مہاجرین کا عالمی دن

20 جون کو دنیا بھر میں مہاجرین کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انسان نے سب سے پہلی ہجرت اس وقت کی جب انسانوں کو کاشتکاری کا ہنر آگیا۔ پہلے انسان جنگلوں میں رہتا تھا‘ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسانوں کا سب سے پہلا مسکن جنگل یا غار ہی ہوتے تھے۔ اس وقت اپنا تحفظ اور بقا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہوتا تھا اور ہر ایسی چیز‘ جس سے ذرا سا بھی خطرہ لاحق ہوتا تھا‘ اسے ختم کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا تھا، یعنی معاشرے میں قانون، اصول و ضابطے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر ہم کسی انسان کو غیر مہذب یا قدرے غیر اخلاقی حرکات کا مرتکب پائیں تواس کو ''جنگلی‘‘ آدمی کا نام دیدیتے ہیں۔ اسی طرح لاقانونیت والے معاشرے کو جنگل کے قانون سے تشبیہ دیتے ہیں‘ جہاں صرف طاقت کا راج چلتا ہے۔ ایسے معاشروں کو کبھی پہاڑی یا صحرائی نہیں کہا جاتا۔ بات ہو رہی تھی انسان کی پہلی ہجرت کی‘ جو اس نے جنگلوں سے دریائی وادیوں کی طرف کی۔ وجہ یہ تھی کہ اسے زرخیز زمین کی ضرورت تھی جہاں وہ فصلیں اُگا سکے۔ اس وقت دریائی علاقے ہی پانی کی بہتات کی وجہ سے زرخیز زمین کا واحد ذریعہ تھے۔ وہ علاقہ جہاں سب سے پہلے کاشتکاری شروع ہوئی‘ آج (زیادہ تر) موجودہ عراق میں ہے، جسے زرخیز روپہلا چاند (The Fertile Crescent) کہا جاتا ہے۔ زرعی انقلاب کے بعد انسانوں کی اگلی ہجرت بھی معیشت ہی کی وجہ سے ہوئی۔ کاشتکاری کے دور کے بعد دنیا میں چھوٹے شہروں کا قیام وجود میں آیا، یہ شہر بنیادی طور پر ایک منڈی ہوتے تھے جہاں لوگ اپنی پیداوار اور زرعی آلات کی خریدو فروخت کیا کرتے تھے۔ یہیں سے انسانی تاریخ کے اس دور کا آغاز ہوا جس کو تہذیب یعنی سولائزیشن کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ شہروں کے قیام کے وقت، ایک ہی جگہ پر جب بہت سارے لوگ اکٹھے رہنا شروع ہو گئے اور ان کے پاس کاروباری سامان بھی موجود تھا تو اس وقت سب کچھ امن و امان اور حفاظت سے چلانے کے لیے (بادشاہ کی سربراہی میں)ایک انتظامیہ کا قیام عمل میں آیا۔ یہ انتظامیہ کچھ نہ کچھ قواعد و ضوابط لاگو کرتی تھی۔ انہی قوانین کے تحت زندگی کا نظام چلنے لگا اور یوں پہلی تہذیب نے جنم لیا۔ یہ ایک اہم تصور ہے جس سے زیادہ تر لوگ لا علم ہوتے ہیں یا پھر فہم واضح نہیں ہوتا کہ دنیا کی سب سے پہلی تہذیب، میسوپو ٹیمیا کیوں ہے‘ جو عراق کے علاقے میں بنی تھی۔ عموماً لوگ یہ نہیں جانتے کہ وہ کیا معیار تھا کہ اس کو تہذیب کا نام دیا گیا۔لہٰذا اب یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ شہروں اور قوانین کا قیام ہی کسی علاقے کے تہذیب کہلانے کا معیار ہے۔ جس طرح ہم پاکستان کی قدیم تہذیبوں کی بات کرتے ہیں تو دو شہروں ہڑپہ اور موہنجو دڑو کا نام لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مہرگڑھ (بلوچستان) بھی پاکستان کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے‘ یہ پورے جنوبی ایشیا کا پہلا علاقہ ہے جہاں گندم اور جو کی کاشتکاری اور جانوروں کی افزائش سے متعلق قدیمی ثبوت ملتے ہیں۔ تہذیب کے تصور اور ہجرت کی تاریخ کی بات کرتے ہوئے آگے بڑھیں تو علم ہوتا ہے کہ لوگوں نے پہلی ہجرت دریائوں کے کنارے پر زرخیز زمینوں کی طرف اور دوسری بڑی ہجرت شہروں کی منڈیوں کی طرف کی تھی۔
جدید تہذیب اور ہجرت
اس کے بعد اٹھارہویں صدی کے وسط میں دنیا میں دوسرا بڑا انقلاب صنعتی شکل میں سامنے آیا۔ مشینوں کی ایجاد نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان مشینوں پر کام کرنے کے لیے مزدوروں کی ضرورت اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ خواتین انسانی تاریخ میں پہلی بار باقاعدہ مزدور کے روپ میں سامنے آئیں۔ نئے شہر آباد ہونا شروع ہو گئے، جن کو جدید تہذیب کا نام دیا جاتا۔ یہ انقلاب تعلیم و تحقیق کے نتیجے میں سامنے آیا اور اس نے بہت سارے نئے پیشوں کو جنم دیا۔ ضروری بات یہ ہے کہ اسی صنعتی انقلاب نے دنیا کو دو نئے تصورات اور عوامل سے دو چار کیا۔ پہلا تصور جمہوریت کا تھا۔ یاد رہے کہ جمہوریت کے لیے دنیا کی تاریخ میں جو بھی تحریکیں چلیں وہ بنیادی طور پر شہروں ہی سے چلیں۔ البتہ اسی صنعتی انقلاب نے پسماندہ ممالک کو ایک آفت سے بھی دوچار کر دیا جس کا نام استعماریت ہے۔ تحقیق کے بل بوتے پر مشینی ایجادات کے ذریعے یورپی ممالک نے دنیا کے باقی حصوں کو اپنی کالونی بنانا شروع کر دیا۔ اس حوالے سے سب سے بڑی استعماری طاقت برطانیہ بنا۔ اب دنیا میں ہجرت کا ایک نیا عمل شروع ہوا جس کی وجہ یورپی ممالک کا معیارِ زندگی بہت بلند اور جدید ہونا تھا۔ دیگر ممالک کے لوگ یورپی ممالک میں اعلیٰ اور جدید تعلیم کے حصول، علاج معالجہ اور حصولِ روزگار کے لیے جانا شروع ہوگئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں پائے جانے والے معیارِ زندگی میں فرق بڑھتا رہا اور آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اسی طرح وقت کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک میں جانے والے لوگوں کے لیے معیار اور شرائط بھی بڑھتی گئیں۔ اس میں نمایاں شرائط تھیں مالی طور پر مستحکم ہونا اور کسی ایسی ڈگری کا حامل ہونا کہ وہ اُس ملک کیلئے محض تعداد کے بجائے استعداد بڑھانے کا باعث بنے۔ اس کے بعد یہ ہجرت باقاعدہ ایک پیشہ بن کر سامنے آئی۔ آپ نے اکثر اشتہارات دیکھے ہوں گے جن میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ چند روز میں سٹڈی یعنی تعلیمی ویزہ حاصل کریں۔ اب برطانیہ اور امریکہ نے ایک نئی شرط یعنی انگلش زبان پر عبور کا بھی اضافہ کر دیا ہے۔ انگلش میں آپ کالیول کیا ہے اس کیلئے ایک باقاعدہ امتحانی عمل شروع کیا گیا، جس کی اچھی خاصی فیس رکھی گئی اور جو آج بھی جاری ہے۔ واضح رہے کہ اس حوالے سے جو امتحان لیا جاتا ہے‘ اس کی فیس ڈالرز اور پائونڈ میں ادا کی جاتی ہے۔ اس امتحان کے نتیجے میں آپ کی انگلش کا معیار ایک مخصوص لفظ 'بینڈ‘ کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔ یہ بینڈ یا لیول ایک سے لے کر آٹھ بلکہ نو تک بھی ہو سکتا ہے۔ اب اگر آپ پہلی دفعہ مطلوبہ معیار حاصل نہیں کر پاتے تو آپ کو تقریباً دو ماہ کا وقت ملے گا اور آپ دوبارہ فیس ادا کرکے امتحان دے سکتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک مذکورہ ممالک کے قونصلیٹ خود بھی اس امتحان کی تیاری کراتے تھے جس کے لیے فیس ادا کرنا پڑتی تھی۔ اس کے علاوہ کسی غیر ملک کی شہریت کے حامل سے شادی کر کے ان ممالک میں جانا بھی ایک آسان ذریعہ بن گیا۔ یہاں تک بھی ہوا کہ اگر کوئی بیرونِ ملک مقیم ہے اور وہاں اس کے کاغذات پورے نہیں تو اس نے محض شہریت کے حصول کیلئے کسی مقامی فرد سے بھاری رقم دے کر شادی کر لی تاکہ اس بنیاد پر اسے مکمل شہریت مل جائے۔ اگرچہ یہ ایک غیر قانونی طریقہ ہے؛ تاہم یہ بھی ایک پریکٹس رہی ہے‘ بلکہ اب بھی جاری ہے۔ یہ ساری چیزیں ہجرت ہی کے زمرے میں آتی ہیں لیکن ابھی ایک رخ باقی ہے۔
مرضی سے مجبوری تک
ہجرت کی ایک شکل مجبوری ہے۔ کسی بھی ملک میں جب جنگی حالات پیدا ہو جائیں تو لوگ وہاں سے ہجرت کر جاتے ہیں۔ نامساعد حالات کے ہاتھوں ہجرت کرنے والوں کیلئے Diasporaکا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس کی بہت بڑی اور پرانی مثالیں کشمیری اور سکھ کمیونٹی کے لوگ ہیں جو اب ایک عالمی کمیونٹی کا درجہ اختیار کرچکے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں افغان مہاجرین، شام اور عراق سے ہجرت کرنیوالے اس کی دیگر بڑی مثالیں ہیں۔ اب آپ یونان میں ایک حالیہ کشتی نما جہاز کے ڈوبنے سے ہلاک ہونے والوں کے سانحے کو ہی دیکھ لیں۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ ان کو آپ کس طور کی ہجرت میں شمار کریں گے۔ مطلب ہم بات کر رہے ہیں مرضی اور مجبوری کی ہجرت کی۔ حالات و واقعات پر غور کیا جائے تو ان لوگوں سے متعلق یہ ماننا اور تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ مجبوری میں ہجرت کر رہے تھے کیونکہ ان سبھی مہاجرین کے ممالک میں بھوک‘ بیروزگاری اور غربت کی جنگ جاری ہے۔ بھوک تو عقیدہ تک چھڑوا دیتی ہے‘ یہ تو پھر اپنا دیس ہی چھوڑ کر جا رہے تھے۔ لیکن ایک بات سب سے الگ ہے کہ ان بدنصیبوں نے اپنی موت بھاری رقم دے کر خریدی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں