یکسانیت اور یگانگت یا بیگانگی اور اجنبیت؟

Homogeneity Index ایک ایسی اصطلاح ہے جس کا ترجمہ کرنا اتنا آسان نہیں۔ یہ وہی اصطلاح ہے جس کے حوالے سے گزشتہ کالم میں بھی بات ہوئی تھی کہ اس کی بنیاد پر کسی بھی معاشرے یا قوم کی باہمی طاقت یا اس میں موجود تقسیم کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اسی اصطلاح کو بنیاد بنا کر یہ بیان کیا گیا تھا کہ بھارت اس حوالے سے دنیا کی ایک انتہائی کمزور قوم اور ایک کمزور ملک ہے۔ اسے کسی بھی معاشرے یا قوم کی یگانگت میں پڑی دراڑیں بھی کہا جا سکتا ہے‘ جدید دور میں اس کیلئے فالٹ لائنز کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی سادہ وضاحت یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے یا قوم کو متوازی اور عمودی طور پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مذہب (ایک ہی مذہب میں مزید تقسیم جیسے ہندو مت میں پیدائشی طور پر چار ذاتوں میں تقسیم)‘ زبان‘ نسل‘ پیشے‘ علاقے‘ ذات برادری اور قبیلے وغیرہ کی بنیاد پر تقسیم کو متوازی تقسیم کہا جاتا ہے‘ اسے Horizontalتقسیم بھی کہتے ہیں جبکہ کسی بھی شخص کے پاس موجود دولت یا وسائل کی مقدار کی بنا پر جو تقسیم ہوتی ہے‘ اسے عمودی تقسیم کہتے ہیں۔ معاشرتی ماہرین اسی تقسیم کو اصل تقسیم مانتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عمودی تقسیم کی بنیاد پر متوازی تقسیم بھی واضح اور نمایاں ہو جاتی ہے۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ جب کوئی بڑا گروہ کسی معاشی محرومی یا کسی اور مسئلے کا سامنا کرتا ہے تو وہ اس کی وجہ اپنی مذہبی‘ نسلی یا لسانی تقسیم بتاتا ہے۔ جیسے بھارتی ریاست منی پور کا ایک گروہ اپنے اوپر ہونے والے جبر کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ ان پر یہ ظلم اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ عیسائی مذہب سے ہیں اور بی جے پی وہاں صرف ہندوئوں کی برتری میں دلچسپی رکھتی ہے اور اگلے الیکشن سے پہلے بھارتی قوم میں ہندو اور غیرہندو آبادی کی خلیج کو مزید بڑھا کر اگلا الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔
یگانگت سے بیگانگی تک
بھارت کے اندر دنیا کے تمام بڑے مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں۔ واضح رہے کہ دنیا کے تین مذاہب کا جنم بھارت سے ہی ہوا تھا۔ تمام بڑے مذاہب کے لوگوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کی دوسری بڑی مثال امریکہ ہے۔ مودی نے اپنے حالیہ دورۂ امریکہ میں اپنی زبانی جمع خرچ والی تقریر میں اس نکتے کو ہر گز بیان نہیں کیا۔ جب گودی میڈیا انڈیا اور امریکہ کے درمیان پائی جانے والی خیالی ''مشترکہ اقدار‘‘ کو بیان کر رہا تھا تو وہ اس امر کی نشان دہی کر سکتا تھا۔ اب امریکہ میں خوشحالی ہے‘ قانون ہے‘ روزگار کے بہتر مواقع ہیں‘ اس لیے وہاں معاشرتی تقسیم کی باتیں زیادہ نہیں ہوتیں‘ ماسوائے کالے گورے کی لڑائی کے یا پھر کبھی کبھار ایشیائی لوگوں کیساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے۔ امریکہ میں کوئی مذہب‘ نسل یا زبان کے نام پر سیاست کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن بھارت کے اندر‘ بالخصوص مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندتوا کی سیاست بہت تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔ حالیہ دو برسوں میں اس میں مزید شدت آئی ہے۔ آر ایس ایس کا عمل دخل بھارتی سیاست میں واضح طور پر بڑھ چکا ہے۔ ریاست منی پور کی خانہ جنگی ہی کو لے لیں‘ اس صورتحال کا ذمہ دار کانگرس نے آر ایس ایس کو ٹھہرایا ہے۔ حالیہ دنوں میں راہول گاندھی نے ریاست منی پور کا دورہ بھی کیا تھا جسے بی جے پی کی طرف سے روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔
تاریخ کے جھروکوں میں دیکھیں تو بھارت نے سب سے پہلے کشمیر پر قبضہ کیا‘ اس کے بعد سکھوں سے کیے گئے خود مختار علاقے کے وعدے کی نفی کی گئی۔ اس کے بعد منی پور‘ جوناگڑھ‘ سکم‘ حیدر آبادکی ریاستوں پر فوجی ایکشن کرکے انہیں اپنے اندر زبردستی ضم کر لیا۔ اس کے بعد بھارتی حکومت کو صرف اور صرف براہمن ہندوؤں کا حق گردانا گیا۔ جس کے بعد نچلی ذات کے ہندو‘ بالخصوص دَلت اور شودر‘ اپنے دیس سے بیگانہ ہونا شروع ہو گئے۔ اس بیگانگی کی ایک بڑی وجہ خراب معاشی حالات بھی تھے جو گورے کے جانے کے بعد بہترہونے کے بجائے مزید خراب ہوئے۔ بھارت سرکار نے اپنے عوام کی معاشی حالت سدھارنے کے بجائے اپنا سارا زور اکھنڈ بھارت کے بھیانک خواب کی تعبیر پر لگا دیا۔ یہاں پر ایک بات تعلیمی و تحقیقی ثبوت کے طور پر کچھ یوں پیش کی جاتی ہے کہ اگر بھارت کے اندر امن‘ قانون کی عملداری‘ خوشحالی اور تحفظ کا احساس ہوتا تو پڑوسی ممالک کے دیگر لوگ نہ سہی کم از کم ہندو مذہب کے ماننے والے ضرور بھارت جانے کو ترجیح دیتے۔ اس حوالے سے نہرو کا ایک بیان بھی ملتا ہے‘ جس میں انہوں نے یہ اعادہ کیا تھا کہ ہم بھارت کو اتنا خوشحال بنا دیں گے کہ پڑوسی ممالک کے لوگ یہاں (بھارت) آنے کی خواہش کریں گے۔ لیکن جب سارا زور بیرونی دخل اندازیوں پر ہو تو اندرون ملک عوام پھر بھوکے ہی مریں گے۔ یاد رہے کہ نہرو کے انتقال کے بعد اقتدار میں آنیوالے لال بہادر شاستری کے دور میں حالات یہ تھے کہ انہوں نے بھارت کے عوام سے ایک وقت کا کھانا نہ کھانے کی اپیل کی تھی۔
بھارت جنوبی ایشیا پر اپنی حکمرانی کے نشے میں اس قدر چور تھا کہ اس نے 1949ء میں انقلاب کے بعد آزاد ہونے والے چین کیساتھ تین سے چار ہزار کلو میٹر لمبی سرحد کی واضح حد بندی جیسے اہم ترین کام کو بھی پش پست ڈال دیا۔ چین‘ جو انتہائی ناقص معاشی حالات اور انفراسٹرکچر والا ملک تھا‘ اس نے1949ء میں ہی تبت کو اپنے اندر ضم کر لیا۔ اس کے بعد 1962ء میں بھارت کو ایک ذلت بھری شکست سے دوچار کیا۔ بھارت کے وزیراعظم نہرو اسی شکست کے دکھ میں دنیا سے چل بسے۔ چین اور بھارت کے درمیان یہ حد بندی آج بھی غیر واضح ہے۔
اب اگر بیگانگی کی بات کریں تو بھارت اس وقت دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی والا ملک ہے۔ بھارت سرکار کے اپنے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بھارت کی 30فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے لیکن آپ اس غربت کی لکیر کا معیار سنیں گے تو آپ کے ہوش اڑ جائیں گے۔ بھارت کے اندر ایک ہزار بھارتی روپیہ سے کم ماہانہ آمدنی والے کو غربت کی لکیر سے نیچے گنا جاتا ہے۔ باقی اندازہ آپ خود ہی لگا لیں۔ اگر عالمی اداروں کے اعداد و شمار دیکھیں تو بھارت کی 60فیصد سے زیادہ آبادی غربت کے گرداب میں پھنسی نظر آتی ہے اور بھارت کا سارا زور اب بھی چین جیسی طاقت کے خلاف پراکسی جنگ لڑنے پر ہے۔ اسے کون سمجھائے کہ جنگی جنون سے ترقی تو کیا بقا کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
اجنبیت سے آگے کیا ہوتا ہے؟
ایک دانا نے کہا تھا کہ جب کسی قوم یا ملک میں کوئی بھوکا سوتا ہے تو وہ اس دیس سے بیگانگی محسوس کرتے ہوئے خود کو وہاں اجنبی محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح اگر اس ریاست میں اس کو انصاف نہ ملے اور اس کیساتھ کسی قسم کے برتائو سے پہلے اس کے مذہب‘ نسل یا زبان کو دیکھا جائے تو وہ اس ظلم کے بعد اجنبیت سے اگلی سٹیج پر پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر وہاں خانہ جنگی جیسی صورتحال برپا ہو‘ لوگ ہجرت کر رہے ہوں‘ اپنے گھر بار چھوڑ کر خیموں میں پناہ گزیں ہوں‘ تو یہی لوگ پھر ہتھیار اٹھانے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں۔ بھارتی ریاست منی پور کی موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے یہ یقین ہونے لگا ہے کہ اب بھارت کا یہ حصہ ذہنی طور پر بھارتی نہیں رہا۔ اس ریاست کے لوگوں نے اس خانہ جنگی کے دوران مرنے والوں کے نام ایک دیوار پر لکھ کر ایک یادگار بھی بنا دی ہے۔ اسی طرح کے حالات بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں ایک مغل بادشاہ کی تصویر رکھنے یا لگانے پر بھی پیدا ہو چکے ہیں۔ اُدھر اترا کھنڈ میں بھی مسلمانوں کو اپنی مذہبی شناخت نمایاں کرنے سے روکا جارہا ہے۔ بھارتیو! اب تو اوباما کی بات مان لو کہ بھارت تقسیم و تخریب کے در پر پہنچ چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں