جنگیں اور ڈیفالٹ کا خطرہ

آخرکار امریکی حکومت نے اپوزیشن کو راضی کر کے اپنے قرضے کی حد‘ جسے قرض کی چھت کہا جاتا ہے‘ بڑھا کر اپنے ڈیفالٹ ہونے کے خطرے کو ملتوی کر دیا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کو ڈیفالٹ کا خطرہ ختم یا کم ہونا کیوں نہیں کہا جا رہا، تو گزارش ہے کہ امریکہ پر قرضہ ہر لمحہ بڑھ رہا ہے۔ اس حوالے سے آپ اگر گوگل کریں تو آپ کو باقاعدہ ایک کلاک نظر آئے گا جو امریکہ کے بڑھتے ہوئے قرضے کی سالانہ اوسط کو تقسیم کر کے ہر سیکنڈ کے حساب سے قرضے کی رقم میں ہونے والے مسلسل اضافے کو ظاہر کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر یکم جون‘ بروز جمعرات سہ پہر پانچ بجے یہ قرضہ 31.820 ٹریلین ہو چکا تھا۔ (یقینا آپ اب سرچ کریں گے تو اس میں مزید خاصا اضافہ ہو چکا ہو گا اور ممکن ہے کہ یہ 32 ٹریلین ہو چکا ہو۔ اس میں ہر ایک سیکنڈ میں دس ہزار ڈالر سے زائد کا اضافہ ہو رہا ہے) یہاں آپ یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اعشاریہ کے بعد دو کے بجائے تین عدد کیوں لکھے گئے ہیں۔ اس حوالے سے ایک وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ امریکی قرض کی حالیہ خبروں پر مقامی میڈیانے اس قرضے کو 31 کھرب ڈالر لکھا ہے حالانکہ ایک کھرب ایک سو ارب کا ہوتا ہے۔ لیکن ایک ٹریلین میں ایک ہزار ارب ہوتے ہیں‘ یعنی ایک ٹریلین ایک نہیں‘ دس کھرب کے برابر ہوتا ہے۔ اس لیے اگر اس عدد کو کھربوں میں لکھنا ہو تو 31 ٹریلین کو تین سو دس کھرب ڈالر لکھا جائے گا۔ اردو زبان میں ویسے اس کو 0.31 نیل بھی لکھا جا سکتا ہے۔ جی ہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ اردو میں کھرب کے بعد 'نیل‘ کا لفظ آتا ہے‘ یعنی سو کھرب مل کر ایک نیل بنتے ہیں اور سو نیل مل کر ایک پدم۔ اس وقت ہر امریکی شہری اوسطاً 95 ہزار ڈالر سے زائد کا مقروض ہے۔ اگر یہ قرضہ محض ٹیکس پیئرز پر تقسیم کیا جائے تو امریکہ میں ہر ٹیکس ادا کرنے والا فرد لگ بھگ دو لاکھ 48 ہزار ڈالر سے زائد کے قومی قرض تلے دبا ہوا ہے۔ اس ساری وضاحت کی اس لیے بھی ضرورت تھی کہ یہ جانا جا سکے کہ امریکہ جیسی عالمی طاقت پر قرضے کی جو رقم ہے وہ انتہائی غیر معمولی ہے۔ بصورت دیگر اربوں ڈالر کا قرضہ تو اس کے لیے کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا۔ حالیہ یوکرین جنگ میں امریکہ اب تک 75 ارب ڈالر یوکرین کو مختلف مدات میں فراہم کر چکا ہے۔ آپ اس کو یوں بھی سمجھ لیں کہ امریکہ میں ایسی یونیورسٹیاں بھی آپ کو مل جائیں گی جن کا کُل سالانہ بجٹ پاکستان جیسے ملک کے مجموعی تعلیمی بجٹ سے بھی زیادہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس ملک میں 'فل پروفیسر‘ کا رتبہ اور سٹیٹس ایک سینیٹر کے برابر ہوتا ہے۔ شاید یہی ان قوموں کی ترقی کا راز ہے۔
آگے کیا ہو سکتا ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ امریکہ جو سالانہ اتنا زیادہ کماتا ہے کہ پوری دنیا کی کل دولت کا ایک چوتھائی سمیٹ لیتا ہے‘ اس کے باوجود اتنا مقروض کیوں ہو گیا کہ ڈیفالٹ کے دہانے پر جا پہنچا۔ اس کا جواب بہت آسان ہے۔ مسئلہ کمائی کا نہیں بلکہ اخراجات کا ہے۔ اخراجات کئی قسم کے ہوتے ہیں‘ مثبت اخراجات میں تعلیم، صحت اور دیگر ترقیاتی کام وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کا دھیان دنیا کی حکمرانی پر ہو اور آپ یہ چاہتے ہوں کہ دنیا کی سبھی حکومتیں آپ کے نظریات، طرزِ حکومت و معیشت کے تابع ہوں تو پھر آپ کو ایک جارحانہ پالیسی اپنانا پڑتی ہے۔ حکمرانوں، فیصلہ سازوں اور اہم عہدوں پر متمکن شخصیات کو خصوصی و خفیہ مراعات دے کر اپنے دائرۂ اثر میں لانا پڑتا ہے۔ جنگی مشن شروع کرنے اور جاری رکھنے پڑتے ہیں۔ مخالفین کے خلاف مقامی مسلح گروہ تیار کرنا پڑتے ہیں۔ ویسے یہ اپنی حکمرانی برقرار رکھنے کا ایک روایتی طریقہ ہوتا ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اپنی برتری برقرار رکھنے کیلئے اپنے ممکنہ حریفوں کو الجھائو اور انتشار میں مبتلا رکھنا پڑتا ہے تاکہ وہ ترقی کی شاہراہ پر چڑھ ہی نہ سکیں۔ اس حوالے سے امریکی پالیسیاں کیا رہی ہیں‘ یہ جاننے کیلئے آپ کو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ آپ سابق امریکی فور سٹار جنرل ویسلے کلارک کا وہ انٹرویو سن لیں جس میں وہ انکشاف کرتے ہیں کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ان کو پنٹاگون بلا کر کہا گیا کہ آئندہ پانچ سالوں میں چھ مسلم ممالک کی حکومتوں کو ختم کرنا ہے۔ اس کے بعد عراق، لیبیا، شام، افغانستان اور دیگر مسلم دنیا میں جو ہوا‘ اور اب بھی ہو رہا ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ گزشتہ ہفتے کا امریکی نائب وزیر دفاع کا خطاب ہی سن لیں‘ موصوف نے کہا کہ اب امریکہ حکومتیں ختم کرنے کیلئے جنگیں نہیں کرائے گا۔ پوری دنیا میں سو سے زیادہ ممالک ہیں جہاں پر امریکہ نے کسی نہ کسی شکل میں عسکری مداخلت کی اور آج بھی اس کے سات سو سے زیادہ جنگی مشن یا بحری بیڑے دنیا کے 80 ممالک میں موجود ہیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے امریکہ یہ سب کچھ نیو ورلڈ آرڈر کے تحت کر رہا ہے۔
دوسروں کو ترقی یا طاقت کے حصول سے دور رکھنے کی پالیسی کی ایک بہت بڑی مثال سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں ہیں۔ پاکستان سے زیادہ چین کو اس حوالے سے نشانے پر رکھا گیا ہے۔ سی پیک چین کیلئے تجارت میں وہی مقام رکھتا ہے جو عالمی تجارت میں نہر سوئز کو حاصل ہے۔ اسی لیے سی پیک کو ''خشک نہر سوئز‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس منصوبے کو خراب کرنے کی پالیسی میں بھارت کو اس طرح استعمال کیا جا رہا ہے کہ چین یا سی پیک کا نقصان ہو یا نہ ہو لیکن اس کا اپنا نقصان ضرور ہو رہا ہے۔ چین دنیا کی ایک ایسی طاقت ہے جو امریکہ کے برعکس‘ جنگی مداخلت سے ہر ممکن حد تک گریز کرتی ہے، لیکن بھارت کے ہاتھوں چین اتنا تنگ ہے کہ وہ گاہے گاہے اس کی مرمت و مذمت کرتا رہتا ہے۔ اب آپ بھارت کے چند سال پہلے کے ایران کی بندرگاہ چابہار کے منصوبے کو ہی دیکھ لیں۔اس کا بظاہر ایک مقصد تھا کہ بھارت سمندری راستے سے افغانستان تک رسائی حاصل کر سکتا تھا جبکہ افغانستان میں تجارت کا کوئی میدان ہی نہیں تھا، وہاں اُس وقت صرف جنگ کا کاروبار جاری تھا جس میں بھارت امریکہ سے بڑھ کر پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے تھا۔اب امریکہ تو واپس چلا گیا مگر بھارت کے بھرتی کیے ہوئے کچھ لوگ اب بھی بچے ہوئے ہیں جو کوئی نہ کوئی منفی سرگرمی جاری رکھتے ہیں۔لیکن چابہار بندرگاہ پر جتنے ارب ڈالر خرچ ہوئے‘ اس کا حساب معلوم نہیں بھارت کے عوام کبھی لے سکیں گے یا نہیں۔یاد رہے کہ ریت کی دیوار ثابت ہونے والی افغان آرمی کی تربیت بھی بھارت ہی کرتا تھا اور افغان آرمی کو بھارتی آرمی کے ساتھ تربیت دی جاتی تھی۔
جنگ کبھی نہیں جیتی جاتی
اب جنگی اپروچ رکھنے والوں‘ بھارت و امریکہ‘ کو ایک بات سمجھنے کی ناگزیر حد تک ضرورت ہے۔ اس دور میں جنگ کبھی نہیں جیتی جا سکتی۔ یہ بات شاید عجیب لگے مگر حقیقت کے آئینے میں اس کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلی مثال افغانستان ہے۔ امریکہ جیسی طاقت نے مغربی اتحادیوں اور بھارت کو ساتھ ملا کر یہ جنگ شروع کی مگر نہیں جیت سکا۔ یقینا اس دوران نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا لیکن حریف کو نقصان پہنچانا ہی جیت نہیں ہوتی، کیونکہ دوسرے کے نقصان کے ساتھ آپ اپنا بھی نقصان کرتے ہیں‘ چاہے فوجی نقصان بہت زیادہ نہ ہو لیکن عسکری کارروائیوں کیلئے بھاری رقوم خرچ کی جاتی ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے بھارت کے سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کا وہ انٹرویو سن لیں جس میں موصوف فاتحانہ انداز میں بتا رہے ہیں کہ افغانستان میں ملینز آف ڈالر خرچ کر کے بھارت مقامی گروہوں کے ذریعے پاکستان میں مسلح کارروائیاں کراتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بظاہر امریکہ و بھارت نے افغانستان و پاکستان کو جانی و مالی نقصان تو پہنچایا مگر ان کو خود کیا ملا؟ امریکہ اس وقت ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہے اور آئندہ بھی رہے گا‘ اسی طرح بھارت کے اندر بدترین غربت کا ناچ جاری ہے‘ دوسری طرٖف چین کے ہاتھوں مرمت کا سلسلہ بھی بڑھتا جا رہا ہے اور یہ اب اپنی ریاست کی بقا کی جنگ سے دوچار ہے۔ دیگر مسائل کا تو ذکر ہی کیا۔ لیکن بھارت اب بھی جنگی ہیجان کا شکار ہو کر پاکستان کو مزید نقصان پہنچانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں