جلتی، پیاسی اور ڈوبتی دنیا

''ہمیں ایسے لیڈروں کی ضرورت ہے جو ماحولیاتی مشکلات کے حل پر کا م کریں‘‘۔ یہ الفاظ ایک امریکی چینل کے اینکر کے ہیں۔ آج 1992ء میں ہونے والی ایک عالمی ماحولیاتی کانفرنس یاد آرہی ہے جو برازیل میں منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس کا ایک نعرہ''Only One Earth, Care and Share‘‘تھا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک ہی زمین ہے لہٰذا خود بھی اس کا خیال کریں اور دوسروں سے بھی کہیں۔ آج تیس سال گزرنے پر وہ کانفرنس اس لیے بھی زیادہ یاد آ رہی ہے کہ راقم نے اس وقت جغرافیہ کے طالب علم کی حیثیت سے اس پر ایک آرٹیکل لکھا تھا۔ اس وقت دنیا کی آبادی پانچ ارب سے کچھ زیادہ تھی جبکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں پینے کے پانی کی خرید و فروخت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ شہروں کی ہوا سانس لینے کے قابل تھی۔ اس وقت لاہور میں پنجاب یونیورسٹی سے مال روڈ تک نہر کے کنارے فٹ پاتھ پر لوگ سیر بھی کیا کرتے تھے اور دوڑ بھی لگایا کرتے تھے۔ لاہور اس وقت حقیقی معنوں میں باغوں کا شہر کہلاتا تھا۔ اب لاہور آلودہ ترین شہروں کی عالمی فہرست میں ٹاپ نمبروں پر آتا ہے۔ پانی کی بوتلیں خریدنا اُتنا عجیب نہیں جتنا افسوسناک ہے کیونکہ اس پانی کے معیار کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔ کئی دفعہ خبریں سامنے آچکی ہیں کہ بوتلوں کے پانی کا معیار پینے کے پانی کے قابل بھی نہیں۔ دودھ کی بات کریں تو یہ وہ وقت تھا‘ جب دودھ میں صرف پانی ملائے جانے کا خدشہ ہوتا تھا۔ مکمل مصنوعی دودھ کا وہم و گمان میں بھی کوئی تصور نہیں تھا۔ یہ سب کچھ اس لیے بیان کیا جارہا ہے کہ آج پوری دنیا میں بڑھتی ہوئی گرمی کا شور بہت زور سے سنائی دے رہا ہے۔ یورپ اور براعظم امریکہ کے ممالک بھی اب شدید گرمی کی لہر کے زیر اثر آچکے ہیں۔
زمین جل رہی ہے
گلوبل وارمنگ ایک ایسی اصطلاح ہے جس سے اوسط تعلیم رکھنے والا بھی آگاہ ہے۔ گلوبل وارمنگ کا مطلب یہ ہے کہ زمین کا اوسط درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ زیادہ درجہ حرارت کے ریکارڈ بھی ٹوٹ رہے ہیں۔ شہروں کے اندر ''ہیٹ ویو‘‘ ایک معمول کی بات بن چکی ہے۔ واضح رہے کہ شہروں کو دیہی علاقوں سے نسبتاً زیادہ درجہ حرارت اور آلودگی کی وجہ سے ''گرم اور گندے جزیرے‘‘ کہا جاتا ہے۔ شہروں کو سیمنٹ کا جنگل بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی وضاحت اس طرح کی جاتی ہے کہ شہروں میں آسمانوں سے باتیں کرتے پلازے اور عمارتیں بہت زیاہ بن چکی ہیں۔ یہ پلازے یا عمارتیں کمرشل سرگرمیوں ا ور رہائش‘ دونوں مقاصد کیلئے ہوتی ہیں۔ اس طرح کی عمارتیں جتنی زیادہ بنتی ہیں‘ اتنا ہی درجہ حرارت بڑھتا ہے اور ہوا کی کمی ہوتی ہے۔ ایسی عمارتوں والے علاقے میں زیر زمین پانی بھی بہت جلد ختم ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان عمارتوں کے بیچ خالی زمین‘ پارک اور میدان نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں بارش کا پانی زمین میں جذب نہیں ہو پاتا جس سے زیرِ زمین پانی آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا ہے۔ شہروں کے اندر سیلابی صورتحال بھی اسی لیے پیدا ہوتی ہے کہ بارش کے پانی کو نکاس کے راستوں سے شہر سے باہر جانے میں کافی وقت لگتا ہے۔ اسی حوالے سے عوام سے بھی گزارش ہے کہ پلاسٹک کے لفافے اور دیگر اشیا گٹروں اور نالیوں میں نہ پھینکا کریں۔ یہ پلاسٹک نکاسیِ آب کے نظام کو مکمل بند کر دیتا ہے۔ ہر چیز کی ذمہ داری حکومت ہی پر نہ ڈالا کریں‘ خود بھی کچھ خیال کیا کریں۔ یاد رہے کہ پلاسٹک کی اشیا چار سو سال بھی پانی یا زمین میں دفن رہیں تو گلتی نہیں ہے۔ جی ہاں! کئی صدیوں بعد بھی پلاسٹک جوں کا توں رہتا ہے۔
اب بات دنیا کی کل آبادی کی‘ جو اس وقت آٹھ ارب سے زیادہ ہوچکی ہے اور جس میں سالانہ آٹھ کروڑ کا اضافہ ہو رہا ہے جس میں سے اڑھائی کروڑ بچے صرف جنوبی ایشیا میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اسی تناظر میں یہ بات پہلے بھی کی گئی تھی اور دوبارہ کہنا پڑ رہی ہے کہ دنیا میں گرمی، پانی کی کمی اور آلودگی کی وجہ سے سب سے پہلے جو علاقہ تباہ ہوگا‘ اور جو تباہ ہونا شروع ہو چکا ہے‘ وہ جنوبی ایشیا ہے۔ آپ مختلف عالمی ویب سائٹس پر جا کر چیک کر لیں‘ دنیا کے ان ممالک کی فہرست مل جائے گی جو ماحولیاتی مشکلات کی وجہ سے عنقریب رہائش کے قابل نہیں رہیں گے۔ اس فہرست میں سب سے نمایاں اور سب سے آگے جنوبی ایشیائی ممالک ہی ملیں گے۔ اگرچہ جنوبی ایشیا کا ایک ملک ایسا ہے جس کے ساٹھ فیصد سے زیادہ رقبے پر جنگلات ہیں مگر اس کے باوجود یہ شدید ماحولیاتی اثرات کا شکار ہے۔ یہ ملک ہے بھوٹان؛ اس کا قصور یہ ہے کہ یہ بہت چھوٹا ملک ہے اور بھارت اور چین کا پڑوسی ہونے کے سبب ماحولیاتی تبدیلیو ں کی زد میں ہے۔یہ امر مزید واضح ہو جاتا ہے کہ اب پوری دنیا کو مل کر کوشش کرنی ہے۔
تقریباً تین سال پہلے ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے راقم نے کہا تھا کہ لاہور جیسے شہروں کی زندگی اب پانچ سال سے زیادہ نہیں رہی۔ اس پر خوب شور مچا تھا۔ اس زندگی سے مراد شہر کی ماحولیاتی زندگی ہے۔ اب لاہور شہر کی آب و ہوا میں آپ کیسا محسوس کرتے ہیں‘ خود ہی اندازہ لگا لیں۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ صرف یہ دیکھ لیں کہ ابھی جولائی کا مہینہ ہے لیکن مچھروں کی بہتات ہو چکی ہے۔ اسی طرح اگر آپ نے مشاہدہ کیا ہوتو یاد ہو گا کہ گزشتہ موسمِ سرما میں مچھر پوری سردیوں میں ختم نہیں ہوئے تھے۔ اگر یہ مچھر سادہ ہوں تو اور بات ہے لیکن ان میں ڈینگی مچھروں کی موجودگی خطرے کی علامت ہے۔یاد رہے کہ ڈینگی کو پاکستان میں آئے تقریباً پندرہ سال ہو چکے ہیں لیکن ہم ابھی تک اس مچھر سے نجات نہیں پا سکے، باقی ماحولیاتی لڑائی ہم کیسے لڑیں گے‘ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہاں ایک تلخ سیاسی حقیقت بھی بیان کرنا پڑے گی کہ جب پنجاب میں ڈینگی مچھر آیا تو اُس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ایک بیان میں ڈینگی مچھر کے پاکستان میں آنے اور بڑھنے کی وجہ (پیپلز پارٹی کی) وفاقی حکومت کو قرار دیا تھا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ اس کا مقصد خاص قسم کی ادویات کی فروخت بڑھانا تھا یا کچھ اور لیکن قابلِ تشویش حقیقت یہ ہے کہ ہم اس مچھر کا ابھی تک کاخاتمہ کرنا تو کجا‘سردیوں میں بھی اس کی موجودگی پر کنٹرول بھی نہیں کر سکے اور اب جولائی کی شدید گرمی میں بھی مچھر ہر جگہ دندناتے نظر آ رہے ہیں۔ پہلے مچھر گرمیوں کے بعد‘ ستمبر کے مہینے میں آیا کرتا تھا۔ اگر غور کریں تو یہ ماحولیاتی تباہی کی بہت بڑی مثال ہے۔
پیاس اور سیلاب
کہتے ہیں کہ کثرت اور قلت‘ دونوں ہی بحران پیدا کرتے ہیں۔ اب ایک طرف ہم پانی کی قلت کا شکار ہیں تو دوسری طرف پانی کی کثرت یعنی سیلاب ہمیں ڈبو رہے ہیں۔ سیلاب بھی اب پوری دنیا کا مسئلہ بن چکے ہیں‘ بالخصوص شہروں میں بارش کی وجہ سے آنے والے سیلاب! کالم کے شروع میں ذکر ہوا ایسی لیڈرشپ کا جو ہمیں ان آفتوں سے نجات دلا سکے‘ اگر ایسی کوئی لیڈرشپ میسر آئے گی تو ہی بات کسی مثبت سمت میں آگے بڑھے گی۔ سرِ دست دنیا کی سیاسی قیادت زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول میں مصروف نظر آتی ہے۔ عالمی سطح پر سیاست محض اپنی طاقت یا تسلط کو زیادہ سے زیادہ دنیا پر مسلط کرنے اور کسی دوسری طاقت کو سامنے آنے سے روکنے پر لگی ہوئی ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں، ادارے، سائنسی آلات اور ٹیکنالوجی صرف مخالف ممالک کی نگرانی پر لگے ہوئے ہیں حالانکہ حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر یہ سب موسمیاتی تباہیوں پر مرکوز ہونے چاہئیں۔ ابھی تک صرف موسمیاتی تبدیلیوں کے الفاظ ہی استعمال ہو رہے ہیں۔ تبدیلیوں سے آگے بڑھ کر تباہیوں کا ذکر کب شروع ہو گا‘ اور اس سے بھی بڑھ کر‘ ان تباہیوں کو روکنے یا محدود کرنے کی باری کب آئے گی‘ کچھ پتا نہیں۔ ایک بات یاد رہے کہ یہ ماحولیاتی بحران کوئی عوامی تحریک نہیں کہ اسے طاقت کے استعمال سے روکا جا سکے‘ اس کیلئے جنگی بنیادوں پر کئی دہائیوں تک کام کرنا ہوگا۔ حالات جو اب بد ترین ہو چکے ہیں‘ عنقریب تباہ کن مرحلے میں داخل ہونے والے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے صحیح ہونے کی کوئی امید تاحال نظر نہیں آ رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں