکرہ نہیں کرتے جبکہ بہت ساری خبریں یہ آچکی ہیں کہ چین نے معاشی طور پر کل آمدنی کے اعتبار سے امریکہ کی بالادستی ختم کردی ہے اور معاشی میدان میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر وہ پہلے نمبر پر آچکا ہے۔ موجودہ سال اور کس کس اعتبار سے اہم ترین سال بن چکا ہے‘ آئیے ان موضوعات کا جائزہ لیتے ہیں۔
پٹرو ڈالر اور ڈالر سکالرز
مجھے آج اپنے مرحوم اور محسن استاد ڈاکٹر مسکین علی حجازی صاحب بے تحاشا یاد آرہے ہیں۔ انہوں نے اپنا امریکی سفر نامہ ''ڈالر کے دیس میں‘‘ کے نام سے لکھا تھا۔ دنیا میں ڈالر نامی کرنسی اور بھی بہت سے ممالک کی ہے لیکن جب بھی ڈالر کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مرادپوری دنیا میں صرف امریکی ڈالر ہی لیا جاتا ہے۔ امریکی ڈالر کا نشان انگریزی حرف S ہے ‘ جس میں سے دو لائنیں اوپر سے نیچے کو گزرتی ہیں، جبکہ دیگر تمام ڈالرز کے لیے بھی اسی قسم کا سمبل استعمال ہوتا ہے مگر فرق یہ ہے کہ اس S میں سے صرف ایک لائن گزرتی ہے۔ اسے اس طرح لکھا جاتا ہے: $۔ البتہ جہاں کہیں سنگل لائن والا ڈالر سائن ($) استعمال ہو‘ وہاں ساتھ یہ بھی واضح کرنا ضروری ہوتا ہے کہ یہ کس ملک کا ڈالر ہے۔ یقینا بہت سے لوگوں نے یہ بات پہلے نوٹ نہیں کی ہو گی‘ اسی لیے آج ڈالر کا یہ فرق بھی واضح کر دیا۔
اب بات ڈالر کے ان کمالات کی جن میں یہ کرنسی ایک ہتھیار کی طرح استعمال ہوئی۔ ڈالر کا عروج اُس وقت آیا تھا جب امریکہ کی روس کے ساتھ سرد جنگ شروع ہوئی تھی۔ امریکہ سوویت مخالف ملکوں کو ڈالر کی شکل میں مالی مدد سے لے کر ہتھیار تک سب کچھ فراہم کر رہا تھا اور پھر سب سے بڑھ کر‘ ڈالر کے عوض ایسے بولنے والے اور اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو اپنے ساتھ ملاتا تھا جن کے ذمے صرف ایک کام ہوتا تھا کہ انہوں نے اشتراکی نظامِ حکومت کی مخالفت کرنی ہے۔ اس مقصد میں سب سے زیادہ ڈالر جو خرچ ہوئے وہ مسلم دنیا میں ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کمال مہارت کے ساتھ مسلم دنیا کو امریکی اس طرح ترغیب دینے میں کامیاب رہے کہ دیکھیں! ہم آپ کی طرح خدا کو ماننے والے ہیں، لیکن اشتراکی نظام والے یعنی سوویت یونین والے‘ وہ تو سرے سے خدا کے ہی منکر ہیں۔ آپ اگر یہ راز اپنی انکھوں سے دیکھنا اور سننا یا پھر پڑھنا چاہیں تو امریکہ کے سینیٹر چارلی ولسن پر لکھی گئی جارج سرکل کی کتاب ''Charlie Wilson's War‘‘ پڑھ لیں یا اس کتاب پربننے والی فلم بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی اعلیٰ عہدیدار پاکستان میں آکر قبائلی علاقوں میں مذہب کے نام پر نعرے لگوایا کرتے تھے۔ اس کتاب؍ فلم سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سینیٹر چارلی ولسن ڈالروں کے ذریعے مصر کے وزیر دفاع کو خوش کرتا ہے تاکہ وہ اس کو وہ اسلحہ بیچ دے جو روس نے مصر کو دیا ہوا ہے۔ پھر یہی اسلحہ افغانستان بھیجا جاتا تھا۔ اس سارے کھیل کا مقصد یہ تھا کہ اگر یہ اسلحہ پکڑا جائے تو بھی روسی فوج کو یہی لگے کہ روسی ساختہ یہ اسلحہ ہمارے فوجیوں سے ہی چھینا گیا تھا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ امریکی عہدیدار اسرائیل کے ایک افسر کو بھی راضی کر لیتے ہیں کہ وہ افغانستان میں روس کے خلاف لڑنے والوں کی مدد کرے‘ چاہے اس کو پاکستان کا روٹ ہی کیوں نہ استعمال کرنا پڑے۔ اس موقع پراسرائیل کا سفیر امریکی سینیٹر کو کہتا ہے کہ ہم ایسے ملک کی مدد کیوں کریں جو دنیا میں ہمارے وجود ہی کو نہیں مانتا؟ لیکن امریکی اسے اشتراکیت کی مخالفت میں راضی کر لیتے ہیں۔ بعد میں اس واقعے کے دیگر شواہد بھی منظرِ عام پر آئے تھے۔
جب امریکہ نے کولڈ وار میں مسلم دنیا کو اپنے ساتھ ملایا ہوا تھا‘ اس وقت افغانستان میں جاری جہاد میں ''پیٹر و ڈالر‘‘ کا استعمال ہو رہا تھا؛ یعنی یہ ڈالر وہ تھے جو پٹرول بیچ کر حاصل ہوتے تھے۔ آپ سمجھ چکے ہوں گے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے ڈالر لے کر افغانستان میں روس کے خلاف جاری جنگ میں انہیں استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی طرح افغان جنگ کے لیے پوری دنیا سے نوجوانوں‘ بالخصوص مسلمانوں کو بھرتی کیا جاتا، انہیں تربیت دی جاتی اور معاوضہ بھی دیا جاتا تھا۔ اس سارے کھیل کو جاری رکھنے کے لیے بنیادی طاقت اور ذریعہ ڈالر ہی ہوا کرتا تھا۔ اب اس سارے عمل میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ امریکہ کے اندر بھی ایک ایسا مرکز قائم تھا جہاں افغان جہاد کے لیے بھرتی کی جاتی تھی، لیکن سب سے بڑا جنگی محاذ تو پاکستان کی سرحد پر تھا، جس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ افغانستان کے بعد اگلا نشانہ پاکستان ہو سکتا تھا، جبکہ دوسری وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے علاوہ افغانستان تک جانے کا راستہ صرف ایران سے مل سکتا تھا، لیکن1979ء میں ایران میں انقلاب کے بعد امریکہ نواز شاہِ ایران کی حکومت کا تختہ الٹ چکا تھا اور انقلاب کے بعد کی ایرانی انتظامیہ ہر گز امریکہ کی مدد کو تیار نہ تھی۔
چین کا دور اور بھارت
ایک دلچسپ بات کا تعلق ڈالر کے ساتھ مسلم دنیا سے بھی ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے امریکی ڈالر کی پشت پر ایک تحریر لکھی ہوتی ہے: In God We Trust۔ ہم خدا پر بھروسہ کرتے (یقین رکھتے) ہیں۔ لیکن دوسری طرف امریکہ سیکولرازم کا پرچارک ملک ہے۔ یہاں یہ حقیقت اس لیے بیان کرنا ضروری ہے کہ امریکی اس ایک سطر کو حوالے کے طور پر بہت زیادہ استعمال کرتے تھے۔ اسی ایک سطر کی آڑمیں امریکہ نے کولڈ وار کو مذہب اور الحاد کی جنگ بنا کر پیش کیا اور جو مذہب کے نام پر جو امریکی بیانیے کو آگے بڑھاتے‘ ایسے بہت سے سکالرز کی امریکہ نے ڈالروں کے ذریعے مدد کی جو در اصل اس کی اپنی مدد تھی۔ اس وقت لگ بھگ سبھی مسلم ممالک کے سکالرز نے اشتراکیت کے خلاف فتوے دیے، تقاریر کیں، اور کتابیں تک لکھیں۔ افغان جنگ ختم ہونے کے بعد امریکیوں نے خود ہی ایسے لوگوں کو ''پٹرو ڈالر‘ ڈالر سکالرز‘‘کا نام دیا تھا۔ یاد رہے کہ بعد میں اسی امریکہ نے افغان جہاد میں حصہ لینے والی تنظیموں اور لوگوں کو مشکوک ہی نہیں قرار دیا بلکہ انہیں دہشت گردوں کی فہرست میں بھی ڈال دیا۔ اس کے علاوہ امریکہ نے جو کچھ کیا‘ اس کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اس کے لیے افغانستان پر امریکہ کے بیس سالہ قبضے اور جبر کو یاد کرلیں۔ اس تناظر میں پاکستان کی کہانی دیگر تمام مسلم ممالک سے زیادہ گہری اور گمبھیر ہے۔ یہاں اشتراکیت کا ایک باقاعدہ خوف کھڑا کیا گیا تھا اور تعلیمی اداروں میں اس طرح کا ماحول پیدا کیا گیا کہ اشتراکیت کے نام پر کوئی انقلاب آنا تو دور کی بات‘ اشتراکیت کا کوئی نام لیوا بھی پیدا نہ ہو جائے۔ ابلاغیات کے معروف استاد ڈاکٹر مہدی حسن کی یاد آگئی، جو اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی سرخ رنگ کی قمیص، شرٹ یا جرسی پہن کر یونیورسٹی آجاتا تھا تو اس پر بھی اشتراکی ہونے کا شک کیا جاتا تھا، اور اس کو ممکنہ سرخے یا سرخا کا نام دیا جاتا تھا۔ یاد رہے اشتراکیت کا علامتی رنگ سرخ ہے۔ یہ بات بہت عجیب ہے مگر اس وقت باقاعدہ طور پر یہ نعرے لگا کرتے تھے: سبز ہے‘ سبز ہے... ایشیا سبز ہے۔ یہ سبز رنگ‘ جسے ہمارے ہاں شاید مذہب سے موسوم کیا جاتا ہے‘ دراصل سرمایہ دارانہ نظام کا رنگ ہے۔
اب بات چین کی‘ جس نے سرخ یا سبز کی بحث میں پڑے بغیر ایشیا کو اپنے ساتھ ملانا شروع کردیا ہے اور اس مہم میں اس کا سب سے بڑا فوکس مسلم دنیا ہے۔ ہمارا پڑوسی ملک بھارت تاحال ڈالروں کا ڈیلر بنا ہوا ہے اور چین مخالف جنگی جنون میں اسی طرح جھونکا جا رہا ہے جیسے کبھی مسلم دنیا کو سوویت یونین کے خلاف جھونکا گیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چین بھارت کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ بھارت کو سمجھ جانا چاہیے کہ ڈالر کا وقت پورا ہو چکا ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر امریکہ اور چین کے تعلقات کسی موقع پر نارمل ہوگئے تو بھارت والے اپنی نسلوں کو یہ دشمنی کیسے سمجھا پائیں گے۔