بھارت کی اندرونی تقسیم اور خطے کیلئے مشکلات

75 کے قریب ممبران کی جانب سے لکھے گئے تحفظاتی خط کے باوجود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکی کانگریس سے خطاب کیا۔ واضح رہے کہ جمہوری نظام کی ایک خامی نما خوبی یہی ہوتی ہے کہ اس میں آپ کسی شاعر کی طرح کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہاں شاعر کی طرح کہنے کی اصطلاح اس لیے استعمال ہوئی کہ شاعر چاند کو جب چاہیں محبوب کے قدموں تلے لے آئیں یا محبوب کو چاند پر اتار دیں‘ کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی حالانکہ حقیقت نہ صرف یہ کہ قدرے مختلف بلکہ اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے۔ نریندر مودی نے بھی اپنی تقریر میں صرف وعدے اور دعوے دہرائے۔ موصوف کا کہنا تھا کہ بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا‘ بھارت ترقی کرتا ہے تو دنیا ترقی کرتی ہے‘ بھارت دنیا کی آبادی کا 16 فیصد ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ اصل صورتحال پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ بھارت ایک ایسا ملک ہے جو ترقی کرنا تو دور کی بات‘ نیوٹرل حالت میں بھی نہیں ہے بلکہ ہمہ وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس ملک کے جنگی و جارحانہ عزائم نے پورے خطے کو شدید مشکلات سے دوچار کیا ہوا ہے۔ یہ دونوں پہلو جتنے شدید ہیں‘ اتنے ہی ایک دوسرے سے باہم جڑے ہوئے بھی ہیں۔
بھارت Plural نہیں Polarized ہے
اصل میں یہ فقرہ امریکہ جیسے ملک میں بولا جاتا ہے کہ Unity in diversity۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام نسلی، لسانی، مذہبی یا دیگر باہمی تفرقات کے باوجود لوگوں میں یگانگت پائی جاتی ہے۔ اس بات کی بنیاد یہ ہے کہ امریکہ میں قانون کی بالادستی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر مالی خوشحالی۔ ایک امیر اور خوشحال قوم ہونے کی وجہ سے امریکی اپنے باہمی تفرقات کو بھلا کر صرف محنت اور میرٹ کی بدولت اپنے ملک کی ترقی میں حصہ لیتے ہیں۔ ہاں‘ امریکہ چند برسوں سے اپنے ہاں ہونے والے ماس شوٹنگ کے واقعات کی وجہ سے ایک مشکل سے دوچار ضرور ہے مگر اس کے متعلق یہ درست طور پر مشہور ہے کہ یہ تمام اقوام کی قوم ہے۔ امریکہ میں دنیا کی ہر قوم، ہر علاقے، ہر زبان اور ہر مذہب کے لوگ آباد ہیں‘ اسی لیے امریکہ کو ایک Melting Pot بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص چاہے دنیا کی کسی بھی علاقے سے یا کیسے بھی خیالات کا حامل ہو‘ وہ امریکہ میں آ کر امریکی رنگ میں ڈھل کر ایک امریکی بن جاتا ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس امریکہ میں رہنا ہے تو اس کو امریکی رنگ میں ڈھلنا ہی پڑتا ہے۔ اسی طرح امریکہ سے متعلق کہا جاتا ہے کہ جو ایک دفعہ امریکہ سے ہو آیا‘ وہ پھر امریکہ کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے۔
اب بھارت کی طرف آئیں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں بھی دنیا کے غالباً تمام مذہب کے لوگ آباد ہیں۔ سرکاری طور پر 22 زبانیں قومی زبان کا درجہ رکھتی ہیں۔ نسلی طور پر بھی بھارت کے اندر واضح اور گہری تقسیم پائی جاتی ہے۔ سابق امریکی صدر براک اوباما نے مودی کے حالیہ دورے کے دوران یہ بیان دے کر کہ بھارت سماجی تقسیم کی وجہ سے ٹوٹ سکتا ہے‘ ایک حقیقت کو اجاگر کیا ہے۔ ان کا نمایاں اشارہ مذہبی تقسیم کی طرف تھا۔ بھارت میں مذہبی تقسیم کی پیچیدگی دیکھنی ہو تو صرف ہندومت کو دیکھ لیں۔ شودر یا دلت ذات کے لوگ اپنے آپ کو اس مذہب کا حصہ ہی نہیں مانتے۔ وہ ایک علیحدہ تحریک صرف اپنی ذات کی بنیاد پر کھڑے کیے ہوئے ہیں۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ بھارت کا آئین بنانے والے ڈاکٹر امبیڈکر‘ جو ابتدا میں شودر ذات سے تعلق رکھتے تھے‘ کانگریس کے خود ساختہ سیکولرازم دعوے کے برعکس برہمن سوچ کے تحت بھارت کو چلتا دیکھ کر ہندومت ترک کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ وہ ہندومت چھوڑ کر بدھ مت کے پیروکار بن گئے تھے اور پھر مرتے دم تک بدھ رہے۔ یہ بھارت کے سیکولر چہرے پر اتنا بڑا داغ ہے جو کسی صورت نہیں دھویا جا سکتا۔ اس کے بعد آج کل منی پور سمیت سات شمال مشرقی ریاستوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو دیکھ کر اصل بھارت کا چہرہ سامنے آ جاتا ہے۔ منی پور ریاست میں اس وقت تک ڈھائی سو سے زیادہ چرچ جلائے جا چکے ہیں۔ یاد رہے کہ اس ریاست میں لاقانونیت اور خانہ جنگی کی یہ قسط گزشتہ ماہ کے اوائل میں شروع ہوئی تھی اور تاحال اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ چونکہ یہاں ایک فریق عیسائی مذہب سے تعلق رکھتا ہے‘ اسی لیے براک اوباما نے بھارت سے متعلق مذہبی تفریق کا بیان دیا۔ اسی قسم کا ظلم و ستم مقبوضہ کشمیر میں بھارت سرکار کی سرپرستی میں بھارتی فوج کر رہی ہے۔
اب ذکر مودی کے بیان کا‘ موصوف نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں Plurality پائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں صرف Polarization پائی جاتی ہے اور یہ سلسلہ بھارت کے قیام کے بعد سے ہی چلا آ رہا ہے۔ بھارت نے اپنے قیام کے محض ایک سال کے اندر چھ آزاد ریاستوں کو بزور طاقت جس طرح اپنی ریاست میں ضم کیا‘ اسی سے پتا چل گیا تھا کہ بھارت کس ڈگر اور کس طرز پر چلے گا۔ سادہ بات یہ ہے کہ اس وقت بھارت اندرونی طور پر دنیا کا سب سے زیادہ منقسم ملک ہے۔ یہاں آپ کو ایک دلچسپ حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں۔ امریکی سیکرٹ ایجنسی کبھی Fact Book کے نام سے مختلف ڈیٹا کی ایک کتاب شائع کیا کرتی تھی۔ اس میں پوری دنیا کے ممالک کی ہر ممکن طریقے سے رینکنگ کی جاتی تھی۔ اس میں ایک رینکنگ ان ملکوں کی ہوتی تھی جو اندرونی طور پر منقسم ہوتے ہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ اُس وقت بھارت کا شمار دنیا کے آخری تین سے پانچ ممالک میں ہوتا تھا۔ یہ بیس برس پرانی بات ہے۔ ان بیس برسوں میں بھارت کی حالت کہیں زیادہ بگڑ چکی ہے۔ مثال کے طور بھارت کی چین کے ساتھ کشیدگی اب عروج پر پہنچ گئی ہے‘ نیپال اور بھوٹان بھی اب بھارت کے مخالف ہو چکے ہیں۔ سب سے بڑھ کر خالصتان تحریک‘ جو اب ایک عالمی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس لیے بھارت کے اندر تقسیم اور علیحدگی کی تحریکوں کو شمار کریں تو اس کی فالٹ لائنز اَن گنت اور انتہائی خطرناک ہیں۔ حد یہ ہے کہ مودی صاحب نے اپنے ان مسائل کے ڈھیر میں سے کسی ایک کا بھی ذکر نہیں کیا۔ اور کچھ نہیں تو بقا کو در پیش ماحولیاتی چیلنج ہی کو لے کر مودی صاحب کوئی مدد یا مشورہ امریکہ سے مانگ لیتے، لیکن انہوں نے تو ذکر تک نہیں کیا۔ مسائل کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے مسائل کو مسئلہ ماننے کو ہی تیار نہ ہوں۔
مسائل و مشکلات کا مرکز
ماحولیاتی آلودگی کا ذکر ہوا تو واضح کرتے چلیں کہ ہمارے خطے میںسموگ کا آغاز بھارت ہی سے ہوا تھا۔ بھارت ہی سے یہ زہریلی دھند ہمسایہ ممالک میں جاتی ہے۔ اس وقت سوائے بنگلہ دیش کے‘ بھارت کا ایک بھی ہمسایہ ملک ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ اس کے تعلقات نارمل ہوں۔ بنگلہ دیش کے ساتھ بھی سرحدی تنازع موجود ہے اور منی پور سے ملحقہ علاقوں میں مہاجرین کی نقل و حرکت، سمگلنگ اور منشیات کی ترسیل کے سبب کئی باہمی تنازعات موجود ہیں۔ بنگلہ دیش سے تعلقات کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکمران جماعت کو الیکشن جتوانے میں مبینہ طور پر بھارتی ایجنسیوں نے بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ سرکار بھارت کے ساتھ ایک عارضی رومانس میں مبتلا ہے۔ اس سب کے باوجود معاشی و تجارتی مراعات کی وجہ سے اب بنگلہ دیش کا جھکائو چین کی طرف ہونا شروع ہو چکا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم کے دورے کا بنیادی عنصر بھارت کو چین مخالف سرگرمیوں کیلئے مزید تیار کرنا تھا۔ بھارت اس کام کیلئے بخوشی تیار ہے، جس کو نرگسیت کی بیماری کا نام دیا جاتا ہے۔ نرگسیت کا شکار بھارت اپنے اندرونی مسائل کم کرنے کے بجائے چین اور پاکستان مخالف آگ بھڑکانے میں اس قدر مشغول ہے کہ محض خدشہ ہی نہیں بلکہ اب واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ بھارت ایک ریت کی دیوار بن چکا ہے اور یہ دیوار چین جیسے ملک کے ایک دھکے کی مار ہے۔ دیکھنا یہ ہے چین یہ دھکا کب لگاتا ہے۔ اسی طرح زیادہ اہم بات یہ بھی ہے کہ چین یہ دھکا یکلخت لگاتا ہے یا آہستہ آہستہ۔ تاحال چین کی پالیسی خاموشی اور آہستگی والی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں