کچھ سنجیدہ و سنگین لطائف…(2)

جو بات زیرِ بحث ہے اس کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر بڑے ممالک اپنے اندرونی مسائل کو پس پشت ڈال کر صرف عالمی حکمرانی اور کسی دوسرے کو اپنی برابری کی سطح پر آنے سے روکنے یا مخالفین کو کسی بھی طور زچ کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان ممالک کے اندرونی مسائل کسی طرح بھی سادہ نوعیت کے نہیں بلکہ ان اندرونی مسائل کے نتیجے میں انہیں بیرونی محاذوں سے زیادہ انسانی جانی نقصان بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہ زندگیاں بھوک یا پسماندگی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک جنگی ماحول کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہیں۔ دنیا بھر میں پیسے لے کرجنگی لشکرکے طور پر لڑنا ایک پیشہ بن چکا ہے۔ روس میں حال ہی میں ایک ایسے عسکری لشکر کی فلمی پسپائی کے بعد ایک دوسرا گروہ اس کی جگہ لے چکا ہے۔ جاپان جیسے معاشی طور پر خوشحال ملک کے نوجوان بھی یوکرین کے حق میں لڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ فرانس کے اندر ہونے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 45 ہزار پولیس اہلکار تعینات ہیں، مگر پھر بھی حالات قابو میں نہیں آ رہے۔ عالمی سطح پر عوام کے اندر ڈپریشن اور ذہنی ہیجان اس قدر بڑھ چکا ہے کہ آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ اور خوشحال ملک نے ذہنی امراض سے نمٹنے کے لیے نشہ آور ادویات کے استعمال کی باقاعدہ اجازت دے دی ہے۔ واضح رہے کہ ذہنی بیماریاں دنیا بھر میں سب سے تیزی سے پھیلنے والی بیماریاں ہیں۔ پہلے اس کی وجوہات معاشی بدحالی سے منسلک تھیں مگر اب خوش حال اور امیر لوگ بھی اس کا شکار نظر آتے ہیں۔ کووڈ کی وبا کے دنوں میں امریکہ میں گھروں میں بند رہنے کی وجہ سے لوگوں نے الکوحل کا کثرت سے استعمال شروع کر دیا تھا، جس کی وجہ سے کووڈ کے ساتھ مے نوشی سے بھی بے شمار ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اب واپس موضوع کی طرف آتے ہیں کہ کس طرح بھارت کی طرح علاقائی ہی نہیں بلکہ ایک عالمی طاقت اندرونی طور پر ایک مسلح جنگ کا شکار ہو چکی ہے، جو ایک خطرناک حد کو چھو کر تسلسل سے آگے بڑھ رہی ہے۔
عالمی سے اندرونی محاذ تک
موجودہ دور میں سنگین اندرونی محاذ کا ادراک سب سے پہلے بھارت کے ایک سابق آرمی چیف نے تقریباً پانچ سال پہلے کیا تھا۔ جنرل بپن راوت نے بھارت کے اندر چلنے والی علیحدگی پسند تحریکوں کو بھارت کا آدھا محاذ یا نصف دشمن قرار دیا تھا۔ جنرل راوت نے حقیقت پسندانہ طور پر کہا تھا کہ بھارت چین اور پاکستان کے دو محاذوں کے ساتھ ساتھ اندرونِ ملک تحریکوں کے آدھے محاذ کے خلاف لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جنرل راوت کے کہے ہوئے یہ الفاظ حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں، بلکہ اب منی پور ریاست ہو یا دیگر ریاستوں کے فسادات‘ بھارت کا اندرونی محاذ اب آدھا نہیں بلکہ پورا محاذ بن چکا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بیرونی محاذ کے برعکس اندرونی محاذ ہر وقت گرم رہتا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں امریکہ میں بھارتی قونصلیٹ کے جلائے جانے کے واقعے کو ہی دیکھ لیں یا پھر اس سے پہلے‘ سال کے شروع میں برطانیہ میں ہونے والے اسی نوعیت کے واقعے کو‘ جب ایک سکھ نے بھارتی سفارتحانے پر لگا بھارتی پرچم اتار کر وہاں خالصتان کا جھنڈا لہرا دیا تھا۔ بھارت کے لیے اب خالصتان کا محاذ ایک عالمی سطح کا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ حالیہ دنوں میں خالصتان تحریک کے چند سکھ لیڈروں کی مغربی ممالک میں ہلاکت نے اس تحریک میں شدت پیدا کر دی ہے۔ واضح رہے کہ سکھ Diaspora (مجبوراً ہجرت) اس وقت دنیا کا سب سے پرانا اور بڑا Diaspora ہے۔ ستر سال سے زائد عرصے سے سکھ ترقی یافتہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں اور اپنے علیحدہ ملک کے لیے تحریک چلا رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا مبینہ طور پر سکھوں کی جانب سے بھارتی قونصلیٹ کے جلائے جانے والے واقعے کو امریکی حکام کی غفلت ہی نہیں‘ مصلحت پسندی بھی قرار دے رہا ہے۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت سکھوں کی شکل میں موجود اپنے بڑے ووٹ بینک کو بچانے کیلئے ان کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہے۔ اب خالصتان کا محاذ اتنا بڑا ہو چکا ہے کہ بھارت کو اس کا سامنا عالمی سطح پر بھی کرنا پڑ رہا ہے۔دوسری جانب خالصتانی سکھ اپنے دو لیڈروں کی ہلاکت کو بھارتی ایجنسیوں کی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔
اس وقت مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت کی دیگر ریاستوں کی آزادی کی تحریکوں کی آواز خالصتان سے کم سنائی دے رہی ہے یا یوں کہہ لیں کہ خالصتان تحریک کی گونج عالمی سطح پر اس لیے زیادہ سنائی دے رہی ہے کہ سکھوں کے درجنوں چینل ہر لمحے دنیا بھر میں اپنے حقوق کی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سکھوں نے عالمی سطح پر اپنا ایک انگریزی چینل بھی شروع کیا ہے جس کا ہیڈ کوارٹر امریکہ میں ہے۔ اس چینل پر لگ بھگ سبھی اینکرز مقامی امریکی ہوتے ہیں۔ جب یہ امریکی نیوز اینکر خالص امریکی لہجے میں خبریں پڑھتے ہیں تو دیکھنے والے کو گمان ہوتا ہے کہ یہ کوئی امریکی چینل ہے جو سکھوں کے حقوق کی بات کر رہا ہے۔ بظاہر یہ ایک سادہ سی بات ہے لیکن اگر آپ اس پر غور کریں تو یہ میڈیا کے استعمال کے حربے کے طور پر بہت اہم اور مؤثر ہے۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی‘ یہ چینل محض خالصتان کی رپورٹنگ نہیں کرتا بلکہ پوری دنیا کی خبریں نشر کرتا ہے، جس سے یہ تاثر مزید قوت پکڑتا ہے کہ یہ صرف سکھوں کا چینل نہیں بلکہ کوئی عالمی چینل ہے۔ اسی طرح خالصتان کی تحریک چلانے والے بھارت کے قومی دنوں کے مواقع پر احتجاج کرتے ہیں اور اسے بھرپور اندا زمیں نشر کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر ہونے والی بھارتی فوج کی کارروائی اور اپنے لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی ہلاکت کی برسی پورے اہتمام سے منا کر بھی اپنی آواز کو نمایاں طور پر بلندکرتے نظر آتے ہیں۔ بیرونِ ملک خالصتان کے حامیوں نے حالیہ دنوں میں جو تحریک شروع کی ہے اس کا نام ''Kill India‘‘ رکھا گیا ہے۔ اب بجا طور پر سکھوں کی اس تحریک کو ایک پورا محاذ کہا جا رہا ہے۔ یہاں یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ تقریباً پانچ برس پہلے بھارت میں تعینات چین کے سفیر نے امرتسر میں سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل کا دورہ کرکے بھارت کو ایک بڑا پیغام دیا تھا لیکن بھارت سرکار تاحال چین کے خلاف جاری امریکی اتحاد کے تحت چین مخالف رویہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
امریکہ کا اندرونی محاذ
اب ذکر ایک ایسی اندرونی مشکل کا جس کے اعداد و شمار پڑھ کر آپ کو حیرانی ہو گی اور اس کی تصدیق کیلئے دیگر ذرائع سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ پہلی نظر میں ہلاکتوں کی تعداد پڑھ کر یا کسی چینل پر یہ خبر سن کر یقین نہیں ہوتا۔ یہ بات ہے امریکہ میں جاری ماس شوٹنگ کے واقعات اور اس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کی۔ امریکہ میں جون کے اختتام تک‘ محض چھ ماہ میں اندھا دھند فائرنگ کے واقعات کی تعد اد تین سو تیس سے تین سو چالیس تک ہو چکی ہے۔ 180 دنوں میں 340 واقعات۔ اس کا سادہ مطلب یہی ہے کہ امریکہ میں اوسطاً لگ بھگ ہر روز دو ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ یہ خبر پہلے جب ایک انٹرنیشنل انڈین چینل پر دیکھی تو یقین نہیں آ رہا تھا لیکن جب اس کی تصدیق دیگر مصدقہ عالمی چینلز پر ہو گئی تو پتا چلا کہ یہ بات درست ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس سال امریکہ کے یومِ آزادی پر یعنی چار جولائی کو امریکہ میں تین مختلف مقامات پر ماس شوٹنگ کے واقعات پیش آئے جن میں دس افراد ہلاک اور تیس کے قریب زخمی ہوئے۔ اس موقع پر لوگوں کے تاثرات سن کر پتا چلا کہ لوگوں کے دلوں میں یوم آزادی منانے کا جوش بہت حد تک ختم یا کم ہو چکا ہے۔ بات اگر کی جائے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تو ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔ امریکہ میں سالانہ ماس شوٹنگ ہلاکتوں کی تعداد بیس ہزار کو پہنچ جاتی ہے۔ جی ہاں! گزشتہ سال بیس ہزار سے زائد لوگ امریکہ میں فائرنگ کے واقعات کی وجہ سے جان سے گئے۔ یہ ایک سال میں کسی بھی جنگ میں مرنے والے امریکیوں سے زیادہ تعداد نہیں ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں