بھارت جیسے انوکھے اور مہلک ملک کو لے کر جنوبی ایشیاسمیت پورے براعظم ایشیا کے مسائل کی لمبی سیریز کے بعد آج ایک اچھی اور بڑی خبر کے ساتھ بات کا آغاز کرتے ہیں۔ ورلڈ آرڈر کا لفظ بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے لیکن اکثر لوگوں کو یہ نہیں پتا کہ اس کے دو مفہوم ہیں۔ ایک تو یہ اصطلاح دنیا پر حکمرانی یعنی حکم دینے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اس بات کا تو لوگوں کو ادراک ہے، لیکن اس کا ایک معنی دنیا کی ترتیب، ترقی یا تخریب بھی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ ''ایشیا میں 'ڈِس آرڈر‘ رہے‘ یہ امریکی ورلڈ آرڈر کا ایک بڑا اور لازمی حصہ ہے‘‘۔ اسی کو تہذیبوں کے ٹکرائو کا نام دیا گیا تھا، جس میں چین اور مسلم دنیا کو مغربی تہذیب کے لیے ایک خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ لیکن اصل میں امریکہ خود ایک قہر بن کر مسلم دنیا پر ٹوٹا اور ان کی تہذیب کو کرش کر کے رکھ دیا۔ یہ کرش معاشی، سیاسی اور معاشرتی یعنی زندگی کے ہر ممکن شعبوں میں کیا گیا۔ اس کے بعد باری چین کی تھی لیکن اس نے اپنے آپ کو نہ صرف امریکہ سے بچایا بلکہ ایک عالمی طاقت کے طورپر بھی ابھرااور اس حدتک مزید ابھر سکتا ہے کہ امریکہ کی عالمی دسترس کو ہی ختم کر دے۔ اس وقت چین کو درپیش سب بڑاچیلنج ایشیائی اور ہمسایہ ممالک کے مسائل ہیں۔ یاد رہے کہ دنیا کے مسائل زدہ ممالک کی فہرست بنائیں تو اسّی فیصد سے بھی زیادہ ایشیائی اور مسلم ممالک ہوں گے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا بلکہ یہی مغرب کا پیدا کردہ ڈِس آرڈر ہے۔ یہ ڈِس آرڈر برطانیہ کے نوآبادیاتی دور سے شروع ہوا تھا۔ وجہ اس کی بہت سادہ لیکن بہت اہم ہے کہ صرف ایشیا ہی وہ بر اعظم ہے جس نے یورپ اور امریکہ کے علاوہ عالمی طاقتوں کو جنم دیا۔
ایک اور ایشیا
براعظم ایشیا آدھی سے زیادہ دنیا ہے، مطلب دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی کا مسکن ایشیا ہے۔ اس میں چین اور بھارت کے علاوہ‘ ایک ارب سے زائد مسلمان بھی آباد ہیں۔ مسلم دنیا کا ایک بڑا حصہ‘ جس میں مسلم دنیا کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک قازقستان بھی شامل ہے‘ سینٹرل ایشیا کہلاتا ہے۔ یہ پانچ ممالک پر مشتمل ایک خطہ ہے۔ اس خطے کے شمال میں روس، مشرق میں چین، مغرب میں یورپ اور جنوب میں افغانستان ہے۔ اس حصے کو در پیش ایک چیلنج بندرگاہ تک رسائی ہے۔ قازقستان کے علاوہ باقی چار ممالک کو جو بندرگاہ سب سے نزدیک پڑتی ہے‘ وہ پاکستان کی بندرگاہ گوادر ہے۔ ماضی میں افغانستان میں جنگی کشمکش کے لمبے ادوار کی وجہ سے یہاں تک رسائی ایک خواب تھی لیکن اب افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد چین کا عمل دخل بڑھا ہے۔ لہٰذا اس خطے کے لیے ایک بڑی اور خوش کن خبریہ ہے کہ اب ازبکستان سے افغانستان اور پھر پاکستان میں گوادر اور کراچی کی بندرگاہوں تک ایک ریلوے لائن منصوبہ شروع ہو چکا ہے۔ یہ منصوبہ امریکی انخلا کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ اس ریلوے منصوبے کی لمبائی سات سو کلو میٹر سے زیادہ ہے۔ اس منصوبے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس سے ایک تو سفر میں پانچ دن کی کمی ہو گی تو دوسری طرف کرائے کی مد میں چالیس فیصد تک بچت ہو گی۔
اس منصوبے کی لوکیشن اتنی اہم ہے کہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ازبکستان سینٹرل ایشیا کا وہ ملک ہے جو باقی چاروں ممالک، قازقستان، تاجکستان، کرغزستان اور ترکمانستان کے ساتھ مشترک سرحد رکھتا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس ریلوے منصوبے سے پورا سینٹرل ایشیا منسلک ہو جائے گا۔ یہ مسلم ممالک کا وہ خطہ ہے جہاں آبادی قدرے کم ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ان پانچوں ممالک کی کل آبادی بمشکل دس کروڑ ہے، جبکہ فی کس آمدنی کے اعتبار سے یہ خطہ درمیانے درجے کا ترقی یافتہ علاقہ ہے۔ اس خطے کی معیشت کا کل حجم سوا ٹریلین ڈالر ہے یعنی 1250 ارب ڈالر۔ ایک خطے کے طور پر یہ دس بڑی عالمی معاشی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے جو بہت معنی خیز بات ہے۔ سرد جنگ کے دور میں یہ سبھی ممالک سوویت یونین کا حصہ تھے۔ اس خطے کی اہمیت اس بات سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ ان کے مشرق میں چین جیسی عالمی طاقت واقع ہے۔ پانچ میں سے تین ممالک‘ تاجکستان، کرغزستان اور قازقستان کی سرحد چین کے ساتھ براہِ راست ملتی ہے۔ یہ تین ممالک بھی سی پیک جیسے کوریڈور کا حصہ بن سکتے تھے لیکن وہ روٹ بہت لمبا ہے۔ اب UAP(ازبکستان، افغانستان اور پاکستان) ریلوے منصوبے کی وجہ سے یہ کم فاصلے اور کم وقت میں گوادر بندر گاہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ اب یہ اندازہ ہو جانا چاہیے کہ سی پیک کی مخالفت اور اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھارت کے اضطراب کی وجہ کیا ہے۔ یہ بھی یاد دلاتے چلیں کہ کبھی ''تاپی‘‘ گیس پائپ لائن منصوبے کی بات بھی کی جاتی تھی جو تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا پر مشتمل تھا لیکن انوکھا اور مہلک ملک بھارت اب بھی پاکستان مخالفت کے ساتھ ساتھ چین کے خلاف کھڑا ہونے کی خود کش کوششیں کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت افغانستان میں امریکہ کے چھوڑے گئے اسلحے اور اپنے اثر و رسوخ والے گروہوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے حوالے سے دوبارہ سرگرم ہو چکا ہے۔
چین امریکہ اور بھارت
ایران‘ سعودی عرب تعلقات کی چین کی مدد سے بحالی کے بعد مسلم دنیا کا ایک بڑا بحران ختم ہو چکا ہے۔ اب مسلم دنیا تیزی سے بہتر معاشی راستوں پر چل رہی ہے۔ اس سے متعلق متعدد بار یہ کہا جا چکا ہے کہ اب تو مشرقِ وسطیٰ بھی امریکی اثر سے انتہائی تیزی سے نکل رہا ہے۔ سینٹرل ایشیا کی تازہ ترین ترقی کا آپ سے ذکر ہو چکا، شمالی ایشیا کا دوسرا نام روس ہے جو چین کے ایک اتحادی کے طور پر کھڑا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا بھی کافی حد تک ترقی کی طرف گامزن ہے۔ مشرقی ایشیا میں چین کے علاوہ جاپان اور جنوبی کوریا جیسی معاشی طاقتیں موجود ہیں جبکہ شمالی کوریا اپنی سخت گیر قسم کی پالیسیوں اور ایٹمی طاقت کے زور پر امریکہ کے مقابل اور روس کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس خطے میں ایک کشیدگی تائیوان کی شکل میں موجود ہے جو تاریخی طور پر چین کا حصہ ہے۔ اب یہ علاقہ امریکہ اور چین کے مابین ایک جنگی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کے بعدبحیرہ جنوبی ایشیا میں بھی چین اور امریکہ کی کشمکش جاری ہے۔ البتہ مشرقی ایشیا کے ممالک بھی اب ترقی کی جانب گامزن ہیں یا کم از کم شدید کشیدگی سے پاک ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان ممالک میں کسی ایک کو بھی ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل کا سامنا نہیں۔ باقی رہ گیا جنوبی ایشیا‘ جو بھارت کے خبطِ عظمت اور اس کی خود کش حرکات کی وجہ سے اس وقت ''جنونی ایشیا‘‘ بن چکا ہے۔ اس خطے میں قدرتی ماحول سے متعلق مشکلات اس قدر زیادہ ہیں کہ اس کو مستقبل کا افریقہ اور Worst Asia کہا جاتا ہے۔ ایک طرح سے اسے پوری دنیا کاایسا ''علاقہ غیر‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے جو بھارت نامی گینگسٹر کے زیرِ تسلط ہے۔ کسی مافیا گینگ کی طرح چلنے والا یہ ملک نہ تو اپنی آبادی کی غربت اور بد حالی کا خیال کرتا ہے نہ ہی دوسرے علاقائی ممالک کو کرنے دیتا ہے۔ یہ گینگ بیماری کی دوائی لینے کے بجائے اسلحہ خریدنے پر زور رکھتا ہے۔ جس طرح بالی وُڈ کی فلموں میں دکھایا جاتا کہ گینگسٹرزلوگوں کی زمینوں پر قبضے کرتے ہیں، ''سپاری‘‘ لے کر کرائے کے قاتل بنتے ہیں‘ چھوٹے گینگز کے ذریعے وارداتیں کراتے ہیں‘ کچھ اسی قسم کی پالیسی ریاستی سطح پر بھارت کی ہے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ یہ گینگسٹرز اپنی ساری زندگی ایک اشتہاری کے طور پر گزارتے ہیں اور جب کبھی حکومت یا سیاستدان ان سے تنگ آتے ہیں تو پولیس کے ذریعے انہیں مروا دیتے ہیں۔ ایک بھارتی فلم کا ڈائیلاگ ہے کہ پولیس ''بھائی‘‘ بناتی ہے باپ نہیں۔ اب دیکھیں کہ امریکہ کی وجہ سے علاقے کا بھائی بننے والے بھارت کو چین کب انجام تک پہنچاتا ہے۔