تبدیلی، ترقی اور جنگیں

دنیا میں تبدیلی کے عمل سے متعلق کہا جاتا ہے کہ پہلے ہزاروں بلکہ لاکھوں سالوں کی تبدیلی کا عمل صدیوں میں طے ہونا شروع ہوا تھا۔ یہ بات دنیا کے سب سے پہلے انقلاب یعنی زراعت سے متعلق کی گئی کیونکہ انسان کو جنگل کی زندگی سے نکل کر زراعت کے مرحلے تک آنے میں تقریباً پچیس لاکھ سال لگے تھے۔ یہ انقلاب آج سے لگ بھگ دس ہزار سال پہلے آیا تھا۔ اس کے بعد تبدیلی اور ترقی کی رفتار بڑھی اور زراعت کے بعد انسان نے تاریخ کا دوسرا بڑا انقلاب دیکھا یعنی صنعتی انقلاب؛ جو 1750ء کی دہائی میں شروع ہوا تھا۔ اس طرح زراعت سے صنعت تک کا سفر تقریباً دس ہزار سال میں طے ہوا بلکہ دس ہزار سال میں سے اڑھائی صدیاں کم لگیں یعنی لگ بھگ پونے دس ہزار سال۔ اس کے بعد دنیا میں اگلا انقلاب کمپیوٹر کی بنیاد پر معلومات کے سیلاب اور مصنوعی ذہانت کا آیا۔ اس سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ بیسویں صدی کی آخری دہائی سے پہلے یعنی 1980ء کی دہائی میں ہی شروع ہو چکا تھا۔ اب حساب سادہ ہوگیا کہ صنعتی انقلاب کے بعد اس تیسرے انقلاب کو دو صدیوں سے کچھ زیادہ عرصہ لگا۔ اسی لیے اب کہا جاتا ہے کہ صدیوں والی تبدیلیاں اب دہائیوں میں اور دہائیوں والی تبدیلیاں سالوں میں اور سالوں والی مہینوں میں بدل گئی ہیں، اور اب تو بات گھنٹوں تک آن پہنچی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ گھنٹوں والی بات شاید بہت سے لوگوں کو ہضم نہ ہو یا ان کی سمجھ میں نہ آئی ہو اور وہ اس کو مبالغہ سمجھیں‘ چلیں اس موضوع کو واضح کرتے ہیں۔
معیشت کے علاوہ تبدیلیاں
درج بالا سطور میں ہم نے جن انقلابات کا ذکر کیا‘ وہ بنیادی طور پر معیشت سے متعلق ہیں لیکن اس کے علاوہ دنیا نے سیاسی‘ سماجی اور انفرادی انقلابی تبدیلیاں بھی دیکھی ہیں۔ جب دنیا کی معیشت زراعت پر چلتی تھی تب پوری دنیا میں بادشاہت کا سیاسی نظام چلتا تھا۔ اس وقت سیاسی میدان میں بادشاہ بادشاہوں سے ٹکراتے تھے۔ جنگوں کی بنیادی وجہ ایک دوسرے کے وسائل پر قبضہ کرنا ہوتا تھا۔ اس وقت بنیادی طور پر وسائل سے مراد زرخیز زرعی زمینیں ہوا کرتی تھیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم یا زرخیز زمینیں دریائوں کے کنارے پر ہوتی تھیں۔ دریائوں میں سیلاب آتے تھے۔ سیلابی پانی ملحقہ زمینوں کو نہ صرف سیراب کرتا تھا بلکہ اپنے اندر موجود انتہائی زرخیز مٹی بھی قریبی زمینوں پر بچھا دیتا تھا۔ اس بات کو تعلیمی طور پر ذہن نشین رکھنے کے لیے ہمیشہ یاد رکھیں کہ دنیا کے تمام شہر‘ جن کو قدیم تہذیبیں کہتے ہیں‘ بڑے دریائوں کے کناروں پرآباد تھے۔ آپ دنیا کی سب سے پہلی تہذیب میسو پوٹیمیا اور دو قدیمی شہروں کی مثال لے لیں جو دجلہ اور فرات کے کناروں پر آباد تھے۔ یہ موجودہ عراق کے علاقے ہیں۔ مزید یہ بھی بتاتے چلیں کہ زراعت کا آغاز اسی علاقے سے ہوا تھا اور یہ بادشاہوں کا ہی دور تھا۔
اب بات واپس بادشاہوں کی سیاست کی‘ وقت کیساتھ یا یوں کہہ لیں کہ صنعتی انقلاب کے آنے سے دنیا میں شعور نے زور پکڑا، ظاہر ہے کہ صنعتی انقلاب آیا ہی سائنسی تعلیم کی بنیاد پر تھا۔ اس تعلیمی شعور کی بدولت لوگوں نے بادشاہوں کے لا متناہی اختیا ر کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ اس مرحلے پر سیاست میں بادشاہوں کا ٹکرائو اپنے ہی عوام سے ہونا شروع ہو گیا۔ اس سیاسی ٹکرائو کی کوکھ سے جمہوریت نے جنم لیا۔ جمہوریت کے لیے پہلا خونیں انقلاب فرانس میں 1789ء میں آیا تھا۔ اس انقلاب کا نعرہ آج تک کی انسانی تاریخ میں جمہوریت کی سب سے مختصر ترین مگر معنی خیز تعریف مانا جاتا ہے۔ اس جمہوری انقلاب کا نعرہ تھا: آزادی، اخوت اور مساوات۔ اس نعرے میں آزادی سے مراد بادشاہت کے اختیار سے آزادی تھی۔ حکمرانوں کے اختیار کا حق عوام کو منتقل کرنا تھا‘ جو کر دیا گیا۔ اخوت سے مراد ہے لوگوں میں باہمی مدد اور بھائی چارہ قائم کرنا۔ اسی طرح امیر ترین لوگوں اور غریب لوگوں میں فرق کو ختم کرنا تھا۔ امیر ترین لوگوں میں بادشاہ، امرا، وزرا اور چرچ کے پادری شامل تھے۔ اس کے علاوہ مساوات سے مراد تمام انسانوں کو برابر کے حقوق فراہم کرنا تھا۔ اس کا ایک واضح مطلب تھا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ لیکن ایک بات یہاں پر بہت اہم ہے‘ جو یہ بیان کرتی ہے کہ مساوات صرف سیاسی حقوق ہی کے لیے کافی نہیں بلکہ معاشی طور پر بھی مساوات بہت ضروری ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ مساوات آج تک کی انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دکھ اور عذاب ہے۔ اس معاشی برابری سے متعلق ایک انقلابی فلسفہ 1867ء میں پیش کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں روس میں پہلا انقلاب معاشی برابری قائم کرنے کے لیے 1917ء میں اشتراکیت کے نام سے آیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ جمہوریت نے لوگوں کو ذاتی اور سیاسی طور پر جمہوری بنایا لیکن صنعتی انقلاب کے نتیجے میں معاشی استبداد اور آمریت پہلے سے بھی کہیں زیادہ مضبوط ہو کر سامنے آگئی۔ مطلب چند لوگ(کل آبادی کا بیس فیصد) ملکوں کی کل معیشت کے 80 فیصد پر قابض ہوگئے۔ اسی معاشی آمریت کا رد کرنے کے لیے اشتراکیت کا فلسفہ ابھرا اور انقلاب میں ڈھل گیا۔ اسی لیے اشتراکیت کو سیاسی طور پر قدرے کم جمہوری سمجھتے ہوئے بھی نام معاشی جمہوریت کا دیا گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی شکل میں معاشی آمریت آج بھی نہ صرف قائم ہے بلکہ زیادہ مضبوط ہو رہی ہے۔ اگر آج کے اس جدید دور کے ایک سب سے بڑے مسئلے کا ذکر کیا جائے تو یہ امیر ترین اور غریب ترین لوگوں کے مابین کا فرق نہیں ہے بلکہ اب تو امیر ترین اشرافیہ کا مڈل کلاس سے بھی کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ تاریخ کی زیادہ تر تبدیلیاں دراصل اپنے ساتھ کثیر تباہی بھی لائی ہیں۔
روس اور امریکہ کی سردجنگ
اب بات آتی ہے دو سیاسی و معاشی نظریات کے ٹکرائو کی، جس کے نام پر ہونے والی جنگ کو سرد جنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ جنگ دوسری عالمی جنگ کے فوری بعد باقاعدہ طور پر شروع ہو کر سوویت یونین کے ٹوٹنے تک جاری رہی تھی۔ اس جنگ کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اشتراکی انقلاب کو روس اپنے ہاں تک محدود رکھنے کے بجائے اسے پوری دنیا میں ایک معاشی عقیدے کی طرح پھیلانے کے مشن پر جڑ گیا تھا۔ روس مختلف خطوں اور ملکوں کی حکومتیں بناتا اور گراتا تھا۔ ان کی ہر طرح کی معاشی و مسلح مدد کرتا تھا اور مداخلت بھی۔ اس کو روکنے کے لیے مغربی حکومتوں کے علاوہ دنیا کے بڑے بڑے امیر لوگ بھی روس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ یاد رہے کہ اس سرد جنگ کو اپنی نوعیت اور لڑنے کے نت نئے طریقوں کے سبب چوتھی نسل کی جنگ کہا جاتا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ہمارے ہاں آج کل ففتھ جنریشن وارفیئر یعنی پانچویں نسل کی جنگ کا ذکر اور اس پر بحث ہوتی ہے، جبکہ اہم ترین بات یہ ہے کہ پانچویں نسل کی جنگ در اصل چوتھی نسل کی (سرد) جنگ ہی کی جدید اور زیادہ پھیلائو والی شکل ہے۔ ایک پہلو یہ ہے کہ روس بنیادی طور پر ایک ایشیائی ملک ہے اس لیے سرد جنگ کو مشرق اور مغرب کی جنگ کی نظر سے بھی دیکھاجاتا تھا۔ اس کی ایک دوسری وجہ 1949ء میں چین میں اشتراکی انقلاب کا آناتھا۔ روس رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا جبکہ چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا جو اشتراکی ہوگیا۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا، ویتنام اور کمبوڈیا جیسے ایشیائی ممالک کا اشتراکی ہو جانا اس سرد جنگ کو واضح طور پر مشرق اور مغرب کی جنگ بنا چکا تھا۔ یورپ کے پانچ کمزور ممالک کے علاوہ باقی سبھی ممالک امریکی سرپرستی میں سرمایہ دارانہ نظام کے حامی و اتحادی تھے۔ یہ سرد جنگ روس کی شکست پر ختم ہوئی تھی۔ اب نئی سرد جنگ پانچویں نسل کی جنگ کی طرز پر لڑی جارہی ہے۔ اس بارچین اور امریکہ مدمقابل ہیں۔پاکستان بھی اس جنگ کے میدانوں میں سے ایک ہے۔ کئی محاذوں پر چین برتری لے جا چکا ہے۔ روس اور چین کے ایک ہونے اور بہت سے ممالک کے چین کی طرف جھکائو نے اس جنگ کو ایک بار پھر مشرق اور مغرب کی جنگ بنا دیا ہے۔ اس جنگ کے حوالے سے مزید بات اگلے کالم میں کی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں