بھارت کا بڑا مسئلہ خود بھارت

جس طرح چین کو کبھی Sleeping Giant کہا جاتا تھا، اسی طرز پر بھارت کو آج کل Silly Giant کہا جا رہا ہے۔ لفظ Giant سے مراد یہاں ایک بڑا ملک ہونا ہے۔ اس کے معنی مثبت اور منفی‘ دونوں ہو سکتے ہیں۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے، دوسری طرف یہ دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی والا ملک بھی ہے۔ اسی کے ساتھ ایک اور بڑائی کا سبب بھارت میں دنیا کی سب سے زیادہ علیحدگی پسند تحریکوں کا چلنا ہے۔ علیحدگی پسند تحریکوں کی کہانی اتنی گمبھیر ہے کہ آپ بھلے عالمی ویب سائٹس پر چلے جائیں‘ ان کی تعداد اٹھارہ سے چھتیس تک ملتی ہے۔ یہاں اس بات کو چھوڑ دیں کہ بھارت کے آنجہانی سابق آرمی چیف نے اس حوالے سے اعتراف یوں کیا تھا کہ بھارت کے اندر چلنے والی تحریکیں بھارتی آرمی کے لیے آدھے محاذ کا درجہ رکھتی ہیں۔ اب آپ حالیہ دنوں میں بھارت کی سات علیحدگی پسند ریاستوں میں سے ایک منی پور کے اندر ہونے والے فسادات کو دیکھ لیں جس میں اب تک سو سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں اور اب بھارتی آرمی کو وہاں تعینات اور کرفیو نافذ کر کے امن و امان بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھارت کے وزیر خارجہ نے نہ صرف سفارتی آداب بلکہ علاقائی اور مشرقی روایات کی بھی دھجیاں بکھیرتے ہوئے‘ اپنے ملک میں مہمان کے طور پر آئے پاکستان کے وزیر خارجہ سے نہ صرف جنگی طرز کا رویہ اپنایا بلکہ چین جیسی طاقت کے ساتھ بھی معاملات کو حل کرنے کی بات کرنے کے بجائے 'خودکش‘ قسم کے بیانات داغ دیے۔
جے شنکر کے خواب نما خیالات
بھارت کی سب سے بڑی ایجنسی کے ایک سابق سربراہ‘ آر این کائو کا انٹرویو اگر سنیں تو وہ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ امریکہ ایک بہت طاقتور ملک ہے لیکن اس کا راستہ غلط ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں طاقتور ملکوں کی جانب سے بیانیے کی بنیاد پر جنگیں لڑی جاتی ہیں۔ وہ عراق کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا جواز بنا کر عراق پر اس لیے حملہ کیا تاکہ وہ اس کو تیل کی دولت سے محروم کر کے خود اس کا مالک بن سکے۔ مگر امریکہ جیسی طاقت کا یہ بیانیہ ناکام ہوا اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے اعترافات سمیت دیگر بہت سارے حقائق نے یہ واضح کر دیا کہ عراق میں خطرناک ہتھیار سرے سے تھے ہی نہیں۔ اس سلسلے میں سابق امریکی فوجی افسران بھی احتجاج کرتے ہیں کہ ان کو جھوٹ بول کر عراق میں جنگ پر بھیجا گیا اور وہ اس پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ اب اس تناظر میں جب جے شنکر کے خیالات کو سنا جائے جو انہوں نے پاکستانی وزیر خارجہ کی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر بھارت میں موجودگی کے دوران ظاہر کیے‘ تو خیال آتا ہے کہ وہ اپنے ملک کی خفیہ ایجنسی کے سابق چیف کی گفتگو سے ہی سبق حاصل کر لیتے کہ بیانیہ طاقتور ممالک بناتے ہیں؛ جیسے امریکہ‘ تو شاید انہیں اس قدر سبکی کا سامنا نہ ہوتا۔ انہیں شاید علم نہیں کہ اگر بیانیے میں دم نہ ہو تو بیانیہ نہ صرف بکھر جاتا ہے بلکہ اس بیانیے کو گھڑنے والے ملک کی اصلیت بھی عیاں ہو جاتی ہے۔ اب بھارت نہ تو ایک طاقتور ملک ہے، اور نہ ہی اس کا بیانیے میں دم ہے‘ حتیٰ کہ آخری سانسیں لینے والے مریض جتنا بھی دم اس میں نہیں ہے۔ جے شنکر دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے‘ اور کچھ نہ سہی‘ کم از کم کلبھوشن یادیو اور ابھینندن کو ہی یاد کر لیتے۔اپنے سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کا وہ انٹرویو یاد کر لیتے جس میں وہ فخریہ طور پر اعتراف کر بیٹھے تھے کہ وہ ڈالرز دے کرافغان شہریوں کو تربیت اور اسلحہ دے کر پاکستان میں دہشت گردی کراتے رہے ہیں۔ جو ڈوزیئر پاکستان کی جانب سے عالمی سطح پر پیش کیا گیا‘ اس کے مطابق بھارت اپنے ملک سمیت افغانستان میں دو درجن کے قریب ایسے مراکز چلاتا رہا ہے جہاں دہشت گردوں کو پاکستان مخالف تربیت دی جاتی تھی۔ اور کچھ نہیں تو بھارتی وزیر خارجہ افغان جنگ میں ستر ہزار سے زائد سویلین اور دس ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز اہلکاروں کی شہادت کا ہی کچھ خیال کر لیتے‘ تو ان کو احساس ہو جاتا کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے زیادہ جانی و مالی قربانیاں دی ہیں‘ اُس جنگ میں جس کی سرپرستی بھارت کر رہا تھا اور جس کا اس کے اعلیٰ عہدیدار اعتراف بھی کر چکے ہیں۔
چین کے سامنے اکڑ نے کی کوشش
جب چین نے ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال کرائے تو بہت سارے لوگوں نے کہا کہ پتا نہیں کب چین اس قابل ہوگا کہ وہ پاک بھارت تعلقات کو بحال کرا سکے۔ اس حوالے سے گزارش یہ ہے کہ چین تو ابھی خود بھی بھارت سے اپنے تعلقات مکمل بحال یعنی نارمل نہیں کر پایا تو وہ بھارت کو پاکستان مخالف جارحانہ و جنگی پالیسیوں سے کیسے روکے گا؟ جے شنکر نے کانفرنس کے موقع پر چین جیسی طاقت کے ساتھ بھی مخالفانہ اور جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ موصوف کا کہنا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی سرکاری زبانوں میں چین کی زبان(Mandarin Chinese) اور رشین کے ساتھ انگلش کو بھی شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیر کو بھول جائے، لیکن جے شنکر خود یہ بھول گئے کہ کشمیر محض دو طرفہ عالمی تنازع نہیں ہے بلکہ کشمیر کا ایک بڑا حصہ چین کے کنٹرول میں ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی‘ چین بدستور کشمیر کے اس حصے میں‘ جو اس کے کنٹرول میں ہے یعنی لداخ‘ وہاں سے بدستور آگے بڑھ رہا ہے۔ علاوہ ازیں چین کی پیپلز لبریشن آرمی متعدد مواقع پر جو ذلت بھرا سلوک بھارتی آرمی کے ساتھ کر چکی ہے‘ اس کے بعد بھارتی آرمی کی حیثیت ایک بی ٹیم جیسی ہو چکی ہے۔ لیکن جے شنکر کی باتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ بھارت سرکار ابھی تک ایک خود پسندی اور نرگسیت کا شکار ہے۔
اگلی بات حیران کن سے زیادہ پریشان کن ہے‘ جے شنکر نے سی پیک کوریڈور کے روٹ کے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے گزرنے پر اعتراض کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ متنازع علاقے ہیں۔ ایک طرف وہ پاکستان کو کہہ رہے کہ کشمیر کو بھول جائیں اور خود کشمیر کو متنازع علاقہ قرار دے رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ سی پیک مخالفت کی وجہ امریکی اشیرباد ہے۔ چین سے اپنے معاملات سلجھانے کی کوشش کرنے کے بجائے بھارت الجھائو کا شکار ہو کر خود کش حرکات کا مرتکب ہو رہا ہے۔ چین کے اس عالمی پروجیکٹ کو افریقہ حتیٰ کہ خود یورپ کے کئی ممالک بھی جوائن کر چکے ہیں، لیکن بھارت تاحال اس کا حصہ بننا تو کجا اس کی مخالفت پر تُلا ہوا ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ بجا طور پر بھارت چین جیسی طاقت کیلئے ایک ایسی ہڈی بن چکا ہے جسے نہ تو نگلا جا سکتا ہے اور نہ ہی اُگلا۔ وجہ یہ ہے کہ چین‘ بھارت سرحد‘ چین کی روس سے ملحقہ سرحد کے بعد دوسری بڑی سرحد ہے۔ آبادی کے لحاظ سے بھارت دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ حالات مکمل طور پر اس سب کا ایک ہی حل بتا رہے ہیں‘ وہ یہ کہ بھارت کا نقشہ اور اس کا قد بدلے بغیر بھارت سدھرنے کا نہیں۔ اس لیے بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ خود بھارت ہی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں