بھارت کے نامور و معروف صحافی‘ جن کے صرف یوٹیوب پر ساٹھ لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں‘جناب رویش کمار‘ ان کی زبانی بھارت کے حالیہ مسائل پر چند کمال کے فقرے ملاحظہ کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ بھارتی ریاست منی پور میں ہو چکا ہے‘ اگر یہ کشمیری مسلمانوں یا سکھوں کے علاقے میں ہوا ہوتا تو اب تک پتا نہیں بھارت سرکار کیا کچھ کر چکی ہوتی۔ اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے چار میں سے ایک نوجوان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں (یعنی وہ بیروزگار ہے)، لیکن بھارت کے ایک سو سے زائد اینکر پرسنز کے پاس صرف ایک ہی کام ہے؛ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا۔ اب ان کا تیسرا فقرہ‘ جو انہوں نے بھارت سرکار کو ملک کے خراب حالات کے پیشِ نظر کہا ہے‘ کچھ اس طرح ہے کہ: سرکار کو پتا نہیں کہ میڈیا کنٹرول کرنے سے حالات کنٹرول نہیں ہوتے لیکن اگر حالات کنٹرول ہوں تو میڈیا خود بخود کنٹرول ہو جاتا ہے۔ اب بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں سے متعلق بننے والی ایک ہندی فلم ''Anek‘‘ کا ایک ڈائیلاگ پیش خدمت ہے۔ فلم کے ایک منظر میں بھارت کی خفیہ ایجنسی کا ایک آفیسر اپنے ایک سینئر عہدیدار کو کہتا ہے کہ سر! ہم ملک کو تو کنٹرول یا محفوظ کر رہے ہیں لیکن لوگوں کو نہیں۔ اس پر وہ سینئر افسر کہتا ہے: ہمارا مقصد بھی اتنا ہی ہے۔ یہ فلم دیکھ کر کسی حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان سات ریاستوں کے حالات کس قدر کشیدہ ہیں۔
منی پور کا مسئلہ رویش کمار کی نظر میں
کسی بھی دوسرے ملک ، جگہ یا علاقے میں ہونے والے کسی بڑے اور برے واقعے پر اصل حقائق جاننا قدرے مشکل ہوتا ہے ، ایسے میں راقم نے ایک بڑے اور مستند صحافی کے وی لاگز سے استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ رویش کمار کا کہنا ہے کہ 35لاکھ آبادی والی منی پور ریاست میں اس وقت عملاً پولیس بے بس ہو چکی ہے۔ اس بات کا اندازہ کچھ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایمبولینس جلانے کا جو دلخراش واقعہ پیش آیا‘ جس میں ایک عورت‘ اس کا بچہ اور ایک پڑوسی زندہ جلا دیے گئے‘ وہ ایمبولینس ایک ایس پی رینک کا آفیسر اپنی نگرانی میں ہسپتال لے کر جا رہا تھا لیکن فسادیوں کے ہاتھوں وہ اتنا بے بس ہو گیا کہ اس نے ساتھیوں سمیت بھاگ کر اپنی جان بچائی۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سے دو سے اڑھائی ہزار بڑے ہتھیار لوٹے جا چکے ہیں۔ اس وقت ملٹری اور اس سے جڑے اداروں کے تین ہزار لوگ صرف سڑکوں کی حد تک مصنوعی امن قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان فوجیوں کو بھی سڑک کے ذریعے بھیجنے کے بجائے ایئر فورس کے ذریعے وہاں پر اتارا گیا ہے۔ گزشتہ روز ایک وزیر کا گھر نذرِ آتش کر دیا گیا۔ ریاست کے حالات اتنے خراب ہیں کہ اب بھارتی دارالحکومت دہلی میں مظاہروں کے ذریعے آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے گھر کے باہر دونوں متحارب گروہ باری باری اپنے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان مظاہرین نے فسادات میں ہلاک ہونے والوں کے ناموں کی فہرستیں دیواروں پر آویزاں کر رکھی ہیں ۔ مظاہرین نے جو مختلف قسم کے نعرے لکھے ان میں سے ایک نعرہ بہت معنی خیز اور ایک فلسفے کی حیثیت رکھتا ہے۔ نعرہ ہے کہ ''اگر امن ہی نہیں تو انصاف کیسے ہو گا‘‘۔
اب اس ریاست سے متعلق اگلا انکشاف بہت اہم ہے ۔ اس ریاست کی 41فیصد آبادی ہندو جبکہ لگ بھگ اتنی ہی آبادی (41 فیصد) عیسائی ہے۔ اس تناظر میں رویش کمار کی یہ بات مجھے اہم لگی کہ سرکاری لوگوں سے اسلحہ چھینے جانے اور فوجیوں کی ہلاکت اگر مقبوضہ کشمیر یا پنجاب میں ہوئی ہوتی تو پتا نہیں بھارت سرکار اب تک کیا طوفان برپا کر چکی ہوتی ۔ واضح رہے کہ منی پور میں بہت سارے چرچ جلائے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ اگلی بات یہ ہے کہ ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک وزیر اعظم مودی نے اس علاقے کا دورہ نہیں کیا ‘ جس کی وجہ سے پوری ریاست میں مودی کی گمشدگی کے اشتہارات لگائے جا رہے ہیں۔ نہ صرف مودی نے دورہ نہیں کیا بلکہ ابھی تک کسی مالی مدد کا اعلان بھی نہیں کیا ۔ دوسری طرف امیت شاہ نے اپنے دورے میں زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا ۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امیت شاہ کے دورے کے موقع پر بھی ریاست کے مختلف علاقوں میں فائرنگ جاری رہی۔ ان سات ریاستوں کے ایک ہی راستے کے ذریعے باقی بھارت سے منسلک ہونے کی بات تو پہلے بھی کی جاچکی ہے۔ اس کو مرغی کی گردن سے اس لیے تشبیہ دی جاتی ہے کہ اس راستے کی چوڑائی صرف بیس کلومیٹر ہے۔ اس علاقے کے حوالے سے نیپال یہ مطالبہ کر چکا ہے کہ بھارت اپنا یہ علاقہ نیپال کو دے کر بدلے میں ریاست اترا کھنڈ کا وہ حصہ رکھ سکتا ہے‘ جس پر نیپال کا دعویٰ ہے۔ تاہم اب یہ بات اور بھی آگے بڑھ چکی ہے۔
اکھنڈ بھارت سے اکھنڈ نیپال تک
بھارت نے گزشتہ مہینے اپنی پارلیمنٹ کی نئی بلڈنگ کا افتتاح کیا جس کی ایک دیوار پر اکھنڈ بھارت کا نقشہ بنایا گیا ہے۔ اس پر پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش اور نیپال نے بھی احتجاج کیا ہے، لیکن اب نیپال نے ایک قدم مزید آگے بڑھتے ہوئے ایک ایسا نقشہ جاری کیا ہے جس میں بھارت کی تین ریاستوں کے علاقوں کو نیپال کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ ان ریاستوں میں اترا کھنڈ، اتر پردیش اور بہار شامل ہیں‘ اس کے علاوہ پوری ریاست سکم بھی اس نقشے میں شامل ہے۔ نیپال کا کہنا ہے کہ یہ علاقے تاریخی طور پر نیپال کا حصہ رہے ہیں ، اس لیے اب بھارت یہ علاقے اسے واپس کر دے ۔ آپ گوگل پر لمبی پٹی نمااس ملک کا نیا نقشہ دیکھ سکتے ہیں جس کو ''گریٹر نیپال‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ نیپال کے اس نئے نقشے میں بنگلہ دیش کا کچھ حصہ بھی شامل ہے۔ اب یہ بات سب کو سمجھ آ جانی چاہیے کہ یہ سب کچھ نیپال اپنی مرضی سے نہیں کر رہا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ نیپال کی مرضی ہو ہی نہیں سکتی‘ یہ سب چین کی وجہ سے ہو رہا ہے مگر اس کا ذمہ دار چین یا کوئی اور نہیں‘ خود بھارت ہے ، جو اب بھی اکھنڈ بھارت جیسے خودساختہ اور گڑے مردے اکھاڑنے پر مصر ہے۔ واضح رہے کہ دو برس پہلے پاکستان نے بھی اپنا ایک سرکاری نقشہ جاری کیا تھا۔
عالمی حقیقتوں پر ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ عالمی تعلقات اور سیاست میں صرف طاقت کا قانون چلتا ہے۔ پچھلے دس سے بیس برس میں جتنے بھی نئے ملک بنے وہ صرف امریکہ کی ایما پر بنے۔ تیمور نامی ملک کو مشرقی اور مغربی تیمور میں تقسیم کر دیا گیا حالانکہ وہاں کوئی بڑی تحریک نہیں چل رہی تھی۔ اس کے بعد سوڈان کوشمالی اور جنوبی سوڈان میں صرف امریکی اشارے پر دو لخت کر دیا گیا ۔ اگر ذکر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ہو تو راقم نے بہت دفعہ واضح کیا کہ یہ بھی ایک عالمی فیصلہ تھا اور یہ فیصلہ اس وقت کی دونوں عالمی طاقتوں‘ سوویت یونین اور امریکہ‘ نے مل کر کیا تھا۔ مقامی اور علاقائی اسباب‘ یہ سب ذیلی چیزیں ہیں بلکہ روسی خفیہ ایجنسی کے ایک افسر کے مطابق یہ حالات بھی ان کے اپنے پیدا کردہ تھے۔
آج کے حالات پر نظر ڈالیں تو امریکہ اور بھارت اب بھی پاکستان کو گھیرے ہوئے ہیں۔ ڈالر کے کنٹرول سے ملک کو معاشی طور پر دیوالیہ کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ بھارت اپنے اندرونی مسائل حل کرنے کے بجائے پاکستان کو پھر کوئی بڑا نقصان پہنچانے کے خواب دیکھ رہا ہے لیکن اس مہلک اور احمق دشمن کو یہ بدلی ہوئی حقیقت سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ اب عالمی معاملات میں صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ چین کی مرضی بھی چل رہی ہے ۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بھارت چین کی ترقی کی راہ میں پہاڑ بننے کی جو کوشش کر رہا ہے‘ چین اب اس کو راستے کے پتھر کی طرح ہٹانے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔ بھارت نے نقشے بدلنے کی صورت میں جو جنگ شروع کی تھی‘ اب اس کے اپنے حتمی نقشے کا فیصلہ چین کے ہاتھ میں ہے۔ جس کے لیے چین نے ابھی صرف نیپال جیسے ملک کو ایک پراکسی جنگ کی ذمہ داری سونپی ہے۔