تعلیم‘ استاد اور معاشی دکھ

تعلیم بالخصوص جدید سائنسی تعلیم ایک ایسی مسلمہ اور مسلط شدہ حقیقت ہے کہ جس کے بغیر کوئی بھی ملک نہ صرف معاشی ترقی نہیں کر سکتا بلکہ اپنی دفاعی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتا۔ یہ آج کے اس دور ہی کی بات نہیں بلکہ تاریخ کا بھی یہی سبق ہے کہ دفاع دراصل بقا کی جنگ ہوتی ہے‘ اس لیے یہ سب سے پہلی ضرورت اور پہلا نکتہ ہے کیونکہ اپنا دفاع نہ کر پانے والے ممالک اپنی معیشت حتیٰ کہ سماجی ساکھ بھی کھو دیتے ہیں۔ اس کے لیے سب سے بڑی مثال خود ہمارے اپنے علاقے برصغیر کی ہے جو کبھی معاشی طور پر اتنا بڑا ملک تھا کہ آج تک اس شرح کو کوئی بھی دوسرا ملک نہیں پہنچ سکا۔ گورے کے قبضے سے پہلے برصغیر دنیا کی کل دولت کا ایک چوتھائی پیدا کیا کرتا تھا لیکن اس خطے کے بادشاہوں نے جدید تعلیم کو مسلسل اور مکمل نظر انداز کیے رکھا جبکہ یورپی ممالک نے جدید تعلیم کو اپنا پہلا اور بنیادی مقصد بنایا اور پھر یورپی ممالک اس جدید تعلیم و تحقیق کی بنیاد پر پوری دنیا پر چڑھ دوڑے اور دنیا کے زیادہ تر علاقوں کو اپنی کالونیاں بنا لیا۔ اسی دوڑ اور برتری کے نتیجے میں برطانیہ نے برصغیر کو تقریباً دو سو سال تک کالونی بنا کر ہر ممکن طریقے سے لوٹا اور اپنے ملک کی معیشت کو دنیا کی سب سے بڑی معیشت بنائے رکھا۔ اب آج کے دور میں تعلیم کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے‘ اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تعلیمی استعماریت و سامراجیت
برصغیر کو برطانوی راج نے نہ صرف معاشی لوٹ مار کا گڑھ بنائے رکھا بلکہ اس کیساتھ ساتھ اس خطے کو جن دیگر شعبوں میں پسماندہ رکھا‘ ان میں ایک بڑا شعبہ تعلیم کا ہے۔ اب یہاں آپ کے ذہن میں وہ دلیل آ رہی ہو گی جو آج بھی پاکستان میں ایک مخصوص گروہ بالخصوص سول بیوروکریسی‘ جو آج بھی برطانوی دور کی نافذ کردہ شاہانہ طرز کی ملازمت کے مزے برطانوی دور سے بھی زیادہ لیتی ہے‘ پیش کرتی ہے۔ وہ دلیل یہ ہے کہ برطانیہ نے گورنمنٹ کالج‘ پنجاب یونیورسٹی‘ ایچیسن کالج کی طرز کے کئی ادارے اس خطے کو بنا کر دیے جو کہ ایک احسان ہے لیکن عرض یہ ہے کہ برطانوی استعمار نے یہ ادارے محض ایک ایسی مقامی بیوروکریسی پیدا کرنے کے لیے قائم کیے تھے جو برطانوی حکومت اور مقامی آبادی کے درمیان ایکBufferکلاس کا کام کر سکے۔اس کلاس کو جس ایک اور مقصد کیلئے تعلیم دی جاتی تھی‘ وہ انگریزوں کیلئے بطور مترجم کام کرنا تھا۔ اب اس بحث کو فیصلہ کن موڑ پر اس طرح لایا جا سکتا ہے کہ جب گورا اس خطے سے گیا تھا تو اس علاقے یعنی برصغیر کی شرحِ خواندگی دس فیصد سے بھی زیادہ نہ تھی۔ یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اس وقت اپنا نام لکھنے اور پڑھنے کے قابل شخص کو خواندہ مانا جاتا تھا یا آپ یوں کہہ لیں کہ ایک پرائمری پاس شخص کو خواندہ مان لیا جاتا تھا۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ ماضی میں اس قسم کے خواندہ لوگ اپنے دستخط کرتے ہوئے اپنا نام لکھنے کے ساتھ بقلم خود لکھا کرتے تھے‘ جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ دستخط اس نام کے بندے نے خود کیے ہیں۔
اب اس موضوع کو چننے کی کی وجہ پر بات کی جائے تو آج کل شعبۂ تعلیم سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں سوشل میڈیا پر ایک مذمتی بحث جاری ہے۔ اس میں ایک بہت بڑا نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ اس سال او لیول کے امتحان میں پاکستان سے شریک ہونے والے طلبہ و طالبات کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ ایک امیدوار کی جانب سے اس امتحان کے آٹھ مضامین کی کل فیس دو لاکھ سے زیادہ بنتی ہے۔ اب اگر ان دونوں اعداد کو ضرب دی جائے تو یہ رقم بیس ارب سے زیادہ بنتی ہے۔ یہ ایک خطیر رقم ہے۔ یہاں سب سے پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ یہ محض میٹرک لیول کا امتحان ہے‘ فرق صرف یہ ہے کہ سوالیہ پرچے برطانیہ سے بن کر آتے ہیں اور یہ پرچے چیک بھی برطانوی نگرانی میں کیے جاتے ہیں۔ اس کا ایک مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ ہمارے اپنے ہی لوگوں کو اپنے امتحانی بورڈز کے تحت ہونیوالے امتحانات اور اس کے جاری کردہ تنائج اور سَندوں پر کوئی یقین یا اعتماد نہیں ہے۔ اگلی اہم بات یہ ہے کہ اس سطح کے امتحان کا کام تعلیم کی بنیادی سطح کی جانچ کرنا ہے نہ کہ کوئی ایسی ڈگری دینا کہ جس کے تحت وہ کسی ملازمت یا پیشے کو اپنانے کے قابل ہو سکتا ہے۔ اب ایک سیدھا اور صاف حل تو یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں ہی ایک اعلیٰ لیول کا بورڈ بنا دیا جائے جو اے لیول اور او لیول کی طرز پر امتحان لے لیا کرے اور اس کے نتیجے میں ایک اعلیٰ طرز کی سند جاری کر دی جائے۔ دوسرا حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صرف برطانوی امتحان ہی کیوں کسی اور ملک‘ جیسے چین‘ ترکی‘ ملائیشیاء وغیرہ کے کسی امتحانی نظام کے تحت امتحان دلوا دیا جائے جو کم از کم اتنے زیادہ ارب تو ملک سے لے کر نہ جائے۔ ویسے اصل حل تو یہ ہی ہے کہ ایک اعلیٰ معیار کا وفاقی بورڈ پاکستان میں ہی بنایا جائے جس کے نصاب‘ امتحان اور پرچوں کی جانچ پڑتال عالمی طرز اور سطح کی کر لی جائے۔ اب اس معاملے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اس امتحان کے نتیجے میں جو بیس ارب کا خرچ اور سرمایہ بیرون ملک جاتا ہے‘ اس خطیر رقم کا اگر ملک کے کل تعلیمی بجٹ سے موازنہ کیا جائے تو بہت زیادہ تشویش لاحق ہوتی ہے کیونکہ پاکستان کا کل تعلیمی بجٹ محض 65ارب روپے ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ یہ امتحانی فیس بیس ارب نہیں ہوگی اور ہم فرض کرتے ہوئے اس کو اگر اس سے کم بھی مان لیں تو بھی یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ ویسے امتحان میں اترنے والوں کی تعدا تو بہرحال ایک لاکھ سے زیادہ ہی بنتی ہے۔ اب ملک کے کل تعلیمی بجٹ کی بات ہوئی ہے تو بتاتے چلیں کہ آج تک کسی ملک نے اپنی کل آمدنی کا پانچ فیصد سے زیادہ تعلیم پر خرچ کیے بغیر ترقی نہیں کی ہے اور یہ بیس ارب روپے کی رقم اتنی خطیر ہے کہ ہمارے کل تعلیمی بجٹ کا تمسخر ضرور اڑا رہی ہے۔
استادوں کے ساتھ ظلم
اب پاکستان میں استادوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی طرف نظر دوڑائیں تو نظریں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ گزشتہ حکومت کے دوران ہونے والی کالج لیکچررز کی بھرتیوں کا عمل اُس وقت تشویش کا شکار ہو گیا جب بھرتی کے قابل قرار دیے جانے والے لیکچررز کی تعیناتی اس لیے روک دی گئی کہ اب پنجاب میں نگران حکومت آ چکی ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ یہ تو وہ بھرتیاں تھیں جو زیادہ تر مکمل ہو چکی تھیں اور حتمی نتائج کا اعلان بھی ہو چکا تھا۔ احتجاج کی صدائیں بلند ہوئیں تو تب کہیں جا کر شاہانہ بیوروکریسی کو کچھ خیال آیا اور یہ عمل آگے بڑھا۔ تعلیم کے شعبے کے ساتھ ہونے والے ایک اور ظالمانہ سلوک کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل اساتذہ کو بالترتیب پانچ اور دس ہزار روپے ماہانہ اضافی معاوضہ ملتا ہے۔ غضب کی بات یہ ہے کہ گزشتہ کم از کم 23سال سے یہ معاوضہ اتنا ہی ہے۔ 23 سال اس لیے لکھا ہے کہ راقم خود بھی اتنے سال پہلے ہی اس الائونس سے آگاہ ہوا تھا۔ اب باقی اندازہ آپ خود لگا لیں کہ اتنے سالوں کے بعد بھی پاکستان میں کون سے کام کا معاوضہ ہوگا جو آج بھی وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ اب اگر آپ ایم فل یا پی ایچ ڈی کے ماہانہ معاوضے کی بات کریں تو یہ حکومت کی جانب سے طے کردہ مزدور کی کم سے کم مزدوری سے بھی کم ہے۔ مزدور کا کام ایک بلڈنگ بناکر کھڑی کرنا ہوتا ہے جبکہ استاد پوری قوم کو اپنے قدموں پر کھڑا کرتا ہے لیکن اس کے لیے استاد کا معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا ہونا لازم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں